ہر آہٹ پہ گماں ہوتا ہے کہ وہ آئے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب سعودیہ واپس چلے گئے تھے اور وہیں عید منائی پر اس وقت تو یہ دل ناداں کسی اور کے انتظار میں تڑپ رہا ہے۔ یقین مانیے اتنا اچھا پیکیج دیا تھا پھر بھی عین وقت پہ دغا دےگئی، دل دکھ سے بھر گیا اور ذہن پہ فکر چھانے لگی کہ اب کیا اور کیسے ہوگا۔ دراصل یہ عید الاضحی کے دن ہوتے ہی بے پناہ مصروفیت لیے ہوئے ہیں، ایسے میں اگر کام والی ماسی ساتھ چھوڑ جائے تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے، اتنے ناز اٹھائے مگر نجانے کون سی بات اس کی طبع نازک پہ گراں گزری کہ وہ کچھ کہے سنے بنا چل دی۔
جاتے ہوئے آنکھ بھی ملا کر نہیں گیا
وہ کیوں گیا ہے یہ بھی بتا کر نہیں گیا
( شاعر سے معذرت)
والدہ محترمہ (ساس صاحبہ) کی طبیعت اچھی نہ تھی، اب کی دفعہ ہم نے عید پر انہیں سب سے پہلے تیار کروا کے بستر پہ بٹھا دیا کہ بس آپ فکر نہ کریں، سب سنبھل جائے گا۔ سب سے پہلے زردہ چاول بنانے تھے، ابھی نماز عید بھی ادا ہونا باقی تھی، ہم برتن ہاتھ میں لیے چاولوں کی بوری کے پاس جا پہنچے، اسے کھولا تو دل دھک سے رہ گیا، نیم کے پتے منہ چڑا رہے تھے، چاول صاف کرنے والے تھے، اس سے پہلے تو امی نے ہمیشہ ہی ماسی سے صاف کروا کے رکھے ہوتے تھے۔ نکال کے صاف کیے مگر کافی وقت لگ گیا۔
بچے بڑے ہو گئے ہیں، ماشاءاللہ خود سے تیار ہو گئے۔ اب ہم کچن میں گھسے زردہ بنا رہے تھے۔ بیرون ملک سے آنے کے بعد مہمان والی کیفیت نہ بھی ہو تو چیزوں کی درست پوزیشن کا اندازہ لگانے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔ زردہ رنگ بہت مشکل سے ایک کیبن سے ملا۔ مرد حضرات نماز عید ادا کر کے واپس آ چکے تھے۔ ساتھ ہی بکروں کی قربانی شروع ہو گئی۔ زردہ بنا تو سانس میں سانس آئی۔
ابھی کچن سے نکلے ہی تھے کہ بڑے بھائی صاحب کی آواز آئی”جلدی سے پراتیں دے دیں گوشت اور کلیجی وغیرہ رکھنے کے لیے۔“ پراتیں۔؟ کہاں مل سکتی ہیں؟ ہمیشہ امی نے نکلوا کے اور دھلوا کے سامنے ہی سٹور میں رکھی ہوتی ہیں۔ ہم سٹور میں گھسے، پراتیں تلاش کیں بڑی بڑی، امی کے جہیز کی پراتیں سنک میں ایڈجسٹ ہی نہ ہو پا رہی تھیں، بڑی مشکل سے دھو کے بچوں کے ہاتھ باہر بھجوائیں، منہ دھونے کا بھی موقع نہ ملا کہ گوشت کی آمد شروع ہو گئی۔ ماشاءاللہ تینوں بھائیوں کی قربانی، میرا مطلب ہے کہ تین عدد بکروں کی قربانی ادھر ہی ہوتی ہے۔ اور کچھ گائے کے حصے بھی۔
کچھ دیر میں باجی (جیٹھانی) اور بچے آ گئے، کچھ کام تقسیم ہو گیا، جھٹ پٹ ککر نکالے، گوشت اور یخنی پلاؤ بنایا، ککر نے بھی راستے میں ساتھ چھوڑ دیا، پر ہم نے بھی ہمت نہ ہاری اور دو بجے کھانا میز پہ لگا ہی دیا۔ سب نے کھانا کھایا، لڑکوں نے ہمت کی، مغرب سے پہلے سب گوشت تقسیم ہو چکا تھا۔ رات تک مہمانوں کی آمدورفت رہی، بس کچن ہی سمٹ سکا۔
اگلی صبح امید تھی کہ اپنی والی نہ سہی کوئی نہ کوئی ماسی تو مل ہی جائیں گی۔ اسی امید پہ رہے، سب کو ناشتہ کروایا، دوپہر ہوگئی مگر کوئی نہ آیا۔ امی جان کہنے لگیں کہ سامنے والی باجی کلثوم سے پتہ کر آؤ، تم اکیلی کیا کیا کروگی؟ کیونکہ باجی اپنے میکہ جا چکی تھیں۔ باجی کلثوم کے پاس جا کے اپنا دکھ بیان کیا اور بتایا کہ کتنی مشکل ہے، عبداللہ کو بخار ہے، امی بھی ٹھیک نہیں، کسی کام والی کا پتہ کر دیں، چلیں صفائی ہی کر جائے، باجی نے وعدہ کیا کہ وہ کچھ بندوبست کرتی ہیں، ہم پھر امید سجائے گھر آ گئے۔ کچھ دیر میں باجی کلثوم نے بیل دی، ہم ان کے ساتھ ایک دو ماسیوں کے آنے کی امید لگائے بیٹھے تھے مگر وہ اکیلی آئیں اور یہ نیوز بریک کی کہ سب کی سب سیروں پہ نکلی ہوئی ہیں یا گوشت اکھٹا کرنے میں مصروف ہیں، کہہ رہی ہیں آج تو مشکل ہے۔ اچھا باجی آپ کا شکر یہ، آپ نے تکلیف کی۔ انہیں رخصت کر کے پلٹے تو طائرانہ نگہ گیراج، صحن اور برآمدے پہ ڈالی، ابکائی سی آنے لگی، اُف! گوشت کی بساند اب سخت گرمی کے باعث بڑھ رہی تھی۔
