مارکوس پیرسسون کی کہانی نے دنیا بھر کے نفسیات دانوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا‘ یہ اب ایک نئے سینڈروم پر غور کر رہے ہیں‘ یہ سینڈروم ’’مارکوس سینڈروم‘‘ ہو گا اور یہ مستقبل قریب میں دنیا کے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرے گا‘ آپ کو بہت جلد اپنے گردونواح میں بے شمار مارکوس نظر آئیں گے‘ یہ بیماری کیا ہو گی‘ اس کی علامات کیا ہوں گی اور یہ دنیا کو کیوں متاثر کرے گی؟ ہم اس طرف جانے سے پہلے مارکوس کی طرف آتے ہیں۔
مارکوس کا پورا نام نام مارکوس پیرسسون ہے‘ یہ سویڈن میں پیدا ہوا‘ والد ریلوے میں ملازم تھا اور والدہ نرس تھی‘ مارکوس نے زندگی کے ابتدائی سات سال سویڈن کے گاؤں ’’ایڈس بیان‘‘ میں گزارے‘ والد شرابی اور ماں محنتی تھی‘ یہ لوگ بعد ازاں ایڈس بیان سے اسٹاک ہوم شفٹ ہو گئے‘ والد ہمیشہ شراب میں دھت رہتا تھا‘ ماں نے تنگ آ کر طلاق لے لی اور محنت مزدوری سے مارکوس اور اس کی بہن آنا کی پرورش کرنے لگی۔
مارکوس کو پڑھنے کا بالکل شوق نہیں تھا‘ وہ ہائی اسکول تک بھی نہیں پہنچ سکا‘ وہ اسکول کے وقت عموماً بیمار ہو جاتا تھا یا پھر اسکول سے بھاگ کر مارکیٹوں میں پھرتا رہتا تھا‘ وہ بہت برا طالب علم تھا لیکن اسے نئی چیزیں سیکھنے کا شوق تھا‘ وہ کمپیوٹر میں خصوصی دلچسپی لیتا تھا‘ کمپیوٹر کمپنی سی بی ایم نے 1985ء میں نیا ہوم کمپیوٹر متعارف کرایا‘ والدہ نے کمپیوٹر خرید لیا‘ یہ کمپیوٹر مارکوس کی زندگی کا اہم سنگ میل ثابت ہوا۔
مارکوس نے کمپیوٹر کھولا اور یہ نہ صرف اس کے تمام فنکشن سیکھ گیا بلکہ اس نے کمپیوٹر میں ویڈیو گیم بھی بنانا شروع کر دی‘ مارکوس نے ایک سال میں کسی مدد کے بغیر ویڈیو گیم بنا لی‘ والدہ اس کی اس حیران کن صلاحیت سے متاثر ہوئی اور اس نے اس کے لیے آن لائین کورسز کا بندوبست کر دیا‘ مارکوس کورسز کرنے لگا‘ یہ چند برسوں میں کمپیوٹر پروگرامنگ کا ایکسپرٹ ہو گیا۔
یہ اٹھارہ برس کا ہوا تو اسے اسٹاک ہوم کی ایک کمپیوٹر فرم میں پروگرامر کی جاب مل گئی‘ نوکری اس کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ اس نے چھ ماہ میں دفتر کو خیر باد کہا اور ایک چھوٹا سا پرنٹنگ اسٹور کھول لیا‘ یہ پراجیکٹ کامیاب نہ ہو سکا‘ یہ اس کے بعد مختلف نوکریاں کرتا اور چھوڑتا رہا یہاں تک کہ اسے 2005ء میں کنگ ڈاٹ کام میں نوکری مل گئی‘ یہ کمپنی موبائل فون کے لیے گیمز بناتی ہے۔
دنیا کی مشہور ترین گیم کینڈی کریش اسی کمپنی نے بنائی تھی‘ مارکوس میں ویڈیو گیم بنانے کا قدرتی ٹیلنٹ تھا‘ یہ دو گھنٹے میں پوری گیم تیار کر لیتا تھا‘ یہ چار سال کنگ ڈاٹ کام میں رہا‘یہ وہاں سے 2009ء میں ’’جالبم‘‘ میں آ گیا اور اس نے اسی سال اپنے دوست جیکب پورسر کے ساتھ مل کر اپنی کمپنی موجنگ اے بی بنالی‘ یہ کمپنی بھی گیم بناتی تھی‘ یہ اس دوران پیسے جمع کرتا رہا‘ اس نے پیسے جمع کرنے کے بعد کمپنی جیکب پورسر کے حوالے کی‘ گھر میں مقید ہوا اور ’’مائن کرافٹ‘‘ کے نام سے اپنی کمپیوٹر گیم بنانا شروع کر دی۔
