چوراہے پر ٹریفک پھنسا ہوا تھا کیونکہ رش کا وقت تھا۔ سب لوگ خاموش تھے، ہارن کا شور شرابہ بھی نہیں تھا اور ٹریفک آہستہ آہستہ سرک رہا تھا۔ میری بیٹی بھی صبر کے ساتھ اسٹیرنگ پر بیٹھی تھی۔ چورنگی کے قریب پہنچ کر میں چونکا، دیکھا کہ کوئی پولیس کا سپاہی نہیں ہے، لیکن حیران کرنے والی بات یہ تھی کہ سارا ٹریفک رکا تھا کہ ہمارے بائیں طرف کی سڑک کی قطار سے دو گاڑیاں نکل کر چورنگی کراس کر گئیں اور پچھلی گاڑیاں رک گئیں۔ اس کے بعد ہمارے سامنے کی سڑک کی قطار سے دو گاڑیاں بڑھیں اور نکل گئیں، اس کے بعد ہمارے دائیں جانب کی قطار سے دو گاڑیاں نکل کر چورنگی پار کر گئیں۔ پھر ہماری قطار آگے بڑھی۔ ہر کوئی اپنے سیدھے ہاتھ کے ٹریفک کو راستہ دے رہا تھا اور ہر قطار سے صرف دو گاڑیاں ہی نکل کے جا رہی تھیں۔ اس طرح دیکھتے دیکھتے ہمارا نمبر بھی آگیا اور ہم بھی اس رش سے نکل آئے۔ واہ کیا ڈسپلن اور سوک سینس ہے، میں نے بیٹی کی طرف ستائش بھری نظروں سے دیکھا اور کہا کہ کیا یہاں ٹریفک پولیس چوراہوں پر نہیں ہوتی اور لوگ ایسے ہی دوسروں کا خیال کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ جی ہاں رش میں ایسے ہی ہوتا ہے اور پولس آپ کو شاذو نادر ہی کہیں نظر آئے گی۔ اپنے دہ ماہ قیام کے دوران مجھے ٹریفک پولیس کی گاڑی صرف دو دفعہ دستاویزات چیک کرتی ہی نظر آئی۔ روڈپر لگے اسپیڈ کی حد کے نشان کی حد درجہ پابندی دیکھی کیونکہ کیمرے ہر جگہ لگے ہیں۔ لیکن لوگ خود ہی قانون پر عمل کرتے ہیں اور غلط کام کرنے والے کو گھورتے ہیں۔ ایک دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ شہر کے باہر سے واپس آتے ہوئے رات میں کافی دیر ہوگئی، اطراف میں جنگل تھا، اچانک تیز روشنی کا جھماکہ ہوا، میرے بھانجے نے فوراً اسپیڈ کم کی، میں نے پوچھا کیا ہوا؟ تو اس نے بتایا کہ دھیان نہیں رہا تھا، اسپیڈ زیادہ ہوگئی تھی، اب تصویر کھینچ لی گئی ہے اور جرمانے کا ٹکٹ تصویر کے ساتھ گھر پر آجائے گا۔ یہ تذکرہ پرتھ آسٹریلیا کا ہے۔ وہاں پر شہری ذمّہ داریاں اسکول سے ہی سکھائی جاتی ہیں۔ قانون کی سختی ہے اور سب کے لیے برابر ہے۔ جس کا نتیجہ ایک مہذّب معاشرے کی صورت نظر آیا۔ اسی دوران کسی نے بتایا کہ وہاں کے سابق چیف جسٹس کو شاید کسی غلط بیانی پر سزا سنادی گئی تو حیرت ہی ہونی تھی۔
کسی نے درست ہی کہا کہ کسی معاشرے میں نظم و ضبط جانچنے کا پیمانہ اس کا ٹریفک کا نظام ہے۔ ہمارے معاشرے میں پھیلی نفسا نفسی، خود غرضی کا مظاہرہ ہر وقت سڑکوں پر ہوتا ہے۔ ایثار اور بھائی چارہ مفقود ہوچکا ہے۔ چوراہوں پر جگہ جگہ ٹریفک جام اس لیے ہوتا ہے کہ کوئی بھی کسی کو راستہ دینے پر آمادہ نہیں ہوتا اور کوشش یہی ہوتی ہے کہ میں پہلے نکلوں۔ خاص طور پر موٹر سائیکل والے حضرات جان خطرے میں ڈال کر رینگتے ہوئے ٹرک اور گاڑیوں کے آگے بھی نوّے ڈگری کا زاویہ بناکر گھوم کر نکلتے رہتے ہیں مگر راستہ دینے کو رکتے نہیں۔ یہ خودغرضی آپ کسی بھی سگنل اور چوراہے پر دیکھ سکتے ہیں۔ ایم اے جناح روڈ اور صدر میں ٹریفک سگنلز پر چار چار سپاہی کھڑے ہوتے ہیں، تب ہی ہمارے موٹر سائیکل کے جوان رکتے ہیں مگر پھر بھی اتنے بےتاب کہ سگنل کھلنے سے پہلے ہی چوتھائی سڑک عبور کرچکے ہوتے ہیں۔ یہ فرق ہے ایک تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ معاشرے میں اور ہمارے مادر پدر آزاد سسٹم میں کہ وہاں سگنل نہ بھی ہوتو بھی ٹریفک ضابطوں کا پاس کیا جاتا ہے جبکہ ہم کو سگنل پر بھی پولیس والے درکار ہیں۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ کراچی میں رانگ سائیڈ ڈرائیونگ تو اب ایک ایسا رویّہ بن چکا ہے جس کو بادل نخواستہ قبولیّت عامہ مل چکی ہے۔ اب تو گنجان علاقوں میں پولیس والے بھی عام طور پر اس کو نظر انداز کرتے نظر آتے ہیں۔ پہلے یہ خرابی موٹر سائیکل سواروں سے شروع ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ ہر قسم کی سواری اس میں ملوث ہوتی گئی۔ مین شاہراہوں کو چھوڑ کر اندرون شہر اور مضافات کی سڑکیں رانگ سائیڈ ڈرائیونگ سے بری طرح متاثر ہیں۔ کار سے لے کر ٹرک بس، ڈمپر سبھی اس سے مستفید ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایک خاتون کو رانگ سائیڈ پر کارڈرائیو کرتے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ واقعی قانون شکنی ایک معاشرتی رویّہ بنتا جا رہا ہے۔ کہیں ٹریفک پھنسا ہو تو اب کوئی بھی رانگ سائیڈ سے آنے والے کو آنکھ نہیں دکھاتا کیونکہ اگلے کسی موڑ پر اسے بھی ایسا ہی کرنا ہوتا ہے ۔ یہ پر امن بقائے باہمی برائے قانون شکنی ہے۔ کسی کو ٹوکنے کا مطلب جھگڑا ہے، یعنی الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ المیہ یہ ہے کہ اب اکثر کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں رہا بلکہ یہ ایک مجبوری ہے۔
رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کی وجہ سے اب لوگ روڈ کراس کرتے وقت ون وے پر بھی دونوں طرف دیکھتے ہیں کہ کہیں سے بھی کوئی وارد ہوسکتا ہے۔ بیمار، خواتین اور بوڑھے کافی دیر حیران و پریشان روڈ پر کھڑے گردن گھماتے رہتے ہیں کہ ہر طرف سے ٹریفک ہلکا ہو تو کراس کریں۔ کراچی ٹریفک پولیس اس وبا کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہے جس کی وجہ سے بہت سے حادثات ہو چکے ہیں۔ رات کے وقت عموماً چند گاڑیوں کے بعد کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل بغیر لائٹ کے اور تیز رفتاری سے آتی نظرآتی ہے اور رانگ سائیڈ پر بھی بغیر لائٹ کے چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے جہاں اسٹریٹ لائٹ نہ ہو وہاں روڈ کراس کرنا جان جوکھم میں ڈالنا ہوتا ہے۔ میں خود ایک دو دفعہ خوف کے عالم میں روڈ کراس کرنے کے بعد رات کو لوڈ شیڈنگ کے دوران گھر کو مسجد پر فوقیت دینے پر مجبور ہوا۔ بچّوں کو کسی بھی کام سے رات کو روڈ کراس کرنے کی ممانعت کر دی۔
کراچی میں چند سال پہلے جو سڑکیں، انڈرپاس اور پل وغیرہ بنے، اس سے ٹریفک میں سہولت تو ہوئی لیکن وہ نظام مغرب کے تربیت یافتہ شہری کو سامنے رکھ کر ڈیزائن کیا گیا تھا جہاں صبر اور ایثار کے ساتھ قوانین کا احترام کیا جاتا ہے، یہاں مسئلہ یہی ہوا کہ کیونکہ آدھا کلومیٹر جا کر سگنل سے یوٹرن لینے میں بہت زیادہ وقت لگتا اور فیول بھی لہٰذا لوگوں نے اس صورتحال اور ٹریفک جام سے تنگ آ کر رانگ سائیڈ جانا شروع کیا جو اب کراچی میں ٹریفک کی روایت بن چکا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکول میں بچوں کی اچھے شہری بننے کی مناسب عملی تربیت ہونی چاہیے کہ روڈ کیسے پار کی جاتی ہے، کوڑا کیسے اور کہاں ڈالنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح میڈیا کے اصحاب کو چاہیے کہ اپنے پروگراموں میں اور ڈراموں میں چھوٹے چھوٹے پیغامات سے لوگوں کی ذہنی تربیت کریں کہ ٹریفک کے قوانین کیا ہیں اور رانگ سائیڈ ڈرائیونگ کیسے کیسے نقصانات پہنچاسکتی ہے۔ ایثار اور بھائی چارے کے جذبات جگانے والے پروگرام اور ڈرامے دکھانے چاہییں تاکہ تفریح کے ساتھ ذہنی تربیت ہو۔
تبصرہ لکھیے