پہلا واقعہ
ہم لاہور سے اسلام آباد کی طرف جا رہے تھے. لاہور ٹول پلازہ سے ای ٹیگ والی لین سے کراس کیا لیکن وہاں بیلنس بتانے والی کوئی لائٹ نہ جلی. جو احباب ای ٹیگ لین سےگزرتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ اس لین سےگزرنے والے کو رکنے کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی. رش بالکل نہیں تھا محض ہماری کار تھی. چند میٹر آگے گئے تو ٹول پلازہ کی بیلنس والی بتی کے نہ جلنے پر الجھن محسوس ہوئی اور یہ سوچ کر کہ ریکارڈ میں آئے بنا موٹروے پر سفر مناسب نہیں اور ایگزٹ پر کوئی مسئلہ نہ ہو، ہم نے سروس لین میں کار بیک کی. بمشکل 8 سے دس میٹر کا فاصلہ ہوگا. ٹول پلازہ کے پاس نسبتا کھلی جگہ میں کار روک کر ڈاکٹر صاحب جو کار ڈرائیو کر رہے تھے، ٹول پلازہ کیبن کی طرف گئے جہاں سے وہ موٹر وے پولیس کے ساتھ واپس آئے. بشرے پر غصے کے آثار تھے. کار کے کاغذات نکالے اور پولیس آفیسر کی طرف متوجہ ہوئے. موٹروے پولیس آفیسر کا موقف تھا کہ آپ موٹروے پر کار بیک نہیں کر سکتے، اس لیے آپ کا چالان ہوگا جبکہ ڈاکٹر صاحب کا موقف تھا کہ آپ کے ٹول پر مشین کام نہیں کر رہی جس کی وجہ سے ہم نے قانون پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے کارڈ حاصل کرنے اور انٹری کروانے کے لیے سروس لین میں کار بیک کی.
غیر دوستانہ تاثرات چہرے پر سجائے موٹر وے پولیس آفیسر نے گاڑی کے کاغذات ڈاکٹر صاحب سے لے لیے اور ان کے موقف کو غلط قرار دیتے ہوئے اور ان کی قانون پرستی اور اصول پرستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے 17 سو روپے کا چالان کر دیا . جبکہ کارڈ نہ ملنے کا معاملہ اگلے ٹول پلازہ پر چند روپوں میں حل ہو جانا تھا . ہمیں اس دن کار بیک کرنے پر نہیں اصول پرست ہونے پر چالان ادا کرنا پڑا
دوسرا واقعہ
چند سال پہلے ہم دیوسائی کی سیر کو گئے. شیو سر لیک کا راستہ زیر تعمیر تھا، اور صرف جیپ ٹریک تھا. بذریعہ کار ہم پہنچ تو گئے لیکن واپسی پر سڑک کی تعمیر کے لیے بکھیرے گئے بڑے نکیلے پہاڑی پتھروں نے کار کا آئل چیمبر لیک کر ڈالا. آئل بہہ جانے سے ہماری کار اس سرسبز ویرانے میں جام ہوگئی. ہم سے پیچھے ایک جیپ تھی جس نے ہمیں بلامعاوضہ بریک آئل مہیا کیا اور انسانی بستی کے آنے تک ہمارے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا. کچھ آگے جا کر کار ایک چشمے میں پھنس گئی اور تب تک بریک آئل بھی دوبارہ بہہ چکا تھا. تمام فیملی تیز دھار سرد ترین چشمے سے پیدل گزر کر دوسری طرف پہنچی. جون کا دن تھا اور گلیشئیرز کے پگھلنے سے بننے والے چشمے میں ایک سیکنڈ بھی گزارنا مشکل تھا. پانی کا بہائو لمحہ بہ لمحہ تیز ہو رہا تھا. کوئی پل جاتےتھے کہ گاڑی کو پانی دھکیل کر سڑک کے کنارے سے گہری کھائی میں دھکیل دیتا. اس جیپ کے سواروں نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا. وائرلیس پر کچھ کالز کیں اور کچھ مزید سیاح بھی ہمارے ساتھ شامل ہوئے. جب ہمیں مزید مدد حاصل ہوگئی اور کار کے چشمے سے باہر آنے کی صورتحال پیدا ہوگئی، تب اس جیپ کے سواروں نے ہم سے اجازت لی کیونکہ وہ انٹیلیجنس کے ایک میجر اور ان کے چند ساتھی تھے جنہوں نے وقت مقررہ پر اپنی چھائونی میں رپورٹ کرنا تھی. اس چشمے سے نکلنے کے بعد ہمیں ٹوچین کر کے نزدیکی انسانی آبادی تک پہنچانے والے ایک مجسٹریٹ اور ان کے ساتھی گرداور حضرات تھے. انہوں نے سول گیسٹ ہائوس میں فیملی کے ٹھہرنے کا تب تک کے لیے انتظام کیا جب تک ہماری کار کی بریکس درست کروائی جا سکیں.
