انسان کو دیگر مخلوقات پر جو شرف حاصل ہے اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک وجہ انسان کا حساس ہوناہے۔ لیکن جب احساس مر جاتا ہے تو انسان اور درندے میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ بلکہ درندگی بھی ہیچ ہوجاتی ہے اور انسا نیت منہ چھپاتی پھر رہی ہوتی ہے۔
کسی نے احساس کی موت دیکھنی ہو تو وہ ایک بار ضرور سرکاری اسپتال کا رخ کرے۔ وہاں مسیحائی کی چادر تارتار نظر آئے گی۔ ڈاکٹری کے مقدس پیشے کو بےلباس کرنے والے کوئی اور نہیں خود ڈاکٹر ہیں۔ بےحسی کی داستانیں ہیں جو ہر لمحہ رقم ہوتی نظر آتی ہیں۔ کسی بھی سرکاری اسپتال میں چلے جائیں، ایک جیسا مشاہدہ ہوگا. (میں کراچی کی بات کر رہا ہوں کیونکہ میں رہتا کراچی میں ہوں) ایک طرف سرکاری حالت یہ ہے تو دوسری طرف مجھ جیسا غریب آدمی پرائیوٹ اسپتال کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
آئیے ! آپ کو اپنا ایک زخم دکھائوں جو آج بھی رس رہا ہے، اور شاید تامرگ اسی طرح میرا دل لہولہان رہے۔
یہ اس سال کا پہلا دن یکم جنوری جمعہ کا دن تھا۔ میرے والد صاحب کی طبیعت بہت خراب ہوگئی اور ہم ایمبولنس میں لے کر جناح اسپتال پہنچے۔ وہاں تو ایک الگ ہی جہاں تھا، ہر طرف افراتفری کا عالم۔ ہمیں اسٹریچر نہیں مل رہا تھا۔ اُدھر والد صاحب کی حالت انتہائی ناساز تھی۔ بہت کوششوں کے بعد ایک خستہ حال اسٹریچر ملا۔ جلد از جلد ایمرجنسی میں پہنچایا۔ اور وہاں مریض زیادہ اور ڈاکٹر کم تھے۔ بالاٰخر ہماری باری بھی آگئی اور دو نوجوان ڈاکٹر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ لیکن عجیب بات کہ بجائے وہ طبی امداد دینے کے والد مرحوم کی باڈی کا معائنہ کرنے لگے۔ مسلسل بیماری نے ابوجان کے جسم کو ہڈیوں کا ڈھانچہ بنادیا تھا لیکن وہ پھر بھی خون نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں حیران تھا کیونکہ تمام کے تمام ٹیسٹ حالیہ تھے جو دو دن پہلے کروائے تھے۔ وہ دیکھنے کے باوجود اور بھی خون نکالا جارہا تھا بلکہ نکالنے کی ناکام کوشش کی جارہی تھی۔
مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے کہہ دیا کہ کچھ طبی امداد تو دیں، دیکھیں نا! ابوجان کو سانس لینے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ آکسیجن لگائیں کچھ کریں پلیز، میں رو ہی تو پڑا تھا۔ لیکن جواب میں ڈاکٹر نے بہت بدتمیزی سے ڈانٹ دیا اور کہا کہ ہم اپنا کام جانتے ہیں، آپ آرام سے کھڑے رہیں۔ وہ سب میڈیکل کے طالب علم تھے جو آخری سال کے ہوں گے۔ انہیں ایک اور کیس مل گیا تھا اپنے تجربے کے لیے اور وہ تجربہ ہی کر رہے تھے۔ ان کے لیے ایک مریض تھا لیکن میرے لیے میرا سب کچھ تھا وہ۔ جس نے نہ دھوپ دیکھی نہ گرمی نہ ہی اپنی بیماری۔ بس ہماری ضروریات پوری کرتے رہے۔ لیکن ڈاکٹر بس تجربے کرتے رہے اور جب کر چکے تو کہنے لگے حالت بہت خراب ہے، ان کو فی الفور آئی سی یو میں بھیجا جا رہا ہے۔
