اچھا پھر پتہ ہے کیا ہوا؟ پھر میں نے
ٹُن ٹُن،
ٹُن ٹن،
اچھا ہاں۔ تو میں کہ رہا تھا کہ
ٹُن ٹُن۔
ٹُن ٹن،
ہاں تو پھر میں نے اسُ سے کہا کہ یار تم
ٹُن ٹُن،
ٹُن ٹن،
یار تُو پہلے فیس بُک سٹیٹس چیک کرلے۔ اور واٹس ایپ پر میسجز کے جواب دے دے۔ ٹھیک ہے؟ میں بعد میں آجائوں گا۔ علی منہ بناتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔
علی بات سُن۔ علی؟ اوئے سنُ یار۔
عمر موبائل بٹن دباتے ہوئے التجا کرنے کو اٹھا مگر بے سُود۔
علی جب تک اپنے گھر کی راہ لے چکا تھا۔
عمر دراصل دوستوں سے تنگ تھا جن کے باعث نوٹیفیکیشن کا لا متناہی سلسلہ جاری رہتا اور اس کا کام متاثر تھا۔ آج علی بھی اسی باعث اٹھ کر چل دیا تھا۔
ہمارے معاشرے میں فیس بک، ٹوئٹر اور واٹس ایپ کے صارفین چند سالوں میں بہت بڑھ گئے ہیں۔ اس میڈیم کے بہت سے فوائد بھی ہوئے اور نقصانات بھی جو خاکسار اپنے پچھلے آرٹیکل”تُو تُو، میں میں“ میں عرض کر چکا۔ ٹیکنالوجی جس معاشرے میں متعارف ہوتی ہے اسُ کے درست اور بہتر استعمال سیکھنے میں معاشرے کچھ عرصہ ضرور لیتے ہیں۔ جیسے سننے میں آیا ہے کہ یورپی معاشرے میں بلب کی ایجاد کے ابتدائی ایام میں اکثر لوگ اسے بھُولےسے روشن کرنے کے لیے دیا سلائی کا استعمال کرجاتے جبکہ بعد میں احساس ہوتا کہ اسے بٹن سے روشن کیا جاتا ہے۔ برسبیلِ تذکرہ یہاں پاکستانی معاشرے کا ذکر ہوجائے جہاں سوشل میڈیا بہت تیزی سے لوگوں کی زندگیوں کا حصہ بنتا جارہا ہے مگر کچھ چیزیں سیکھنے کی ضروت ہے۔ خصوصی طور پر انُ احباب پر جو اس میڈیم کو خالہ جی کا گھر سمجھ کر سارا دن اس میں پڑے رہتے ہیں۔ کچھ چیزیں عرض کرتا ہوں جن کا سامنا آپ بھی کرتے ہوں گے۔
1- ٹیگ آپشن:
یہ وہ آپشن ہے جو ہمارے فیس بُک کے ذہنی نابالغ لڑکے لڑکیاں بےجا استعمال کرتے ہیں۔ اپنی فیملی کی ہر تصویر، عید پر اپنے بکرے کی تصویر، خاندان میں کسی منگنی پر اپ کمنگ دولہا کے ساتھ تصاویر، رمضان میں افطاری کی تصاویر، میکڈونلڈ و کے ایف سی پر مُفتے کے دوران لی گئی تصویر، سینیما میں لی گئی تصویر حتی کہ میرے منہ میں خاک اپنے کسی عزیز کی فوتگی پر لی گئی تصویر بہت شوق سے پوسٹتے ہیں اور ساتھ میں دنیا بھر کو ٹیگ مارتے ہیں۔
بھائی؟ کیوں ہمارا جینا اجیرن کررکھا ہے؟ نہ آپ ایٹمی بم بناتے وقت ڈاکٹر عبد القدیر صاحب کے اسسٹنٹ تھے اور نہ 92 کے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔ لہذا آئندہ ہمیں معاف رکھیے پلیز۔ ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے آپ کی ذاتی زندگی میں۔ پلیز مجھے معاف کر دیجیے۔
2- گروپ میں بغیر بتائے شامل کرنا:
میں فیس بُک یا قریب قریب وٹس ایپ پر ہر مہینے اپنے آپ کو کئی گروپس سے ڈیلیٹ کرتا ہوں۔ اور فیس بُک پر اسُ آپشن پر بھی کلک کرکے حتمی مہر ثبت کرتا ہوں کہ مجھے اب دوبارہ اس گروپ میں شامل نہیں ہونا۔ مگر سوختہِ بختی کہیے کہ قوم کو نئے گروپ بنانے کی ضرورت پیش آجاتی ہے جس میں میری موجودگی اتنی ضروری ہوجاتی ہے جتنی ہمارے ٹیم میں مصباح الحق کی۔