اس دوران اس نے شادی بھی کی‘ اس کے گھر بیٹی بھی پیدا ہوئی اور اسے طلاق بھی ہوئی لیکن یہ ان تمام مسائل کے باوجود گیم پر کام کرتا رہا یہاں تک کہ 2011ء کے نومبر میں اس نے گیم مکمل کر لی‘ مائن کرافٹ ریلیز ہوئی اور مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیے‘ گیم کے پہلے ورژن کی دس لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں‘ دس کروڑ لوگوں نے گیم ڈاؤن لوڈ کی‘ ایک طرف یہ کامیابیاں تھیں اور دوسری طرف اس کا والد تھا‘ والد نے کثرت شراب نوشی کی وجہ سے خودکشی کر لی۔
اس خبر نے اسے شدید جذباتی دھچکہ پہنچایا لیکن یہ اس کے باوجود فوکس رہا‘ مائن کرافٹ نے مارکوس کو پوری دنیا میں متعارف کرا دیا‘ یہ دیکھتے ہی دیکھتے مشہور ہو گیا‘ اس کی کمپنی موجنگ اے بی دنیا کی بہترین کمپیوٹر کمپنیوں میں شمار ہونے لگی‘ دنیا بھر کی کمپیوٹر فرمز موجنگ اے بی کو منہ مانگے دام دینے پر تیار ہو گئیں لیکن مارکوس نے کمپنی فروخت کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ نئی گیمز پر کام کرتا رہا‘ مائیکرو سافٹ مارکوس کے کام سے متاثر ہوئی‘ یہ بھی اس کی کمپنی کو کمپیوٹر گیمز سمیت خریدنا چاہتی تھی‘ یہ آفر بھاری تھی‘ یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا‘ گوگل نے اس دوران رابطہ کیا اور مارکوس نے 2014ء میں اپنی کمپنی موجنگ اے بی گوگل کو اڑھائی ارب ڈالر میں فروخت کر دی‘ یوں ایک ڈیل نے نوجوان مارکوس پیرسسون کو ایک ہی دن میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ سڑک سے محلوں کا باسی بن گیا۔
مارکوس نے امیر ہونے کے بعد لاس اینجلس کے امیر ترین علاقے بیورلے ہلز میں 70 ملین ڈالر کا محل‘ ذاتی جیٹ جہاز‘ بحری کشتی اور دنیا کی شاندار ترین گاڑیاں خرید لیں‘ یہ دنیا کے مشہور بزنس مینوں‘ کھلاڑیوں‘ اداکاروں اور ادیبوںں کو دعوتیں دینے لگا‘ یہ پارٹی بوائے بھی بن گیا‘ اس نے بے شمار گرل فرینڈز بنائیں اور یہ دنیا جہاں کی سیاحت بھی کرتا ہے‘ یہ سلسلہ ڈیڑھ سال جاری رہا یہاں تک کہ 2016ء شروع ہوگیا۔
یہ سال مارکوس کے لیے ٹینشن‘ ڈپریشن اور بیزاری لے کر طلوع ہوا‘ یہ اپنی مطمئن‘ مسرور اور فائیو اسٹار زندگی سے تنگ آ گیا‘ یہ مردم بیزار ہوتا چلا گیا‘ آج کل حالت یہ ہے مارکوس سارا سارا دن اپنے کمرے میں پڑا رہتا ہے‘ یہ ہفتہ ہفتہ گھر سے باہر نہیں نکلتا‘ یہ لان میں بیٹھتا ہے تو رات تک ایک ہی کرسی پر بیٹھا رہتا ہے‘ یہ سوئمنگ پول میں گھستا ہے تو سارا دن پانی میں گزار دیتا ہے۔
اس کا دل فلموں‘ گالف‘ کتابوں‘ شراب اور گرل فرینڈز سے بھی بھر چکا ہے‘ یہ دوستوں سے بھی بیزار ہو چکا ہے‘ یہ ڈپریشن میں اکثر اوقات اتنا دور چلا جاتا ہے کہ اسے محسوس ہوتا ہے یہ کسی دن خودکشی کر لے گا‘ مارکوس نے چند دن قبل ٹویٹر پر زندگی کی بیزارگی‘ بے سمتی اور خالی پن کا ذکر کیا‘ اس کا کہنا تھا ’’دنیا میں ہر چیز حاصل کرنے کے بعد آپ کے اندر کوشش کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔
