ہوم << فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

فیصلے کی گھڑی-اوریا مقبول جان

orya
لندن کے ایک معروف اخبار نے 24مارچ‘ 1933 کو ایک ہیڈ لائن لگائی جس نے پورے یورپ میں ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ “Judea declare war on Garmany” (یہودیوں نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا)۔ خبر کی تفصیل بہت خوفناک ہے۔ دوسری ہیڈ لائن تھی، ’’دنیا بھر کے یہودی متحد ہو گئے اور انھوں نے جرمنی کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا‘‘۔ خبر بتاتی ہے کہ دنیا بھر کے یہودیوں نے جرمنی کے خلاف معاشی جنگ کا اعلان کیا ہے۔ ایک کروڑ چالیس لاکھ یہودی فرد واحد کی طرح اکٹھے ہو چکے ہیں۔
یہ سب یہودی ہر سطح پر جرمنی کا مقابلہ کریں گے‘ دکاندار‘ بینکر‘ تاجر یہاں تک کہ یہودی بھکاری بھی اپنا کشکول جرمنی سے جنگ کے لیے خالی کر دے گا۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں‘‘۔ یہ خبر ٹھیک ایک دن کے بعد اخبار میں لگائی گئی کیونکہ 23مارچ کو ہٹلر کی نازی پارٹی اور اس کی شریک جرمن نیشنل پارٹی نے یہودیوں کی تفتیش کے لیے پہلا کنسٹریشن Concentration کیمپ قائم کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب نہ چوبیس گھنٹے کا ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور نہ ہی سوشل میڈیا۔ لیکن اگلے دن ہی لندن کے اخبار نے یہودیوں کی طرف سے ہٹلر کے خلاف طبل جنگ بجا دیا اور پھراس قدر بجاتے رہے کہ پورے یورپ میں یہودیوں کے خلاف اور ان کی حمایت میں ایک فضا بن گئی۔
اس سارے کھیل کا مقصد یورپ میں صدیوں سے رہنے والے یہودیوں کو غیرمحفوظ بنا کر اسرائیل کی سرزمین کی طرف دھکیلنا تھا جہاں پہلی جنگ عظیم کے بعد سے ہی وہ جا کر آباد ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ معاشی بائیکاٹ اور وہ بھی یہودیوں کی جانب سے‘ کیا اتنا خطرناک تھا کہ حکومت گرا سکتا تھا۔ جی ہاں! اس لیے کہ یہ بائیکاٹ ان یہودی سود خور بینکاروں کی جانب سے تھا جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں اپنا سرمایہ لگایا‘ اور پھر اس سے کئی گنا زیادہ کمایا۔ پہلی جنگ عظیم کے بہت بڑے مورخ ایلن بروگر(Alan Bruger) کے مطابق ان عالمی سود خور بینکاروں نے محاذ جنگ پر مرنے والے ایک سپاہی کے عوض دس ہزار ڈالر کمائے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب 1913 میں امریکا کا کل بجٹ 714 ملین ڈالر تھا اور صرف ایک سرمایہ دار راک فیلر کی سلطنت 900 ملین ڈالر پر محیط تھی۔ 1913سے لے کر آج تک پوری دنیا کے بینکاری نظام پر آٹھ خاندانوں کا قبضہ ہے۔ روتھ شیلڈ (Roth Schid)‘ راک فیلر (Rock feller)‘ کوہن لوچ (Kuhn Loch)‘ لی مین (Lehman)‘ لزارڈ (Lazard) اور اسرائیل موسیز سیف (Israel Moses seif)۔ امریکا کا فیڈرل بینک یعنی ٹریژی بھی انھی  کے کنٹرول میں ہے۔
ایک عالمی جنگ ان سود خور بینکاروں کی ضرورت کیوں ہوتی ہے۔ ان سرمایہ دار سود خور بینکاروں کا پیٹ چھوٹے چھوٹے مقروض صنعتکاروں کی دولت سے نہیں بھرتا۔ یہ طریقہ ایک مستقل سردرد ہے چھان پھٹک کر قرض دینا اور اپنے قرضے کی واپسی۔ کس قدر بہتر ہے کہ حکومتوں کو مقروض کرو اور پھر وہ عوام کا خون نچوڑ کر قرض کی ادائیگی کریں۔ اس کے لیے دنیا بھر میں پہلا تجربہ جنگ عظیم اول تھی۔ کوئی مورخ آج تک اس گورکھ دھندے کو حل نہیں سکا کہ پہلی جنگ عظیم شروع کیسے ہوئی۔
