ایم کیو ایم پاکستان بظاہر ڈٹ کر ایم کیو ایم لندن کے سامنے کھڑی ہوچکی ہے۔ لندن سے استعفوں کے تقاضے کیے جارہے ہیں اور کراچی والے کہہ رہے ہیں ”ہیلو، ہیلو، بھائی۔۔۔ آواز نہیں آرہی“، لیکن بائیس اگست کو کراچی پریس کلب کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے بھوک ہڑتالی کیمپ میں لگنے والی آوازیں بالکل واضح اور صاف تھیں۔ وہاں موجود لوگوں نے بھی سنا اور جو موجود نہیں تھے، انہوں نے بھی سنا۔ دیارِ غیر میں بیٹھے ہم پاکستانیوں نے بھی سنا، جو اپنا دل وطن میں چھوڑ آتے ہیں۔ ان آوازوں سے پہلے بھی کچھ آوازیں لگی تھیں، ان آوازوں کے ذکر سے پہلے گڈریئے کی آواز کا ذکر کرتا ہوں، ذکر کیا چھوٹی سی کہانی ہے۔ سب ہی نے پڑھ رکھی ہوگی، دوبارہ پڑھ لیجیے۔
کہتے ہیں کسی گاؤں میں ایک بڑا ہی شوخا گڈریا رہتا تھا۔ ہنسی مذاق سے اس کا جی نہ بھرتا۔ کبھی اس دوست کو چھیڑا تو کبھی اس کو، کبھی ایک کو تنگ کیا تو کبھی دوسرے کو۔ ایک دن وہ گاؤں کے قریب ٹیلے پر چڑھ کر زور زور سے چلانے لگا شیر، شیر، شیر۔۔۔ گاؤں والو! اٹھو جاگو شیر گاؤں میں گھس آیا ہے۔ گاؤں والے لالٹینیں لاٹھیاں برچھیاں لے کر بھاگتے ہوئے ٹیلے پر پہنچے تو وہاں سوائے گڈریئے کے کوئی نہ تھا اور گڈریا بھی ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہا تھا کہ اس نے پورے گاؤں کو احمق بنادیا۔ گاؤں کے بڑے بوڑھوں نے اسے ڈانٹا اور باقی سب کھی کھی کرتے گڈریئے پر برستے ہوئے واپس چلے گئے۔ دو روز بعد گڈریا پھر ٹیلے پر چڑھ گیا اور لگا چلانے، گاؤں والے جلد ی آؤ شیر، شیر، شیر۔۔۔ گاؤں والوں نے سچ جانا اور ایک بار لاٹھیاں برچھیاں لے کر ٹیلے پر پہنچے، مگر وہاں شیر ہوتا تو نظر آتا۔ کچھ دنوں بعد گاؤں والوں کو پھر گڈریئے کی چیخنے کی آواز آئی، کسی نے بھی دھیان نہ دیا اور کان لپیٹے سوتے رہے۔ صبح قضائے حاجت کے لیے لوٹے لے کر ٹیلے پر پہنچے تو گڈریئے کی ادھ کھائی لاش کے باقیات پڑے تھے، اس رات واقعی شیر آگیا تھا۔
مجھے گڈریئے کی یہ آواز نوے کی دہائی میں کراچی میں ہونے والے آپریشن کلین اپ سے یاد آئی۔ یہ آپریشن شروع توجرائم پیشہ افراد کے خلاف کیا گیا تھا، لیکن جب مجرموں کے کھرے تلاش کیے گئے تو وہ ایم کیو ایم کے سیکٹر آفسوں اور یونٹ آفسوں تک لے گئے۔ ہمیں کہا گیا ایم کیو ایم ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔۔۔ کہنے والے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور آپریشن کے باوردی ذمہ دار تھے۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی۔ دادوں، چاچوں اور ماموں کی گرفت کی جانے لگی اور پھر وہ گرفت ڈھیلی ہوگئی۔ ایم کیو ایم دوبارہ قومی سیاسی دھارے میں شامل ہوگئی۔