اور اگلا مرحلہ اور بھی تکلیف دہ تھا۔ جب مطلوبہ وارڈ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ آئی سی یو میں جگہ نہیں ہے۔ کئی مریض انتظار میں ہیں۔ مجبورا جنرل وارڈ میں ہی منتقل کر دیا۔ جہاں ڈاکٹر خواتین وحضرات اپنی خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ آکسیجن لگانے کے لیے چار بار بلانے جانا پڑا تب آکر انہوں نے کچھ معمولی اور رسمی انداز میں طبی امداد کی اور پھر اپنے کائونٹر پر چلے گئے، اور پھر سے اپنی خوش گپیوں میں مصروف ہوگئے۔ ہمارے ساتھ والے بیڈ پر ایک ضعیف العمر شخص تھے جن کے ساتھ ایک نوجوان لڑکی تھی۔ یقینا ان کی بیٹی تھی۔ وہ مریض ہوش سے بیگانہ تھے۔ بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایک سانس لیتے تھے۔ وہ رومال سے اپنے والد کے چہرے سے مکھیاں اڑا رہی تھی۔ پھر اچانک میں چونک اٹھا کیونکہ مجھے لگا کہ اس لڑکی کے والد انتقال کرچکے ہیں۔ لیکن وہ لڑکی بےخبر اپنی والد کی لاش پر سے مکھیاں اڑا رہی تھی۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں وارڈ کے باہر چلا گیا جہاں میرے چچا کسی دوسرے اسپتال فون کر کے آئی سی یو کا پتہ کر رہے تھے تاکہ انھیں وہاں لے جایا جا سکے۔ جب تھوڑی دیر بعد میں واپس وارڈ گیا تو دیکھا لڑکی رو رہی تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا۔ میرے والد کی حالت بہت خراب تھی۔ میں بےاختیار سا ہو کر مسجد کی طرف چل پڑا۔ جمعہ کی نماز کا وقت تھا لیکن مسجد میں وضو کا پانی نہیں تھا۔ آس پاس تلاش کیا پانی نہیں ملا۔ پھر میڈیکل سے جا کر ایک منرل واٹر کی بوتل لی اور اسی سے وضو کیا اور جمعہ کی نماز پڑھی۔ کتنے لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ واپس وارڈ آیا تو والد صاحب کی حالت ٹھیک نہ تھی، بےقرار ہوکر چچا کی طرف گیا اور کچھ امید سے پوچھا کہ کہیں آئی سی یو کی جگہ ہوئی؟ انہوں نے نفی اور دھیرے سے سر ہلایا اور منہ پھیر لیا۔ یہ مغرب کا وقت تھا۔ والدمرحوم کی سانسیں مدھم ہوگئیں۔ سورج ڈوب رہا تھا اور میرے گھر کا آفتاب بھی۔ میری دادی کا ناز، میری ماں کے سر کا تاج، میری بہنوں کا بابا، میرے بھائیوں کا غرور اور میرے بیٹے کے دادو، اس دنیا کو الوداع کہہ رہا تھا۔ ایک لمحے کے لیے ڈاکٹروں کے کاؤنٹر کی جانب دیکھا۔ ایک ڈاکٹرنی صاحبہ کسی بات پر ہنس رہیں تھیں، ساتھ میں بیٹھا ایک ڈاکٹر ان کو اپنے موبائل میں کچھ دکھا رہا تھا، ایک کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا۔ چچا نے غصے میں جا کر ڈانٹا اور ابو کی حالت کا بتایا تو سارے ڈاکٹر اٹھ کر چلے آئے۔ نبض دیکھی اور پھر میری طرف دیکھ کر پوچھا کہ آپ کون ہیں ان کے؟؟
بہت ہی مشکل سے میری زبان سے پھسلا ۔’’بیٹا‘‘۔
آئی ایم سوری، ان کا انتقال ہوگیا ہے۔ اپنی روٹین کا جملہ ادا کر کے وہ چلے گئے، لیکن میرے گھر میں صف ماتم بچھ چکی تھی۔ چچا کے فون کی گھنٹی بجی۔ کال رسیو کر کے انھوں نے بات سنی اور ایک جملہ کہہ کر کاٹ دی
ــ’’اب میرے بھائی کو آئی سی یو کی ضرورت نہیںـ‘‘۔
تبصرہ لکھیے