کوشش کی یہ کمی آپ کی زندگی کو غیر متوازن کر دیتی ہے اور یہ عدم توازن آپ کے انسانی رابطوں پر اثرانداز ہوتا ہے‘‘ اس نے لکھا ’’میں دنیا کے مشہور ترین لوگوں میں گھومتا ہوں‘ میرے دوستوں کا گروپ بہت وسیع ہے اور میں جو چاہتا ہوں‘ میں کر سکتا ہوں لیکن میں جتنی تنہائی آج محسوس کر رہا ہوں وہ میں نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی‘‘ اس کا کہنا ہے ’’کام کا جذبہ اور جاننے کی خواہش یہ انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہیں‘ انسان کو ان کی حفاظت کرنی چاہیے‘‘۔
مارکوس کی ان ٹویٹس نے دنیا بھر کے نفسیات دانوں کو حیران کر دیا‘ یہ آج کل مارکوس کی کیفیات پر ریسرچ کر رہے ہیں‘ نفسیات دانوں کا خیال ہے دنیا کا ہر انسان جوانی میں ارب پتی بننا چاہتا ہے‘ یہ محلوں میں رہنا چاہتا ہے‘ یہ جیٹ اور یاٹس خریدنا چاہتا ہے۔
یہ مشہور اور نامور لوگوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا چاہتا ہے اور یہ خوبصورت گاڑیوں میں خوبصورت عورتوں کے ساتھ گھومنا چاہتا ہے لیکن جب دنیا کی یہ تمام نعمتیں ایک غریب نوجوان کو عین جوانی میں مل گئیں تو یہ صرف ڈیڑھ سال میں ان سے بیزار ہوگیا اور یہ بیماروں جیسی زندگی گزارنے لگا‘ کیوں؟
امریکا کے نفسیات دانوں کا خیال ہے انسان کو شاید پیسہ اتنی خوشی نہیں دیتا جتنی خوشی اسے چیلنج‘ جہد مسلسل اور کامیابیاں دیتی ہیں‘ انسان چیلنج کو دیکھ کر الرٹ ہوتا ہے‘ یہ مقابلے کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں جمع کرتا ہے‘ یہ مسائل سے ٹکراتا ہے‘ مسلسل محنت کرتا ہے اور آخر میں کامیاب ہو جاتا ہے‘ کوشش کا آخری اور کامیابی کا پہلا لمحہ خوشی کہلاتا ہے‘ یہ خوشی اسے ہونے کا احساس دلاتی ہے۔
انسان جب سب کچھ پالیتا ہے اور اسے ہر نعمت اشارے سے ملنے لگتی ہے تو اس کی زندگی سے کامیابی‘ کوشش اور چیلنج نکل جاتا ہے‘ ان تینوں کی کمی انسان کے اندر خلا پیدا کر دیتی ہے‘ یہ خلا ڈپریشن اور بیزارگی کو جنم دیتا ہے اور انسان شتر بے مہار بن کربے مقصدیت کے لق و دق صحرا میں بھٹکنے لگتا ہے‘ نفسیات دانوں کا خیال ہے انسان کو کسی قیمت پر خود کو چیلنج‘ کوشش اور کامیابی سے محروم نہیں کرنا چاہیے‘ کیوں؟
کیونکہ ان تینوں کی کمی آپ سے خوشی چھین لیتی ہے اور خوشی سے محرومی آپ کو زندگی سے بے زار کر دیتی ہے‘ مارکوس دنیا میں اس کی تازہ ترین مثال ہے‘اس کی زندگی میں اب کوئی چیلنج نہیں‘ یہ کوشش سے محروم ہو چکا ہے‘ اس کی زندگی کی آخری کامیابی مائن کرافٹ گیم تھی‘ یہ اب باقی زندگی کیسے گزارے گا؟
نفسیات دانوں کے پاس اس کیسے کا کوئی جواب نہیں‘ کیا آپ کے پاس ہے؟ شایدآپ کے پاس بھی نہیں ہوگا!ہم جس کرہ ارض پر آباد ہیں‘ اس میں صرف وہی پھل میٹھے ہوتے ہیں جو آہستہ آہستہ بڑے ہوتے ہیں اور جو دھوپ کی ہلکی ہلکی آنچ پر پکتے ہیں۔
آئیے اللہ سے دعا کریں‘ یہ ہمیں جو بھی دے تھوڑا‘ تھوڑا اور آہستہ آہستہ دے تا کہ ہم مارکوس سینڈروم جیسی بیماریوں سے بچے رہیں‘ ہماری زندگی میں آخری سانس تک زندگی باقی رہے۔
تبصرہ لکھیے