دنیا میں جب بھی کسی قوم نے عروج پکڑا تو اس کی کوئی نہ کوئی خوبی پس پشت رہی ہے. مادی ترقی بھی کسی نہ کسی قابلیت اور اعلی ریاستی اصولوں کی ہی مرہون منت ہوتی ہے. اور اگر کوئی قوم پیچھے رہ جاتی ہے تو اس کی وجہ بھی اس قوم کی اپنی خرابیاں ہی بنتی ہیں. دشمن کبھی بھی کسی قوم کی ہر کمزوری کو نہیں پکڑ سکتا. آج اگر یورپ اور امریکہ مادی ترقی میں آگے بڑھے ہیں تو اس میں بہت سا دخل ان کے عوام اور اداروں کی ارتقائی شعوری بالیدگی کو حاصل ہے. عوام ذی شعور ہوئے اور ادارے پختہ تر. حکمران کوئی بھی ہو، کتنا بھی قابل ہو، زیادہ سے زیادہ دو دفعہ اس کو موقع دیا جاتا ہے. یہ موقع آٹھ یا دس سال بنتا ہے. آٹھ دس سال ایک آدمی اپنی ٹیم کے ساتھ بروئے کار آتا ہے اور چلا جاتا ہے. ادارے اسی کامیابی سے چلتے رہتے ہیں اور نئے لوگ نئی توانائی کے ساتھ میدان عمل میں آجاتے ہیں. جو اپنے ویژن کو مدنظر رکھتے اور اسے پورا کرنے کے لیے جدوجہد شروع کردیتے ہیں. آٹھ دس سال کا عرصہ صلاحیتیں منوانے کے لیے کافی ہے. مہاتیر محمد اسلامی دنیا میں اس کی بہترین مثال ہے.
پاکستان اور بالخصوص پنجاب کا جائزہ لیں تو یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بعد شریف برادران کو یہاں حکومت کرنے کا سب سے زیادہ موقع ملا ہے. اور پنجاب کا حال آپ کے سامنے ہے. کرپشن اور جرائم روز افزوں بڑھے ہیں اور بڑھتے ہی جا رہے ہیں. سپریم کورٹ نے بھی صوبائی دارالحکومت کے ادارے ایل ڈی اے کو ملک کا کرپٹ ترین ادارہ ہونے کا اعزاز بخشا ہے. پنجاب اور باقی ملک میں صرف 2015ء کے دوران ہونے والے صرف اہم فوجداری جرائم کا تناسب ملاحظہ کریں.
گزشتہ سال ملک میں قتل کی کل رجسٹر وارداتیں 13276 ہوئیں، جن میں سے صرف پنجاب میں 5953 قتل ہوئے. پنجاب کا تناسب باقی سارے ملک کی نسبت 44.84 فیصد بنتا ہے.
گینگ ریپ کی ملک میں کل 329 وارداتیں ہوئیں، اور ان میں سے صرف پنجاب میں 263 واقعات ہوئے. اس قبیح جرم میں پنجاب کا تناسب باقی ملک کی نسبت 79.93 فیصد ہے.
انفرادی زنا بالجبر کے ملک میں کل 3285 واقعات ہوئے، ان میں سے پنجاب میں 2734 واقعات ہوئے جس کا تناسب 83.22 فیصد بنتا ہے.
ڈکیتی کی ملک میں کل 81520 وارداتیں ہوئیں، جن میں سے صرف پنجاب میں 66861 وارداتیں ہوئیں، اس ڈکیتی کی وارداتوں کا پنجاب میں تناسب 82.017 فیصد رہا.
گاڑی اور موٹر سائیکل چوری کی ملک میں 33243 رجسٹر وارداتیں ہوئیں، اور صرف پنجاب میں 21072 وارداتیں 63.38 فیصد کے تناسب سے ہوئیں.
مذکورہ اعداد و شمار صرف 2015ء کے ہیں اور وہ واقعات ہیں جو باقاعدہ تھانوں میں رجسٹر ہوئے یا منظر عام پر آئے. جو منظر عام پر نہ آسکے ان پر مٹی بھی ڈال دیں تو شریف برادران کا پنجاب آپ کے سامنے ہے. پنجاب کی آبادی کے بارے میں سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ پنجاب کی آبادی باقی سارے ملک سے زیادہ ہے. تو یہ صورتحال بھی واضح کیے دیتا ہوں کہ پنجاب کی آبادی پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 55 فیصد ہے جب کہ پنجاب کے جرائم کا تناسب کم از کم 75 فیصد بنتا ہے. پولیس اور تھانوں کی تعداد بھی یہاں باقی ملک کی پولیس اور تھانوں کے دوگنا سے بھی زیادہ ہے.
مذکورہ اعداد و شمار سامنے لا کر یہ بتانا ہے کہ 2018ء میں ایک بار پھر شیر کی آمد کی پیش گوئیاں ہو رہی ہیں. کوئی بھی قوم اپنی کوتاہی اور غلطیوں کی وجہ سے ہی زیر عتاب آتی ہے. اور غلطی کا بار بار ارتکاب اجتماعی وبال کا ضامن ہوتا ہے. جب تک قوم روایتی سیاسی مزاج سے ہٹ کر شفاف لوگوں پر اعتماد نہیں کرے گی جرائم کے یہ گراف بڑھتے جائیں گے.
فطرت افراد سے اغماض تو برت لیتی ہے
کرتی نہیں کبھی ملت کے گناہوں کو معاف
تبصرہ لکھیے