پائوں کسی شے پر آیا تو ایک عجیب سا احساس ہوا، قدم آگے بڑھایا اور جوتے کو سڑک پر رگڑا مگر جوتے کے نیچے سے چپچپاہٹ ختم نہیں ہورہی تھی۔ اندھیرے کے باعث سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا شے جوتے سے چمٹ گئی ہے۔ کچھ فاصلے پر کھڑی موبائل کے پاس پہنچا اور اس کی ہیڈ لائٹس کی روشنی میں جوتے کا جائزہ لیا تو ایک سنسناہٹ ریڑھ کی ہڈی میں دوڑ گئی۔ جوتے کے تلوے سے انسانی گوشت کا لوتھڑا پچکا ہوا تھا۔ اس وقت کی کیفیات اور احساسات میں آج تک نہیں بھول پایا۔ ایم اے جناح روڈ پر بم دھماکے اور انسانی اعضاء، لاشیں، زخمی اوردھماکے کے خوفناک مناظر کو تاریکی کسی حد تک ڈھانپ رہی تھی، مگر کچھ تھا جسےتاریکی چھپانے سے قاصر تھی، دلدوز چینخیں، دھاڑیں، آہیں، کراہیں، سسکیاں۔
۔
سانحات کی بہتات نے قوم پر ایسی بے حسی طاری کی کہ پھر خون لاشیں اور لوتھڑے بھی اثر نہیں کرتے۔ بس اتنا شکر ادا کرنا کافی ہوتا کہ مرنے والا ”ہمارا نہیں“ اور پھر معمولات شروع ہوجاتے ہیں۔ بےحسی کی حد بےغیرتی سے مل جائے تو پھر وقت بھی رحم نہیں کھاتا۔ آج بھی یہ حالت ہے کہ سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ حالات و واقعات شاہد ہیں، مگر ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ جن کا کام اس صورتحال سے نمٹنا ہے، وہ اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اطراف حفاظتی حصار بنا کر عیاشی کرتے ہیں۔
۔
پاکستان مستقبل میں ایک بار پھر خوفناک جنگ کا میدان بننے جا رہا ہے۔ لشکر جھنگوی کے افراد کا شام کی جانب کوچ کرنا آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے تو مودی کے بیان میں گلگت بلتستان کے عوام سے محبت کے اظہار کے بعد فوج کی طرف سے پارہ چنار میں تین تربیتی کیمپ تباہ کرنے کے واقعات مستقبل کا نقشہ کھینچ رہے ہیں۔ پارہ چنار میں کیمپوں کی تباہی اور دہشت گردوں کی گرفتاری ہمارا ”غیرجانبدار“ میڈیا بتانے سے قاصر ہے۔ ”اتحاد امت“ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اس لیے ان سب معاملات سے صرف نظر ”مصلحت“ کا تقاضا ہے۔ پارہ چنار، ڈیرہ اسماعیل خان، گلگت، ہری پور اور دیگر علاقوں میں شام سے آنے والی ”معصومین“ کی لاشوں پر بھی ہر طرف خاموشی ہے۔ مگر جب یہ خاموشی پاکستان میں شور میں بدلی اور دونوں جانب سے اپنے نظریات مسلط کرنے کی جنگ شروع ہوئی تو سب الٹ کر رہ جائے گا۔ پارہ چنار میں ان تربیتی کیمپوں کی تباہی اور دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد ”مسلم پڑوسی نواز“ ایک ٹولہ ملک بھر کی چورنگیوں پر احتجاجی دھرنے دینے لگ گیا۔ مقصد ان گرفتار دہشت گردوں کو رہا کرانا تھا۔ اور میڈیا پھر ایک بار ان معصومین کی ”معصومیت“ فروخت کرنے میں مصروف نظر آیا۔
۔
قطع نظر اس کے کہ دونوں گروہوں لشکر جھنگوی اور پارہ چناریوں کے تربیت یافتہ ”معصومین“ چھ ماہ شام میں لگانے کے بعد تین ماہ کے لیے پاکستان آتے ہیں۔ جب یہ مکمل تربیت یافتہ افراد پاکستان کو اپنی ”نظریاتی جنگ“ کے لیے میدان بنائیں گے تو پاکستانی قوم کا مقدر پھر لاشیں، زخمی، لوتھڑے اور انسانی اعضا ہوں گے، اور ٹی وی بیانات ہوں گے کہ ”دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔“
۔
”ہدایت“ آتی ہے کہ یہ حساس موضوع ہے اس پر بات نہ کرو۔ کیا کروں کبھی کسی انسانی عضو پر آپ کا پائوں آئے تو اس کے بعد کی کیفیات رات کو سونے نہیں دیتی، اور اس کے بعد کوئی موضوع حساس نہیں رہتا۔ بس انسانوں کو لاشوں اور اعضاء میں تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے جو ہوسکتا ہے وہ کرنا ہوگا۔
(طارق حبیب آج نیوز کے معروف پروگرام اسلام آباد ٹونائٹ سے بطور سینئر پروڈیوسر وابستہ ہیں)
تبصرہ لکھیے