سرائیگو میں ولی عہد فرڈنیڈ کے قتل کے بعد آسٹریا نے سربیا سے معافی مانگنے کو کہا‘ سربیا نے معافی نامہ لکھ کر بھیج دیا لیکن آسٹریا نے جنگ کا اعلان کر دیا۔پورے یورپ کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ٹیکسٹ کی کتابوں میں یہی کہانی پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن دنیا بھر کے سنجیدہ مورخ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قتل تو ایک بہانہ تھا اس کے پیچھے کئی سالوں کی جنگی تیاری تھی‘ اسلحہ خریدا جا چکا تھا۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا طوفان عروج پر تھا۔ اس جنگ کو چھیڑنے کے عمل کو آٹھ بڑے سودی بینکار خاندانوں کا فارمولا کہا جاتا ہے جسے روتھ شیلڈ فارمولا کہتے ہیں یعنی’’اقوام کو اقوام کے خلاف کھڑا کرو تاکہ دونوں طرف قرضہ دے کر کماؤ۔‘‘ جنگ عظیم اول ختم ہوئی تو سب کو معلوم تھا کہ جرمنی کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔
لیکن یہ جنگ کسی کو تباہ کرنے کے لیے تھوڑا کی گئی تھی ۔یہ تو انھیں لوٹنے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ پہلے تو جنگ کے دوران بینکوں نے جرمنی کو اس کے خفیہ آپریشن کے لیے قرضہ فراہم کیا‘ پھر جب جرمنی ہار گیا تو اس پر بھاری تاوان جنگ ڈال دیا گیا۔ سب کو پتہ تھا کہ تباہ حال جرمنی جنگ کا تاوان اور قرضہ ادا نہیں کر سکتا۔ یہ سود خوربینکار سامنے آئے‘ جرمنی کو پہلے ڈاوس (Dawes) پلان‘ پھر (Yung) ینگ پلان کے ذریعے امریکیوں نے بھاری قرضے دیے گئے۔ 31اگست 1921ء کو جرمنی نے ایک ارب سونے کے مارک قرض اور سود کی صورت ادا کر دیے ۔ یہ منظر بھی دیکھنے کے قابل تھا جب سونے اور چاندی کے یہ سکے بکسوں میں بھر کر ریل کے ذریعے سوئٹزر لینڈ ‘ ڈنمارک اور ہالینڈ لے جائے گئے اور سٹیمر میں ڈال کر امریکا کے سود خور بینکاروں کے حوالے کیے گئے۔ یہ عالمی بینکاروں کا پہلا کامیاب تجربہ تھا۔
عالمی جنگ سے پیسہ کمانے کا عالمگیر تجربہ۔ اس کے بعد روتھ شیلڈ فارمولا کے تحت پوری دنیا کو دوسو کے قریب قومی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ پاسپورٹ‘ کرنسی‘ ویزا‘ جھنڈہ‘ ترانہ اور سرحد جیسے مقدس لفظ وجود میں آئے۔ ہر ملک کی مسلح افواج بنیں اور ہر ایک کا دشمن بھی تخلیق ہو گیا۔ اب تو جنگ بھی آسان ہو گئی اور اس سے منافع کمانے کا راستہ بھی ۔صرف پچیس سال کے اندر اندر دوسری جنگ عظیم برپا ہوئی۔
امریکا اتحادی فوج کا حصہ تھا لیکن آپ حیران ہوں گے کہ امریکا کی فورڈ کمپنی فرانس میں جرمن فوجیوں کو ٹرک بھیجتی رہی‘اسٹینڈرڈ آئل کمپنی سوئٹزر لینڈ کے راستے جرمنی کوتیل فراہم کرتی رہی۔ انٹرنیشنل امریکن ٹیلیفون کمپٹی ITTکا سربراہ سوستھینی بین Sosthene behn امریکا سے میڈرڈ گیا‘ وہاں سے جرمنی کے شہر برن پہنچا اور ہٹلر کے مواصلاتی نظام کو موثر بنایا اور ان کے ربورٹ بم کی صلاحیت کو بہتر کیا تاکہ وہ لندن پر بم برسا سکیں۔ اسی دوران بال بیرنگ بنانے والی کمپنیوں نے جنوبی امریکا کے ممالک کے ذریعے جرمنی کو بال بیرنگ مہیا کیے جب کہ امریکی افواج اس کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہی تھی۔ اس جنگ کے بعد ان سودی بینکاروں نے تباہ حال یورپ سے جو کچھ وصول کیا اور آج تک کر رہے ہیں وہ ان کی مکمل تقدیر ہے۔ ان کو قرضے دے کر پاؤں پر اس لیے کھڑا کیا گیا کہ وہ دوبارہ قرض ادا کریں اور پھر قرض لیں۔
