ہوم << کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

کراچی اور ایم کیوایم، مستقبل میں کیا ہوگا؟ صفی الدین اعوان

%d9%85%d9%84%da%a9-%d8%b3%db%8c%d9%81-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86-%d8%a7%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%86 بعض ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایم کیو ایم کا سیاسی زوال شروع ہوچکا ہے. اگر فاروق ستار وغیرہ ایم کیو ایم کی موجودہ تنظیم کو بچالینے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو بھی اس زوال کو روکنا ممکن نہیں ہوگا. آج کراچی کی آبادی اسی لاکھ سے بڑھ کر ڈھائی کروڑ تک پہنچ چکی ہے بلکہ محسوس تو یہ ہوتا ہے کہ آبادی ڈھائی کروڑ سے بھی بڑھ چکی ہے لیکن ایم کیو ایم کے پاس وہی ووٹ بینک ہے جو تیس سال پہلے تھا۔ شاید زوال کا لفظ مناسب نہ ہو تو یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ایم کیو ایم مخالف جماعتیں کراچی میں ایم کیو ایم کے مقابلے میں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے زیادہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہوں گی.
ایم کیوایم حقیقی گروپ اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بھی کراچی کے چند علاقوں میں ایم کیو ایم کے لیے حقیقی خطرہ ہے تو دوسری طرف مصطفٰی کمال کی پاک سرزمین پارٹی اپنا نیٹ ورک پھیلا رہی ہے. اگرچہ ایم کیو ایم جیسی پذیرائی حاصل کرنا ممکن نہ ہو لیکن ووٹ بینک تو ضرور تقسیم ہوگا. اس کے ساتھ ساتھ قتل و غارت گری کا بھی خدشہ ہے،
بےشمار نئی آبادیاں آباد ہوچکی ہیں جہاں ایم کیو ایم کا کوئی ووٹ بینک نہیں اور کراچی کی وہ رہایئشی اسکیمیں جو مختلف وجوہات کی بنیاد پر آباد نہیں ہورہی تھیں، وہاں تیزی سے آباد کاری ہو رہی ہے. ملیر میں ہاری ہوئی نشست ایم کیو ایم کے لیے کھلا پیغام ہے.
کل ایک مضافاتی بستی میں جانا ہوا تو دیکھا کہ گلشن مزدور بلدیہ ٹاؤن جو کے ایم سی کے ملازمین کو الاٹ کی گئی رہایئشی اسکیم تھی، گزشتہ سولہ سال تک غیر آباد رہنے کے بعد اور امن کا عمل بحال ہونے کے بعد اب وہاں بہت تیزی سے آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور چند ماہ میں پلاٹ کی قیمت دولاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ روپے تک پہنچ گئی ہے. بلاشبہ وہاں سینکڑوں کی تعداد میں پلاٹ زیرتعمیر تھے، سیمنٹ بجری وغیرہ کی ضروریات پوری نہیں ہو پا رہی تھیں. کراچی شہر کے ساتھ ہی مضافات میں بے شمار پر رونق بستیاں وجود میں آچکی ہیں. اسی طرح ایک مضافاتی بستی میں ایک بلوچ سردار کا ایک بہت بڑا شاپنگ مال دیکھا جو بلوچستان کے سابق وزیراعلٰی بھی ہیں، وہاں جو رش کا عالم تھا اور جس طرح کاروباری سرگرمیاں عروج پر نظر آئیں، اس کامقابلہ کراچی کے روایتی بازار صدر اور جامع کلاتھ سے کیا جاسکتا ہے. طارق روڈ سمیت بہت سے مصروف کاروباری علاقوں سے آکر وہاں کپڑے کے تاجروں نے کاروبار شروع کیا اور وہ لوگ بہت مطمئن بھی تھے.
مضافاتی علاقوں میں شہر کے اندر کئی نئے شہر آباد ہوچکے ہیں. نو آباد پررونق بستیوں کی چہل پہل اور کاروباری رونقیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے. اسی طرح کراچی سے ایک اہم فوجی چھاؤنی سکیورٹی وجوہات کی بنیاد پر حیدرآباد منتقل ہو رہی ہے، چھاؤنی کا ستر فیصد غیر آباد علاقہ کنٹونمنٹ کے رہائشی علاقے میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہے، یہاں بھی ایک پورا شہر آباد ہوگا.