چلم چوکی ایک خوبصورت چھوٹا سا گائوں ہے. جہاں موبائل فون اور ٹی وی ڈش کیبل ہنوز اجنبی ہیں. بیرونی دنیا سے رابطہ پی ٹی سی ایل یا آنے جانے والے سیاح اور فوجی ہیں. سو ایک سیاح فیملی کا پھنس جانا گائوں کے باسیوں کے لیے ایک بڑا واقعہ تھا. تمام گائوں کے مرد ہمارے ارد گرد جمع تھے اور اپنی اپنی رائے دے رہے تھے. اجنبی جگہ، فیملی کا ساتھ اور سواری بےکار. خاصی غیر یقینی صورتحال تھی. گائوں میں آٹومیٹک کار کے لیے کوئی ورکشاپ موجود نہیں تھی، سو کار کی مرمت ممکن نہ تھی. ہم پھنس چکے تھے کہ ہماری کار کے خراب ہونے اور سیاح فیملی کے پھنس جانے کی خبر سن کر ایک نوجوان میجر صاحب ہماری مدد کو آ پہنچے. اور کار کو اپنی پراڈو کے ساتھ ٹوچین کرنے کی آفر کی. وہ گلگت کے ایک بااثر گھرانے کے فرزند بھی ہیں. رات 11 بجے جو ایسے دوردراز پہاڑی علاقے کے لیے رات کے تین بجے کے قریب کا وقت ہے، ہم میجر صاحب کی پراڈو کے ساتھ موٹی رسیوں سے کار باندھ کر پہاڑی راستوں پر استور کی جانب چلے. کار کا وزن کم کرنے کے لیے سواریاں اور سامان بھی میجر صاحب کی جیپ میں بھیج دیا گیا. چند کلومیٹر کے سفر میں تین بار رسی ٹوٹی تو سمجھ آیا کہ کار کو اس طرح استور تک پہنچانا ممکن نہیں. سو دونوں سواریاں واپس چلم کی طرف موڑی گئیں. ڈاکٹر صاحب سول گیسٹ ہائوس میں فیملی کو غیرمحفوظ سمجھ رہے تھے. میجر صاحب نے ہمارے ٹھہرنے کا انتظام آرمی گیسٹ ہائوس کے وی آئی پی سویٹ میں کروایا. جہاں رات ایک بجے سفید چنوں، دہی اور مصالحہ رائس کے ساتھ گرماگرم چائے اور انگیٹھی نے ہمیں زندہ اور محفوظ ہونے کایقین دیا.
اگلے روز ایک فوجی صوبیدار اور ایک لوکل لیکن انتہائی ماہر کار مکینک نے بریک چیمبر کو عارضی بنیادوں پر درست کر دیا. وہ عارضی درستگی اتنی پائیدار ثابت ہوئی کہ اسی کار پر ہم نے سارا جی بی دیکھا اور گھر تک واپس بھی پہنچے.
ان واقعات میں آپ اداروں کے افراد کے انفرادی رویوں پر غور فرمائیے. ادارے بذات خود عوام کی مدد، خدمت اور حفاظت کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں. پولیس آفیسر کا اپنی طاقت کو استعمال کرنا، بیوروکریسی کے اہلکاروں اور فوجی آفیسرز کا اپنی طاقت کو استعمال کرنا بالکل الگ الگ انداز میں تھا.
اصول انسانوں کے لیے ہوتے ہیں، انسان اصولوں کے لیے نہیں. اچھے برے انسان اور رویے ہر ادارے میں پائے جاتے ہیں، اس سے بحیثیت مجموعی ادارے درست یا غلط نہیں ٹھہرتے. ہاں انصاف کے تقاضے ہر جگہ پورے کیے جانے چاہیے.
تبصرہ لکھیے