یورپ تباہ ہو گیا ‘ برباد ہو گیا‘ لٹ گیا‘ ہر کسی نے جنگ سے توبہ کر لی‘ ہر کوئی جنگ سے نفرت کر کے ان سودی بینکاروں کی تجوریاں بھرنے کے لیے دن رات کمائی کرنے لگا۔ لیکن کیا دنیا سے جنگ ختم ہو گئی… نہیں ہرگز نہیں… جنگ تو ان سود خوروں کا سب بڑا کاروبار ہے۔ جنگ ویت نام چلی گئی‘ کمبوڈیا اور لاؤس میں جا پہنچی چلی‘ نکارا گوا اور ہنڈراس میں آگ برسانے لگی‘ انگولا ‘ صومالیہ ‘ اور پورے افریقہ میں تباہی پھیلانے لگی۔ افغانستان کو برباد کرتی ہوئی عراق جا نکلی اور اب شام کے افق پر روز بجلی کی طرح چمک رہی ہوتی ہے۔
کیا ان تمام جنگوں میں اسی پورپ کا سرمایہ اسلحہ اور فوجیں شامل نہیں تھیں‘ جنہوں نے جنگ سے توبہ کر لی تھی۔ تو بہ نہیں کی تھی‘ بلکہ یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اب جنگ ہم دوسرے کی سرزمین پرلڑیں گے‘ دوسروں کے سروں کی فصلیں کاٹیں گے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ان سودی بینکاروں نے جس قدر سرد جنگ کے 45سالوں میں کمایا ہے وہ پہلی دو جنگوں سے بھی زیادہ ہے ۔سامان جنگ نیا بھی ہے اور مہنگا بھی ۔ خوف کا عالم ویسے ہی ہے۔ پہلے نازی دہشت گرد تھے‘ پھر کمیونسٹ دہشت گرد اور اب مسلمان دہشت گرد۔ رنیڈ کارپوریشن نے 2009ء میں کہا تھا،’’ امریکی معیشت کو ایک عالمی جنگ ہی بچا سکتی ہے‘‘۔ میدان جنگ منتخب ہو چکے‘ شام اور ہندوستان ۔ان مضبوط معیشتوں کا بھی اندازہ کر لیا گیا ہے جو جنگ کا خرچہ اٹھاسکتی ہیں۔
یہ ہیں‘ روس‘ چین ‘ بھارت ‘عرب ریاستیں اور ایران ۔ یورپ کو بھی مسلمان دہشت گردوں سے خوفزدہ کر کے جنگ کے لیے تیار کر لیا گیا ہے۔ 1933ء میں ایک اخبار تھا جس نے ہیڈ لائن لگائی تھی ۔ اب پورا میڈیا ایک خوفناک جن بن چکا ہے۔ شام میں لڑائی چلتی رہتی ہے تو عرب کمزور ہوں گے اور روس اس بندرگاہ کو استعمال نہ کر سکے گا۔ ایک خود مختار کشمیری ریاست کی جدوجہد شروع ہوتی ہے اور وہ بن جاتی ہے تو چین کی معاشی ناکہ بندی ممکن اور پاکستان کا معاشی استحصال۔ صرف دو ماہ پہلے فلپائن کو چین کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں فتح دلوائی گئی کہ چین اپنے جنوبی سمندر کے جزیروں پر حق نہیں رکھتا۔ چین نے کہا ہم اس فیصلے کو نہیں مانیں گے۔
لوہا گرم‘ بھٹی چل پڑ ی ہے‘ کوئی ایک واقعہ‘ ایک حادثہ اس بارود کو آگ لگا دے گا۔ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ سیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی آخری عالمی جنگ کے بارے میں انھی دو محاذوں کا ذکر کیا ہے۔ ’’شام و ہند‘‘ اور فتح کی بشارتیں دی ہیں۔ جو اللہ کے رسول ؐ پر ایمان رکھتے ہیں وہ بھی جان لیں کہ یہ جنگ رکنے والی نہیں ‘ اور جو عالمی نظام کو زر کو خدا مانتے ہیں‘ وہ بھی سمجھ لیں کہ جنگ آ رہی ہے۔ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ یہ جنگ ہم نے کس کے مفاد کے لیے لڑنا ہے‘ اللہ کے دین کی عظمت کے لیے یا عالمی استعمار کے ایجنڈے کے لیے… فیصلے کی گھڑی ہے۔