یوں تو ظلم کی نمایاں اقسام میں قتل وغارت گری، لوگوں کی حق تلفی، قانون کا ناجائز استعمال یا اس کی حکم عدولی، جبر و تشدد، بددیانتی، اور دیگر اقسام شامل ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ اور روح فرسا ظلم کی دو تشریحات، مصائب زمانہ کا نمایاں ترین شاخسانہ ہیں۔ اول، ظلم پر خاموش رہنا اور دوم مظلوم کو ظلم سہنے کی ترغیب دینا۔ جب مخلوق خدا، مظلوم رعایا بن کر ظلم سہنے کو اپنا معمول بنا کر جینے لگے، جب ظلم کو مشیت ایزدی کا نام دے کر چپ چاپ اسے سہنے اور اسی گہری خاموشی میں کہیں اندر ہی اندر خدائی مددگاری کی حسرت میں ہی عمر بتانے کی سعی ہونے لگے، تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس قوم کے سر سے ظلم کے بادل چھٹنے کا ابھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔کیوں کہ ظلم کی تلافی صرف اس کے خاتمے کی خواہش ہی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے خاتمے کے لیے ہر طرح کے نتائج کی پرواہ کیے بغیر سرگرم عمل ہونا پڑتا ہے۔ عوام کی خاموشی دراصل ظالم کی طاقت بن جاتی ہے اسی طاقت کے بل بوتے پر ظالم حکمران، رعایا کے احساسات و خواہشات، حتی کہ ان کی عزت و جان تک سے کھیلتا اور اپنی منہ زور، وحشی و حیوانی جبلتوں کی پورے ناز ونعم سے پرورش کرتا ہے۔
انسانی تاریخ کے ہر دور اور ہر عہد میں ایسی رعایا اور ایسے حکمران کا ذکر باآسانی مل جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ”جب روم جل رہا تھا تو نیرو چین کی بانسری بجا رہا تھا“ یہ واقعہ کئی صدیاں پہلے تقریباً 64 ہجری میں بیت چکا ہے۔ جس وقت روم کے جنوب مشرق میں آگ بھڑکی نیرو، روم سے تقریباً 35میل دور Antium کے مقام پر اپنے محل میں موجود تھا۔ادھر روم چھ روز ہیبت ناک طور پر دہکتی آگ کی چنگاریوں کا نوالہ بنتا رہا، ادھر نیرو لاتعلقی اور بےفکری سے اپنے شب و روز میں محو رہا۔ تاریخ دان اس دور کے عوام کے اس خیال کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ آگ لگوانے کا ذمہ دار نیرو بذات خود تھا۔ جس کی وجہ اس کی روم کو اپنی مرضی اور جدید طرز معاشرت کے مطابق آباد کرنے کی خواہش تھی۔ کچھ کا ماننا یہ بھی ہے کہ وہ روم میں اپنا محل تعمیر کروانا چاہتا تھا اسی لیے پرانے روم کو تہس نہس کرنا ضروری تھا۔ ایک مکتبہ فکر کا اس کے برعکس خیال ہے کہ اول تو اس زمانے میں بانسری سرے سے ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ یہ تو تقریباً گیارھویں صدی کی ایجاد ہے۔ وہ اس بات کا بھی تاریخ سے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ جونہی آگ لگنے کی اطلاع نیرو کو ہوئی، وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر روم آ گیا اور لوگوں کو امدادی کمک پہنچانے لگا۔ ہو سکتا ہے کہ نیرو اس وقت بانسری نہیں بلکہ اس دور کا کوئی اور آلہ موسیقی بجا رہا ہو یا کسی آلہ موسیقی کو اس سے منسوب کرنے کا مقصد محض اس کی حالات سے عدم دلچسپی کو واضح کرنا ہی ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آگ اس کے کہنے پر نہ لگائی گئی ہو، لیکن تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ نیرو ایک انتہائی ظالم، جابر، بدکردار اور سازشی حکمران تھا۔ وہ نہ صرف اپنی ماں کا قاتل تھا بلکہ اپنی تمام بیویوں میں سب سے زیادہ محبوب ترین بیوی پر بھی ایسا بھیانک تشدد کرتا تھا کہ وہ حمل کے دوران اسی کے تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گئی۔ نیرو نے روم کے جلنے کی ذمہ داری اپنے سر سے اتار کر عیسائیوں پر ڈال دی اور انتہائی بےدردی سے ان کا قتل عام کیا۔ نیرو کے اس کردار کی ذمہ دار ایسی ہی خاموش تماشائی بنی عوام تھی اور بعد ازاں اس کے انجام کا باعث بھی یہی عوام بنی۔ سن68 میں سینٹ نے اسے تادم موت کوڑے مار نے کا حکم صادر کیا، لیکن اس خفت اور ذلت سے بھری موت کے بجائے اس نے خودکشی کو ترجیح دی۔
ایسی ہی ایک کہانی فرانس کی ملکہ Marie Antoinette کی بھی ہے جس کا اپنی عوام کی کسمپرسی کا مذاق اڑاتا ہوا ایک قول اس کی وجہ شہرت بنا کہ ”عوام کو کہو کہ اگر کھانے کو روٹی میسر نہیں تو وہ روٹی کی جگہ کیک کھا کر گزارا کر لیں“ ملکہ کے بارے میں مؤرخ بتاتے ہیں کہ اس کی عیش و عشرت سے بھری زندگی کے ذاتی اخراجات ریاست کے کل اخراجات کے برابر تھے۔ 1789ء کے انقلاب فرانس کی وجہ ایسی ہی بادشاہت کے ظلم و جبر، اور دہشت و بربریت بنی۔ لیکن بدعنوان کلیسا اور اشرافیہ کے خلاف جو طبقہ اٹھ کھڑا ہوا وہ فرانس کا متوسط طبقہ تھا۔گو کہ اس طبقے کے محض ایک ہزار لوگوں نے ہی اس استحصالی نظام سے ٹکر لی لیکن ان کی بے پناہ طاقت اور بے پایاں مدافعت نے بادشاہت کے ایوان ہلا کر رکھ دیے۔ یہ معاشرے کے باشعور، پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد تھے۔ ان کی طاقت بہم پہنچانے والے نظریات کو الحادی نظریات کا نام دیا جاتا ہے لیکن اس وقت کے حالات کلیسا کے جبر و استبداد سے جڑے ہوئے تھے اور اس استبدادی و استحصالی نظام سے چھٹکارے کے لیے لوگوں کو کلیساؤں میں پلنے والے ان مذہبی خداؤں کے اثر سے باہر نکالنے کے لیے ایسے نظریات کا پرچار اس وقت کا تقاضا تھا۔
دنیا ہمیشہ سے تین طرح کے طبقات میں بٹی رہی ہے۔ اول، طبقہ خاص یعنی اپر کلاس یا اشرافیہ، استحصالیت کو جنم دینے والا طبقہ، جو اپنے استحصالی نظام کے بل بوتے پر باقی طبقات کے وجود میں اپنے خونی پنجے گاڑتا ہے۔ پہلے معاشی طاقت کے بل بوتے پر انسانوں کا خون چوستا ہے اور پھر معاشرتی و مذہبی طاقتوں کو استعمال کر کے اپنے غیر انسانی رویوں کو جواز دلواتا ہے۔ وہ کبھی مذہب کی آڑ لے کر محکوموں کو ظلم سہنے پر مجبور کرتا ہے تو کبھی دولت کے زور پر طاقت کی فصیلیں تعمیر کرتا اور پھر ان میں چھپ کر بے بس اور مجبور و مظلوم انسانوں کا شکار کرتا ہے۔ دوسرا طبقہ، معاشرے کا کسی حد تک بےضرر اور لا تعلق طبقہ، جو اپنے شب و روز محض دو وقت کی روٹی کی فکر اور بندوبست میں گزار لیتا ہے۔ رات کو اپنا تھکا ہارا وجود لے کر اپنی مخدوش سی کھاٹ پر آنکھوں میں صبح کی فکر کے سائے دبائے پڑ رہتا ہے۔ جسے روٹی کے علاوہ نہ کوئی امید ہے نہ کوئی حسرت۔ اس کے چھوٹے بڑے غم، فکر معاش سے شروع ہوتے اور اسی پر ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ نہ کوئی اس کا خواب ہے نہ تبدیلی کی آرزو۔ تیسرا طبقہ، سب سے اہم طبقہ، یعنی متوسط طبقہ۔ وہ جو معاشرے و ریاست کی اصل طاقت ہے۔ اس کی طاقت اس کا علم اور شعور ہے۔ زندگی کا کوئی بھی میدان عمل اس کے بغیر ادھورا ہے۔ میڈیکل، انجنئیرنگ، وکا لت، شعبہ تعلیم، سائنس اور دیگر افرادی قوت کے کئی شعبے اسی کلاس کے مرہون منت ہیں۔ یہ طبقہ عموماً تعداد میں بھی کثیر ہوتا ہے اور صلاحیت میں بھی بڑھ کر۔ اگر دنیا کے بڑے بڑے انقلابات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام قسم کے معاشی، سیاسی، اور سماجی انقلابات نے اسی کلاس کی فرسٹریشن سے جنم لیا۔ 1789ء کا فرانسیسی انقلاب، جس نے فرانس کی شہنشاہیت کو جمہوریت یا پاپولر رول کے حق میں گرا دیا اور محض فرانس ہی نہیں پوری دنیا کا نظام بدل کر رکھ دیا۔گو کہ یہ انقلاب مذہب سے بےزاری کا اظہار تھا لیکن اس انقلاب سے آزادی، برابری، معاشی و سماجی مساوات کا جو سبق دہرایا گیا، اس کا پرچار کئی سو سال پہلے مذہب ا سلام کے ذریعے کر دیا گیا تھا۔ اس انقلاب کے پیچھے بھی مڈل کلاس ہی کی طاقت کارفرما تھی۔
کیوبا میں مڈل کلاس کے دانشوروں نے ہی کاسترو کو طاقت بہم پہنچائی اور امپیریل ازم کے خلاف انتھک جدوجہد کے دروازے کھولے۔ امریکی انقلاب کے بنیادی رہنماؤں بنجمن فرینکلن سے پال ریور تک سب کا تعلق مڈل کلاس سے تھا۔ جب یورپ مڈل ایجز سے ابھر رہا تھا تو مڈل کلاس ہی انقلابی عناصر پیدا کر رہی تھی۔ جب سائنس، فلکیات، فزکس، اٹانومی، فزیالوجی اور انڈسٹریل پروڈکشن میں، نیچرل objects کو فزیکل properties میں بدلا جا رہا تھا تو سائنس نے چرچ کے خلاف بغاوت کی، عقل نے فرسودہ نظام تفکر کے خلاف علم بغاوت اٹھایا۔ اس بغاوت کے شریک کاروں کا تعلق بھی اسی کلاس سے تھا۔ الغرض جب بھی دنیا میں زندگی غیرمستحکم اور غیرمحفوظ ہوئی مڈل کلاس نے ہی اسے تحفظ دینے کو اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ بہت سی سیاسی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیوں کا باعث اس کلاس کے مفکرین و دانشور ہی بنے۔ کسی بھی سوسائٹی کی معاشی و اقتصادی، اور معاشرتی ترقی میں بھی مڈل کلاس ہی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ معاشرے کے کلچر اور روایات کو بچانے اور سنوارنے میں بھی اسی کا اہم کردار ہوتا ہے۔
ارسطو کے بقول ”کامیاب سیاسی معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ متوسط طبقے کے افراد شامل ہوں“ لیکن یہاں جارج برناڈ شاہ کا قول بھی بیان کرنا ضروری ہے کہ ”متوسط طبقہ اپنے لیے نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جیتا ہے جبکہ اشرافیہ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لیے متوسط اور غریب طبقہ کے ذہین لوگوں کو خریدنے کی کوششوں میں لگا رہتا ہے لیکن مڈل کلاس طبقہ معاشی و تعلیمی ترقی کی مساوی بنیاد پر انقلابی تبدیلیاں لاتا ہے جس کے نتیجے میں فرسودہ اور جاگیردارانہ نظام خود بخود تحلیل ہو جاتا ہے.“
