ملوکیت (بادشاہت) سے متعلق بعض فضلاء وقتاً فوقتاً یہ نکتہ اٹھاتے ہیں کہ قرآن مجید میں یوسف، داؤد اور سلیمان علیہم السلام ایسے انبیاء کو بادشاہت ملنے کا ذکر ہوا ہے۔ ستائش کے ایک نہایت واضح سیاق میں طالوت کو وقت کے نبی کے ہاتھوں بادشاہ بنانے کا ذکر ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کا بنی اسرائیل کو خدا کی نعمتیں یاد کروانے کے دوران یہ بیان آیا ہے کہ اللہ نے تمہیں بادشاہتیں عطا کیں۔ تاریخی طور بھی پر بنی اسرائیل کے ہاں بادشاہتوں کا سلسلہ معروف ہے، درحالیکہ ان سب ادوار میں انبیاء ان کے ہاں تسلسل سے پائے گئے، بلکہ انبیاء کے ہاتھوں ان کے معاملات چلائے جاتے رہے۔ لہٰذا ملوکیت (بادشاہت) میں کیا قباحت ہے؟ بلکہ کچھ لوگ تو خلافت اور ملوکیت میں کوئی بڑا فرق کرنے کے بھی قائل نہیں۔ ان کے خیال میں یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں، صورت کا تھوڑا فرق ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر مجھے امام ابن تیمیہ ؒ کی تالیف ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اردو میں ترجمہ کرنے کا موقع ملا، جو تاحال طباعت کے مراحل سے گزر نہیں سکا۔ اس میں ابن تیمیہ نے اس سوال کا جواب دیا ہے کہ ملوکیت (بادشاہت) کا ہماری اِس امت کے حق میں کیا حکم ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس اشکال کے معاملہ میں ابن تیمیہ کا جواب چند نکات میں مختصرا بیان کر دیا جائے۔
ابن تیمیہ ؒ کی تقریر کی رُو سے:
o ’’خلافتِ نبوت‘‘ اور ’’مُلک‘‘ (جس کو ہم اردو میں ’’ملوکیت‘‘ کہہ دیتے ہیں، یعنی بادشاہت) دو الگ الگ چیزیں ہیں، اور یہ بات نص سے ثابت ہے۔ چنانچہ حدیث میں آپﷺ نے خلافتِ نبوت کے تیس سال تک رہنے کی پیش گوئی فرمائی، اور تیس سال کے بعد مُلک یعنی بادشاہت آ جانے کا ذکر فرمایا۔ پس ثابت ہوا یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں، ایک نہیں۔ بلکہ ابن تیمیہ کے بقول، یہ نبوی پیش گوئی جن احادیث میں وارد ہوئی، ان میں سے بعض روایات کے اندر معاملہ کے ’’خلافتِ نبوت‘‘ سے ’’ملوکیت‘‘ پر چلے جانے پر نبی کریم ﷺ کا کچھ اظہارِ تشویش فرمانا بھی ملتا ہے۔
o ہماری اس امت کے حق میں ’’خلافتِ نبوت‘‘ ہی واجب ہے جبکہ ’’ملوکیت‘‘ ناحق۔
o یہاں ابن تیمیہ احادیث سے استدلال کرتے ہوئے خود نبی کی دو قسمیں ذکر کرتے ہیں: ’’نبیِ مَلِک‘‘، جیسے داود اور سلیمان علیہما السلام وغیرہ۔ اور ’’رسولِ عبد‘‘ جیسے ہمارے نبیﷺ۔ چنانچہ فرماتے ہیں: (حدیث میں) ہمارے نبیﷺ کو باقاعدہ یہ چناؤ دیا گیا کہ چاہو تو ’’نبیِ ملک‘‘ بن جاؤ اور چاہو تو ’’رسولِ عبد‘‘۔ یہاں جبریل نے آپﷺ کو مشورہ دیا کہ اپنے پروردگار کے آگے تواضع اختیار کیجیے اور ’’رسولِ عبد‘‘ ہونا مانگ لیجیے، سو آپﷺ نے اپنے لیے یہی مانگا۔ ابن تیمیہ کے نزدیک: ’’رسولِ عبد‘‘ درجے اور اجر میں ’’نبیِ ملک‘‘ سے اوپر ہوتا ہے۔ چنانچہ نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور محمدﷺ درجے میں یوسف، داؤد و سلیمان علیہم السلام سے اوپر ہیں۔
o رہ گیا پچھلی امتوں میں بادشاہتوں کا ذکر تو یہ حق ہے۔ مگر ہماری اس امت کے حق میں خلافتِ نبوت ہی کو فرض ٹھہرایا گیا ہے، جس پر ابن تیمیہؒ کے نزدیک یہ حدیث نص ہے: [pullquote]’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، عضوا علیھا بالنواجذ‘‘۔[/pullquote]
چنانچہ خلفائے راشدین کا طریقہ ہی اس امت کے حق میں لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ وہی ہے جو تیس سال تک رہا۔ نہ کہ وہ جو اس کے بعد آیا۔
o خلافتِ نبوت (خلفائےراشدین کے طریقہ) پر قائم رہنا، اگرچہ فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ تاہم اس فرض کا چھوٹ جانا ابن تیمیہ کے نزدیک دو صورتوں میں ہو سکتا ہے:
1) قدرت رکھتے ہوئے ایسا کرنا، جوکہ ظلم اور گناہ ہو گا۔
