”وہ ایک خوفناک شخص تھا اور مجھے خوشی تھی کہ وہ پاکستانی ہے مصری نہیں.“
1969ء میں ریٹائرمنٹ کے فورا بعد انہیں مغربی پاکستان کا گونر بنایا گیا اور ذہانت دیکھیے کہ اپنے لیے مختلف شعبوں میں مہارت رکھنے والے بیوروکریٹ اور پرائیویٹ افراد پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے وژن کی ہماری حکومتوں میں پہلی علامت ہے لیکن ان جیسا آدمی نکمے یحیٰ خان کے ساتھ کیسے چل پاتا؟ پہلے ہی سال گونری کو لات مار کر حکومت سے نکل آئے۔
پاکستان 60ء کی دہائی میں سکواش میں نمبر ایک تھا مگر پھر ایسا زوال آیا کہ سکواش میں پاکستان کا نام ہی مٹ کر رہ گیا۔ 1973ء میں نور خان پی آئی اے کے چیئرمین بنے تو انہوں نے فورا ہی پی آئی اے کی جانب سے سکواش کے کھلاڑیوں کے لیے ایک سکالر شپ پروگرام متعارف کرایا اور ملک کے طول و عرض میں گھوم کر نوجوان کھلاڑی تلاش کیے جنھیں اس سکالرشپ پروگرام کا حصہ بنا کر ان کی ٹریننگ کا انتظام کیا۔ کراچی میں ایک ایسا زبردست سکواش کمپلیکس تعمیر کرایا کہ اس جیسا پوری دنیا میں کہیں نہ تھا۔
اب پاکستانی قوم کی عقل کو اکیس توپوں کی سلامی دیجیے کہ پاکستان کی تاریخ کا یہ منفرد اور باکمال ترین شخص جب 1985ء اور 1988ء کے انتخابات میں چکوال کی سیٹ سے میدان میں اترا تو عوام نے گویا کہا ”آپ کون ؟“ اور وہ یہ دونوں انتخابات ہار گئے جس کے بعد انہوں نے گھر بیٹھ کر باقی زندگی خاموشی سے گزار دی۔ 15 دسمبر 2011ء کو وہ 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ پی اے ایف نے ان کی عظمت کے اعتراف کے طور پر پاکستان ایئرفورس بیس چکلالہ ان سے منسوب کردیا جو اب نور خان ائیربیس کہلاتا ہے۔
مٹی کو سونا بنانے والے ہاتھ، عوام نے کیا سلوک کیا؟ رعایت اللہ فاروقی

تبصرہ لکھیے