اندر آئے تو لاؤنج میں چھیچھڑوں اور بچے کھچےگوشت سے لت پت پراتیں اور جگہ جگہ جما خون دیکھ کے چکر سے آ گئے، کیا ڈرائنگ ڈائننگ حتی کہ بیڈ روم تک میں گلاس، پلیٹیں، بچوں کے پھینکے ہوئے ریپر، چپلیں، کپڑے منہ چڑا رہے تھے، اوپر چھت پر رات کے شاندار بار بی کیو کی باقیات زلزلہ کے بعد کا منظر پیش کر رہی تھیں۔ ہر چیز اپنی جگہ سے ہلی ہوئی تھی۔ ہماری ٹانگوں سے تو جیسے جان ہی نکل گئی، اور وہیں ڈھے سے گئے۔ میاں صاحب کا فون آیا، بڑی تگ و دو کے بعد بھی آواز میں تازگی نہ آ سکی۔ کیا ہو رہا ہے؟ انہوں نے سوال کیا۔ کچھ نہیں بس صفائی کی اسٹریٹیجی بنا رہی ہوں۔
سب بچوں کو ساتھ لگاؤ، کام جلدی سمٹ جائےگا۔ اچھا مشورہ تھا۔ ہم نے سب کو لاؤنج میں جمع کیا اور محنت کی عظمت پر ایک دل سوز سی تقریر اور اپنے ہاتھ سے کام کی فضیلت بیان کی۔ آخر میں یہ شعر پڑھا
یہ انتظارِ سحر کہاں تک
بناؤ خود اپنے چاند سورج
فاطمہ بولی، مما! آخر آپ کہنا کیا چاہتی ہیں۔ میں نے کہا سادہ سی بات ہے کہ ماسی کا انتظار فضول ہے، آپ سب کپڑے بدلیں اور مل کر گھر صاف کرتے ہیں۔ بچیوں نے تسلی دلائی کہ ہم کچن اور ڈائننگ ایریا سمیٹ لیتے ہیں، آپ باقی صفائی کر لیں۔ بس پھر ہم نے پائنچے چڑھائے، پائپ پکڑا اور سرف ڈال ڈال کے سارا گھر دھو ڈالا، ہاتھوں پہ شاپر چڑھا کے گوشت کی باقیات کو تھیلوں میں بھرا اور باہر کوڑے کی جگہ رکھوایا تاکہ گاڑی لے جائے۔ کمرے سیٹ کیے، بچیوں نے برتن دھو کے کچن سمیٹ دیا تو ہم نے کچن بھی دھو ڈالا۔ آخر میں بھاری بھر کم پراتوں کو اٹھا کے باہر والے کُھرے میں رکھا اور پانی ڈال دیا کہ چلو ذرا ٹھہر کے اچھی طرح دھو ڈالوں گی۔
یہ سب کر کے کافی سکون محسوس ہوا، چائے کے دو کپ بنائے اور امی کے پاس جا بیٹھی۔ بہت خوش ہوئیں کہ سب سمٹ گیا۔ میں نے بھی سکون کا سانس لیا اور کمر ٹکا کے خبریں سننے اور چائے پینے لگی۔ یکدم امی جان کی آواز کانوں میں پڑی، پراتیں مانجھ لیں، چائے کا گھونٹ گویا حلق میں اٹک گیا، نظریں چرا کے خاموشی میں ہی عافیت جانی، سمیہ پاس کھڑی تھی، اسے یہی معلوم تھا کہ مما نے دھو دی ہیں، اونچی آواز میں بولی جی دادو مما دھو کے آئی ہیں مگر انہیں ہرگز یقین نہ آیا، کہنے لگیں لاؤ دکھاؤ کیسی دھلی ہیں۔ ہم نے چائے کے کپ اُٹھائے اور جلدی سے کچن میں آگئے۔ سوچا دھو ہی لیں، امی کی تسلی ہو جائے گی، آخر کو ان کے جہیز کی پراتیں ہیں۔ اپنی طرف سے خوب رگڑ کے مانجھیں، دھوپ میں سکھا کے سٹور میں رکھ دیں۔ سب کام ختم کیے، نماز عشاء ادا کی، رات ایک بجے بستر پہ کمر ٹکائی تو تھکاوٹ کے احساس نے گھیر لیا لیکن سکون کا احساس پھر بھی غالب تھا۔
ایک سبق ضرور سیکھا، آپ بھی سنیں، گھر میں بڑے بزرگ موجود ہوں تو ان کی قدر کریں، وہ خاموشی سے اتنے کام سمیٹے ہوئے ہوتے ہیں، جس کا اندازہ ہمیں ہو نہیں پاتا جب تک کہ ہم ان کے زیرِ سایہ عیدیں اور تہوار مناتے رہتے ہیں۔ اللہ سب بزرگ والدین کو اپنی رحمتوں میں رکھے۔ آمین
تبصرہ لکھیے