کراچی میں پراپرٹی کی قیمت میں بےتحاشا اضافہ ہوا ہے، بہت سے علاقوں میں پلاٹ کی قیمتیں صرف ایک سال کے اندر ڈبل ہوچکی ہیں، کئی کامیاب رہائشی اسکیموں میں اب پلاٹ دستیاب نہیں ہیں، یہ وہ اسکیمیں ہیں جہاں صرف ایک سال پہلے تک کوئی پلاٹ خریدنے نہیں آتا تھا. بحریہ ٹاؤن اور ڈیفنس نیوسٹی میں ابھی آبادی کا عمل شروع نہیں ہوا مگر ان نئی اسکیموں کی وجہ سے اردگرد سینکڑوں نئی رہائشی اسکیمیں وجود میں آچکی ہیں، جہاں آئندہ چند سالوں میں ایک نئی دنیا آباد ہوجائےگی.
جب سے امن بحال ہوا ہے، کراچی میں چہل پہل عروج پر پہنچ چکی ہے، اس عرصے میں جہاں بھی آبادی میں اضافہ ہوا ہے، وہاں کہیں بھی ایم کیو ایم نظر نہیں آتی. بہت بڑی تعداد میں مالی طور پر انتہائی خوشحال بلوچ سرمایہ کار بھی کراچی منتقل ہوئے ہیں اور پہلی بار بلوچ سرمایہ کاروں نے دبئی اور عمان وغیرہ سے پیسہ لا کر کراچی کی مضافاتی بستیوں شاپنگ مال وغیرہ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی ہے. کراچی کے مضافاتی علاقوں جو بلوچستان کے شہر حب چوکی سے منسلک ہیں، وہاں اورنگی سے سرجانی تک کی تمام زرعی زمینیں بلوچوں کی وراثتی ملکیت ہیں اور وہاں بھی بہت بڑی تعداد میں رہائشی اسکیمیں وجود میں آ رہی ہیں.
ایم کیو ایم اپنے روایتی علاقوں میں بدستور موجود رہے گی لیکن پورے کراچی کی سطح پر شیئر کم ہوگا، اور اگر ووٹ بینک تقسیم ہوا تو ایم کیو ایم کے لیے ضرورت سے زیادہ مسائل سامنے ہوں گے کیونکہ اس کے پاس تاحال الطاف حسین کی سطح کا سخت گیر اور تنظیمی اصولوں کو سمجھنے والا لیڈر نہیں ہے. کراچی کے دواضلاع ملیر اور ساؤتھ میں ایم کیو ایم بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اکثریت ثابت نہیں کرسکی اور کراچی کے علاقے ویسٹ میں جیت مشکوک ہوچکی ہے.
موجودہ حالات میں نون لیگ کراچی میں سیاسی خلا پورا کرسکتی تھی لیکن میاں صاحب نے کراچی پر وہ توجہ نہیں دی جو دینا چاہیے تھی. کراچی نون لیگ کا روایتی شہر رہا ہے لیکن میاں صاحب کو کراچی میں ایک بھرپور قسم کی مضبوط شخصیت اور سیاسی قیادت دینی ہوگی جس کےلیے تاحال نون لیگ سنجیدہ نہیں ہے. پیپلزپارٹی، نون لیگ، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت قومی جماعتوں کو کراچی کے لیے بالکل ہی الگ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، مہاجروں کا خوف و ہراس دور کرنا ہوگا، مہاجر بستیوں کا تحفظ ہر صورت میں یقینی بنانا ہوگا کیونکہ مہاجر بستیاں آج بھی سانحہ علی گڑھ اور ماضی کے فسادات سے باہر نہیں نکل سکی ہیں، ملازمتوں اور دیگر معاملات کے لحاظ سے بھی کراچی کے شہری شکوک کا شکار ہیں. کراچی میں نئی یونیورسٹیوں، میڈیکل اور انجینرنگ کالجز کی فوری ضرورت ہے. کراچی کے شہریوں کا بالکل جائز شکوہ ہے کہ کوئی بھی جماعت صرف اور صرف کراچی کا مقدمہ نہیں لڑتی، اس لیے قومی جماعتوں کو پالیسی کے تحت ایک ایسی عوامی سطح کی قیادت کراچی کو دینی ہوگی جو کراچی کے روایتی مسائل پر ہر وقت اور ہر لمحہ بات کرے کیونکہ یہاں ایم کیو ایم کے علاوہ کوئی نہیں جو کراچی کراچی کا راگ ہروقت الاپتا رہے. اس حوالے سے ایم کیو ایم کا نیٹ ورک بہت زیادہ متحرک تھا، ایم این اے، ایم پی اے اور سینیٹر ہر روز اپنے علاقے میں خود عوام کے مسائل سنتے تھے اور کونسلرز وغیرہ تو بہت ہی زیادہ عوامی تھے.