2) البتہ کسی وقت معاملہ بس سے باہر ہونا اور چار و ناچار اس کی صورت پیش آ جانا۔ امت کے بہت سے صلحاء کے حق میں ابن تیمیہ اس امکان کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ متعدد سماجی فیکٹر ایسے ہو سکتے ہیں جو ان کےلیے گنجائش نہیں چھوڑتے (جبکہ معاملات کو معطل کرنا ممکن نہیں ہوتا)۔ (کچھ دوسرے مقامات پر) ابن تیمیہ حضرت معاویہؓ کی بادشاہت کو بھی اس زمرے میں رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔ بلکہ ابن تیمیہ بعض ایسی احادیث کا بھی ذکر کرتے ہیں جس میں ’’خلافتِ نبوت‘‘ کے بعد ’’ملکٌ و رحمۃٌ‘‘ کی پیش گوئی کا ذکر ہے (مثلاً البانی کے سلسلۂ احادیثِ صحیحہ میں ابن عباس کی یہ روایت رقم 3270: [pullquote]أولُ ھذا الامرِ نبوۃٌ ورحمۃٌ، ثمَّ يكونُ خلافۃٌ و رحمۃٌ، ثمّ يكون مُلكاً ورحمۃٌ، ثمّ يتكادمون عليہ تكادُم الحُمُرِ[/pullquote]
’’اس معاملہ کا آغاز ہے نبوت اور رحمت۔ پھر یہ ہو جائے گا خلافت اور رحمت۔ پھر یہ ہو جائے گا بادشاہت اور رحمت۔ پھر وہ اس پر یوں منہ مارنے لگیں جیسے گدھے منہ مارتے ہیں‘‘)۔ ابن تیمیہؒ کے نزدیک ’’ملکٌ ورحمۃٌ‘‘ کے یہ الفاظ حضرت معاویہؓ کی بادشاہت پر لازماً لاگو ہوتے ہیں۔
o خلفائے راشدین کے بعد کے حکمرانوں پر لفظ خلیفہ کا اطلاق کیا جا سکتا ہے۔ گو یہ خلفائے انبیاء نہیں بلکہ بادشاہ ہیں۔ ان پر لفظ خلیفہ بولنے کا جواز صحیحین کی اس حدیث سے ملتا ہے[pullquote]«كَانَتْ بَنُو إسْرَائِيلَ تَسُوسُھُمُ الأنْبِيَاءُ، كُلَّمَا ھَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَہ نَبِيٌّ، وَإنَّہ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُونُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُونَ» قَالُوا: فَمَا تَامُرُنَا؟ قَالَ: «فُوا بِبَيْعَۃ الاوَّلِ فَالاوَّلِ، أعْطُوھمْ حَقَّھمْ، فَانَّ اللَّہ سَائِلُھُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاھُمْ» [/pullquote]
’’بنی اسرائیل کا معاملہ یوں رہا کہ انبیاء ان کو چلاتے رہے، جیسے ہی کوئی نبی فوت ہوتا ایک دوسرا نبی اس کا جانشین بن جاتا۔ بےشک اب میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ ہاں خلفاء ہوں سو وہ بہت ہوں گے۔ صحابہ عرض کی: تو آپ ہمیں کیا حکم فرماتے ہیں؟ فرمایا: جس کی پہلے بیعت ہو بس اسی کی بیعت نبھاتے رہو۔ تم ان کو ان کا حق دیتے رہو، کیونکہ اللہ نے ان کی رعیت میں جو کچھ دیا، اس کی بابت ان سے وہ خود سوال کر لینے والا ہے‘‘۔
یہاں ابن تیمیہ کہتے ہیں: خلفائے راشدین کل چار ہوئے۔ جبکہ نبیﷺ فرماتے ہیں کہ خلفاء آپﷺ کی امت میں بہت ہوں گے۔ لہٰذا بعد والوں کو لفظ خلفاء کے تحت ایک درجے میں ذکر کر لیے جانے کی گنجائش ہے۔ مزید اس کی دلیل ابن تیمیہ کے نزدیک یہ ہے کہ اسی حدیث میں یہ بھی ذکر ہے کہ جس کی پہلے بیعت ہو گئی ہو بس اسی کی وفاداری نبھاتے رہنا۔ جس میں اشارہ ملتا ہے کہ کوئی ایسے واقعات بھی ہوں گے کہ ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے دوسرے خلیفہ کی بیعت ہونے لگی ہو۔ جبکہ خلفائے راشدین کے عہد میں ایک خلیفہ کے ہوتے ہوئے کبھی کسی دوسرے شخص کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت نہیں ہوئی، لہٰذا آپﷺ کا یہ اشارہ خلفائے راشدین کے بعد کے عہد پر ہی منطبق ہو گا۔ لہٰذا ان (بعد کے حکمرانوں پر) اس حدیث کی رُو سے لفظ خلیفہ کا اطلاق کر لینا ایک درجے میں درست ہو گا۔ نیز ابن تیمیہ کے نزدیک اسی حدیث سے ان کی اطاعت کا وجوب بھی نکلتا ہے: ’’تم ان کو ان کا حق دیتے رہو، کیونکہ اللہ نے ان کی رعیت میں جو کچھ دیا، اس کی بابت ان سے وہ خود سوال کر لینے والا ہے‘‘۔
جو لوگ عربی عبارت خود پڑھ سکتے ہوں، وہ ابن تیمیہ کے بیان کردہ اس مبحث کو دیکھنے کےلیے اس لنک سے رجوع فرما سکتے ہیں:
http://shamela.ws/browse.php/book-7289#page-16461
تبصرہ لکھیے