بھائیو! رحم کیجیے۔ کیوں مجھ جیسے فارغ لوگوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر اپنے گروپ میں ڈالتے ہیں؟ آپ کے گروپ میرے بغیر بھی اچھے چل سکتے ہیں۔ پلیز مجھے معاف کر دیجیے۔
3- مفت کے تجزیے اور فتوے:
سوشل میڈیا پر ہمیں قومی اور بین الااقوامی سطح کے فلسفی، دانشور اور تجزیہ کار تھوک کے حساب سے ملتے ہیں۔ آپ اپنا ایک سٹیٹس ڈالیے جو صرف 1 لائن پر مشتمل ہو۔ آپ کی ذاتی رائے ہوگی یا ازراہِ تفنن آپ نے کسی دوست سے چھیڑ خانی کی ہوگی۔ چند گھنٹوں میں فیس بُک مفتیانِ کرام کے ایک فوج آن دھمکے گی، اور بال کی کھال ادُھیڑ کر رکھ دے گی۔ پہلے فرض واجب مستحب کی درجہ بندی سمجھائی جائے گی، پھر عالمی تناظر میں اس پر تجزیہ ہوگا۔ بھائی میں نے صرف ایک سٹیٹس ہی تو پوسٹ کیا تھا۔ نہیں نہیں جناب۔ یہ قوم کے درد میں مٹے جاتے ہیں۔ آپ کیسے بھلے اِن کی اصلاح زدہ کمنٹ سے بچ سکتے ہیں۔ بھائی مجھ سے غلطی ہوگئی۔ پلیز آپ بھی مجھے معاف کر دیجیے۔
میری تمام دوستوں سے درخواست ہے کہ ازراہ کرم
1- کسی دوست کو اس کی اجازت کے بغیر کسی گروپ میں مت ڈالیے۔ یہ ٹھیک نہیں۔ یہ اس کی اذیت کا باعث بن سکتا ہے۔
2- دوسری بات یہ کہ پلیز خوامخوا ہر چیز کو 25،30 دوستوں کو ٹیگ کرنا بھی درست نہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کیجیے کہ ایسی پوسٹ جس میں آپ کا کوئی دوست ممکنہ طور پر دلچسپی لیتا ہے اُسے ٹیگ کر دیں ۔ مگر بتائیے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ باتھ رُوم والے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے بگڑے ہوئے جغرافیے والے چہرے کی لی گئی تصویر سب کو ٹیگ کریں۔ دیکھیے آپ جس جس کو پسند ہیں وہ لائک کردے گا لیکن ازراہ ِکرم یہ کچھ مت کیجیے۔
3- تیسری اور آخری بات۔ فیس بُک پر بحث سے گریز کریں۔ یقین کیجیے آپ اپنے کمنٹ کے زور پر کسی کی سوچ نہیں بدل سکتے۔ ہاں اس سے نقصان ضرور ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وہ آپ سے متنفر ہوجاتا ہے اور لگے ہاتھوں اس بحث میں پڑ کر آپ کا وقت الگ برباد ہوتا ہے۔ کمنٹ در کمنٹ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جاری رہتا ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ دونوں طرف عمومی طور پر جذبات اُبلنے لگتے ہیں۔
الحمدللہ فیس بُک ٹوئٹر وغیرہ پر نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد ایسی موجود ہے جو یہ میڈیم بہت تعمیری طور پر استعمال کر رہی لہذا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہم بہت جلد انِ کا بہتر اور مثبت استعمال شروع کردیں گے۔
تبصرہ لکھیے