اس کے مقابلے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے اندر ڈسپلن نام کی کوئی چیز نہیں ہے. ہر وقت آپس میں ہی الجھتے رہتے ہیں، وہ عوام کے مسائل کیا حل کریں گے؟ کراچی کا صدر اور دیگر قائدین جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہوتا، نہ وہ ایم این اے ایم پی اے ہوتے ہیں، اس کے باوجود وہ چھوٹے موٹے کارکن سے ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے، اس لیے دیگر سیاسی جماعتیں اس میدان میں اور عوامی رابطوں کے لحاظ سے ایم کیو ایم کا مقابلہ کا سوچ بھی نہیں سکتی ہیں. اگر دہشتگردی کا عنصر نکال دیا جائے تو ایم کیو ایم عام آدمی کی پارٹی ہے اور پاکستان کی کوئی جماعت اس کا مقابلہ کرنے کا سوچ نہیں سکتی. کیا یہ بات سچ نہیں کہ ایم کیو ایم کی پوری قیادت گلی محلے کے عام لوگوں اور کارکنان پر مشتمل ہے۔ میں نے خود ایک ایم پی دیکھا جو میرے سامنے ہی چند سال پہلے تک دن میں آلو پیاز کی ریڑھی لگاتا تھا اور شام کو شربت بیچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ منتخب ہونے کے بعد سب سے زیادہ مال اسی نے کمایا۔ اسی طرح بہت سے عام اور غریب لوگ آج بھی منتخب نمائندوں کے طور پر شہر میں موجود ہیں اور یہی تنظیمی ڈسپلن اور نیٹ ورک ایم کیو ایم کی کامیابی ہے.
پبلک ٹرانسپورٹ کراچی شہر میں مکمل طور پر تباہ اور برباد ہے، اس لیے اگر سرکلر ریلوے کو بحال کردیا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے. اورنج ٹرین کے مقابلے میں کراچی شہر میں تو ریلوے کا پورا اسٹرکچر موجود ہے، ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ ہے جو ختم کروایا جاسکتا ہے لیکن کیا وفاقی حکومت چاہے گی کہ کراچی کے شہریوں کی آمد و رفت کے مسائل کے حل کے لیے کوئی میگا پروجیکٹ دے. بدقسمتی سے اگر جائزہ لیاجائے تو ایم کیو ایم بھی مشرف کے پورے دور میں جب ان کی حکومت تھی، تو پانی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کا کوئی بہت بڑا منصوبہ نہیں لاسکی، جس کا مقابلہ میٹرو بس اور اورنج ٹرین سے کیا جاسکے. بعض چھوٹے منصوبے تھے مگر وہ بھی کرپشن کی نذر ہوگئے. جس طرح لاہور نون لیگ کی پہلی اور آخری ترجیح ہے، اسی طرح تمام سیاسی جماعتوں کو کراچی کےلیے بالکل الگ منصوبہ بندی کرکے کراچی کو پہلی اور آخری ترجیح قرار دینا ہوگا، اور کراچی کے شہریوں کے لیے میٹرو بس اور اورنج ٹرین وغیرہ کے بڑے بڑے منصوبے شروع کرنے ہوں گے. ایم کیو ایم صبح شام کراچی کا رونا روتی ہے، اس کے مقابلے میں آنے کے لیے اتنا ہی مضبوط مؤقف قومی جماعتوں کو اپنانا ہوگا.

Comments

Click here to post a comment