نوے ہی کی دہائی میں دوبارہ آپریشن ہوا۔ جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے۔۔۔ پریس فوٹو گرافروں کو ٹارچر سیل دکھائے گئے۔۔۔ مختلف مقامات سے برآمد ہونے والا مدفون اسلحہ دکھایا گیا۔۔۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اقبالی بیانات اخبارات کی ہیڈلائن بنے۔۔۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ہر قسم کا اسلحہ چلاسکتے ہیں اور انہیں یہ اسلحہ بھارت میں چلانا سکھایا گیا۔۔۔ لیکن یہ اقبالی بیانات، را کی تربیت، پاکستان مخالف لٹریچر، جناح پور کے نقشے سب پر وقت نے دھول ڈال دی، لیکن ہم نے تو یقین کرنا ہی تھا اور کیا بھی کہ یہ آواز تو محافظان وطن کی تھی۔
اب دو برس سے جاری آپریشن میں ایم کیو ایم پھر رودھو رہی ہے کہ آپریشن اس کے خلاف ہورہا ہے۔ سچی بات ہے کہ اس کے رونے دھونے پر ہمارا دل نہیں پسیجا کہ ایم کیو ایم کے نامعلوم کارکنوں کی معلوم فسطائیت سے ہم آگاہ تھے۔ ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر چھاپہ پڑا۔ ایک باوردی افسر نے عزیز آباد میں کھڑے ہوکر نیوز کانفرنس کی کہ نائن زیرو سے نیٹو کا اسلحہ پکڑا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن پر وہ اسلحہ بھی دکھایا گیا اور گرفتار کارکن بھی دکھائے گئے، ہم نے فوراً یقین کرلیا کہ آواز ہمارے اپنے محافظوں کی تھی۔
بائیس اگست کو بلا تھیلے سے باہر نکل آیا۔ الطاف حسین کا خبث ظاہر ہوگیا۔ اس کے منہ سے خاکم بدہن ”پاکستان مردہ باد“ کے نعروں کے بعد جناح پور کے نقشے۔۔۔ بھارت میں کارکنوں کی تربیت۔۔۔ را سے روابط۔۔۔ بھتے۔۔۔ اغوا برائے تاوان۔۔۔ بوری بند لاشیں۔۔۔ منی لانڈرنگ۔۔۔ اور نئی دہلی میں کی گئی الطاف حسین کی وہ تقریر بھی یاد آگئی جس میں قیام پاکستان کو تاریخ کی غلطی قرار دیا تھا۔ محافظین وطن نے سخت ایکشن لینے کا عندیہ دیا لیکن ہوا کیا؟
ایم کیو ایم نے ’’پاکستان‘‘ کانام لے کر اپنی سیاسی قوت بچالی۔ ایم کیو ایم پاکستان نے ایم کیو ایم لندن کو بظاہرعاق کردیا۔ مان لیتے ہیں کہ ایسا ہی ہوگا لیکن میرا سوال تو گڈریئے کی آواز کا ہے۔ بار بار وطن دشمنی، دہشت گردی، تخریب کاری کے الزمات لگائے گئے، صولت مرزا نے تو سب کچھ کھول کھول کر رکھ دیا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی انکوائریوں کو درست قرار دے دیا، لیکن پھر بھی کارروائی کیوں نہ ہوئی؟
ایم کیو ایم لندن کو کالعدم قرار کیوں نہ دیا گیا؟ ابھی تک ندیم نصرت اور واسع جلیل نیوز چینلوں پر آآکر بھاشن دے رہے ہیں، آخر کیوں؟ ریاست کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ ریاست کے ہاتھ پاؤں کس مجبوری نے باندھ رکھے ہیں؟ کل تک جو کچھ ادارے کہتے چلے آئے تھے، اس سب کی تصدیق الطاف حسین نے خود کردی ہے تو اب ایم کیو ایم لندن پر پابندی کا اعلان کیوں نہیں؟ الطاف حسین کے خلاف برطانیہ سے سنجیدہ رابطہ کرنے میں کس کو درد زہ کا ڈر ہے؟ اگر آج غداروں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو کل ہمارے اداروں کی آواز پر کون یقین کرے گا؟ اہل پاکستان انہیں ٹیلے پر چڑھ کر جھوٹ بولنے والا گڈریا کیوں نہ سمجھیں گے۔۔۔
تبصرہ لکھیے