یہ بھی درست ہے کہ مڈل کلاس معاشرے کی سب سے زیادہ فرسٹریٹڈ کلاس ہوتی ہے۔ اس کی فرسٹریشن کا جنم ان نا مساعد حالات میں ہوتا ہے جن میں وہ معاشرے کی ناہمواریوں کا مشاہدہ و تجربہ کرتی ہے کیوں کہ وہ معاشرے کی سب سے زیادہ حساس، با شعور اور پر فکر کلاس ہوتی ہے اس لیے جب وہ بہت کچھ کرنا، کہنا اور بدلنا چاہتی ہے لیکن معاشرے کا استحصالی طبقہ اسے یہ سب کہنے، کرنے اور بدلنے نہیں دیتا تو اس کی فرسٹریشن اس کا حصار کرنے لگتی ہے۔ اب اس کے پاس دو ہی راستے رہ جاتے ہیں یا تو وہ خاموشی سے سب چلتا دیکھتی رہے یا پھر اس نظام کا حصہ بن جائے۔ تیسرا راستہ نسبتاً مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے جسے اپنانے کی جرات اور ہمت وہ بہت کم ہی جتا پاتی ہے اور وہ راستہ ہے لڑنے کا راستہ۔ اس استحصالی نظام اور استحصالی طبقے کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا۔
مڈل کلاس کی فرسٹریشن دو طرح کے افعال ادا کر سکتی ہے۔ اسے اپنی تسکین کی دو راہیں درکار ہو سکتی ہیں۔ اول منفی راہ ،جو انتشار، لاقانونیت اور منفی بغاوت پر منتج ہوتی ہے۔ یہ فرد کو منفی سرگرمیوں میں الجھا کر اپنی تسکین پاتی ہے۔ اور دوسرا راستہ تخریب کے بجائے تعمیر کا راستہ ہے جو اس کی فرسٹریشن کو مثبت اظہار دیتا ہے۔ فرد میں لڑنے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور جرات جاگ اٹھتی ہے۔ وہ اپنی معاشی محرومیوں اور کمتری کو بدلنے اور ان سے چھٹکارہ پانے کے لیے تعمیر اور ترقی کی راہ کی طرف گامزن ہوجاتا ہے۔
اس کلاس کے پاس جہاں محرومیوں کا انبار موجود ہوتا ہے وہیں اس کی خوش قسمتی کے بھی کچھ عوامل ہمیشہ سے اس کا خاصہ رہے ہیں۔ اول، اس میں غرور اور احساس برتری بہت کم پایا جاتا ہے۔ یہ دونوں ہی احساسات انسان کی صلاحیتوں کوگھن کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ یہ انسان کو خود پرستی کی طرف لے جاتے ہیں۔ کسی حد تک خود پرستی کی ممانعت نہیں۔ لیکن حد سے زیادہ خودپرستی صلاحیتوں کو نکھارنے اور سیکھنے کے عمل میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ متوسط طبقے کے پاس ایک بڑی صلاحیت اس کی روحانیت اور اس کا ضمیر بھی ہے۔گو کہ حالات کی سنگینی کبھی اس ضمیر کے راستے کی بڑی مزاحمت بن کر فرد کے لیے ہزیمت کا باعث بھی بن جاتی ہے لیکن اس طبقے کی مجموعی تربیت کا نتیجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ ضمیر کی آواز عمر کے کسی نہ کسی حصے میں سن کر اپنے سابقہ افعال کی تلافی کرنے میں کامیاب ہو ہی جاتے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہوتی ہے کہ اس کلاس کی فرسٹریشن کو کس طور مثبت اظہار فراہم کر کے قابل استعمال بنایا جائے۔ محض ذات کا اعتماد انسان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کا ایک بہترین سبب بن سکتا ہے۔ یہ معاشرے کی ترقی اور بیداری کا سب سے افضل ویکیوم ہے۔ ذات کا اعتماد ہی نہ صرف مخفی صلاحیتوں کو منکشف کرتا ہے بلکہ سسٹم کو چلانے اور بہتری کی کاوشوں کی طرف مائل کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے۔ اور یہ کردار بنیادی طور پر درسگاہوں کی ذمہ داری ہوتا ہے جس سے ہماری درسگاہیں مکمل طور پر نااہلی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ سب والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے جو اپنے بچوں کی نفسیات کی جانچ پڑتال کر سکیں لیکن سارے اساتذہ تو بہرحال تعلیم کے مراحل سے گزر کر ہی اس مقام تک پہنچتے ہیں اور انہیں اپنے شاگردوں کی نفسیات کو سامنے رکھ کر ان کی تربیت کے قابل بھی ہونا چاہیے لیکن ایسا نہیں۔ اس فرسودہ حکومتی نظام تعلیم سے پڑھ کر نکلے نوجوان ڈگریاں تو لے لیتے ہیں لیکن اپنے معاشرتی کردار کو ادا کرنے سے عاری رہ جاتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کے احساس کمتری میں ہی گھٹ گھٹ کر مر جاتے ہیں یا اسی گلے سڑے نظام کا حصہ بن جاتے ہیں ۔
پاکستان کی مڈل کلاس دنیا کے اٹھارویں نمبر کی بڑی کلاس ہے۔ ملک کے تقریباً 55 فیصد لوگ اس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2008ء تک یہ شرح 36.5 % تھی۔ سو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کلاس پاکستان میں بڑھ رہی ہے۔ تعلیم کا زیادہ رحجان بھی اسی کلاس میں پایا جاتا ہے جو گزشتہ کچھ سالوں سے بڑھ رہا ہے۔ اس کلاس میں تقریبًا5.7% نوجوان ہیں جب کہ انڈیا میں یہ شرح محض 3% ہے۔ لیکن اس کلاس کے نامساعد معاشی حالات اس کے فعال ہونے میں رکاوٹ ہیں۔ وہ لوگ جو اس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشرے میں اعلی مقام پا چکے ہیں وہ اپنی بے حسی کا کمال ثبوت دے رہے ہیں۔ ان کے رویے اس معاشرے سے لا تعلقی کے ہیں۔ اگرچہ کہ معاشرتی استحصالی کا انہیں ادراک بھی ہے لیکن وہ ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے گریز اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یا تو اس کلاس کو اس کی صلاحیتوں پر اعتماد کرنا سکھایا ہی نہیں گیا یا پھر ان کی صلاحیتں جذبوں سے خالی ہو کرانسانیت کے بہترین مفاد میں صرف ہونے کے بجائے محض ان کی ذاتی ترقی تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ اگر کچھ باشعور اور پڑھے لکھے دانشور آگے آئے بھی ہیں تو وہ محض مذہب اور لادینیت جیسے موضوعات کی بحث میں الجھ کر دیگر کئی گھمبیر قسم کے معاشرتی مسائل سے چشم پوشی کی راہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ عوامی بیداری اور شعور کا نہ ہونا ہے، ہمارا ایک مسئلہ آواز نہ اٹھانے کا بھی ہے۔ کسی نے کیا درست کہا ہے کہ یہ قوم لاشیں تو اٹھا سکتی ہے لیکن آواز نہیں۔ ہمارا مسئلہ تعلیم کی کمی اور فرسودہ نظام تربیت ہے۔ہم ارے سیاسی شعبدہ باز ہمارا خون نچوڑتے رہیں ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے ملک کو رشوت، سفارش، اقرباپروری کی جونکیں چمٹی رہیں ہم خاموش ہی رہیں گے۔ ہماری مڈل کلاس انقلابی بننا نہیں چاہتی، وہ متحد ہوکر اپنے مسائل کا ادراک کرنا اور کروانا نہیں چاہتی۔ وہ اس استحصالی نظام کا ایندھن بنتی آئی ہے اور بنتی رہے گی۔ اگر کچھ اور سال ایسا ہی چلتا رہا تو یہاں حکومت ہی نہیں پوری عوام ہی نیرو کی طرح چین کی بانسری بجاتی رہ جائے گی اور سب کچھ جل کر خاکستر ہو جائے گا۔
تبصرہ لکھیے