عرش کے مالک کا فیصلہ کیا ہے؟ کون جانتا ہے، کون ہے کہ دعویٰ کرے۔ اشارے مگر یہ ہیں کہ پاکستان سے بے وفائی کرنے والوں کی رسوائی کا وقت آپہنچا۔ پاکستان کا کون دشمن ہے ،بربادی سے جو محفوظ رہا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے ، سانحۂ 1971ء کے مجرموںکا انجام کیا ہوا؟
مثبت پیش رفت بھی ہے اور بہت ہے۔ ایک مسئلہ ہمارے قومی مزاج کا ہے اور ایک میڈیا کا۔ آدمی کو خود سے ہمدردی ہوا کرتی ہے‘ جب تک اس سے وہ نجات نہ پالے۔ جب تک ادراک نہ کرلے کہ اسے پیدا ہی آزمائش کے لیے کیا گیا، مشکلات اس کے لیے گھبراہٹ لے کر آتی ہیں اور سیدنا علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا تھا: مشکل میں گھبراہٹ ایک دوسری مشکل ہے۔ ادراک کی قوت دھندلا جائے توآدم زاد بھول جاتا ہے کہ تجزیہ کرنے کے لیے جذباتی توازن درکار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہ امتحانوں میں امکانات اور مواقع چھپے ہوتے ہیں۔
کارروائی اور اقدام تو کجا، تمام تر جرائم کے باوجود الطاف حسین کو ہم چارج شیٹ نہ کرسکے تھے۔ اﷲ کی رحمت جوش میں آئی۔ مقتولین کی فریاد سُن لی گئی اور حضرت والا نے اپنے آپ کو خود ہی چارج شیٹ کیا۔
22اگست 2016ء کی شام عالی جناب نے جب اعلان کیا کہ پاکستان دہشت گردی کا گڑھ ہے ، ایک ناسور اور کینسر ہے تو دراصل اس اعلان کے تمام مضمرات کا ، ابھی تک ہمارے لیڈر اور دانشور اندازہ نہیں کرسکے۔ مطلب یہ تھا کہ دراصل الطاف حسین اور اس کے ساتھی معاشرے کا کینسر اور ناسور ہیں۔
شام کے اس خطاب سے قبل، ایک عدد تقریر عالی جناب نے صبح کے وقت بھی کی تھی۔ وہ نقل نہیں کی جاسکتی۔ قابل ذکر یہ ہے کہ فاروق ستار کو انہوں نے بے نقط سنائیں، واقعی بے نقط۔ایک لفظ بھی اس کا شائع نہیں کیا جاسکتا۔ سر جھکائے ''جی بھائی ، جی بھائی‘‘ کہتے رہے۔ ان کے ایک قدیم دوست نے یہ واقعہ سنایا تو اس پر اضافہ کیا: وہ آدمی اپنے قبیلے کی قیادت کیسے کرے گا، جو عزت نفس کے بنیادی احساس سے بھی بہرہ ور نہیں۔
فاروق ستار کے وکیل، نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے مفکرین کرام، مزید برآں پروپیگنڈے سے متاثر ہونے والے دانشور اس دن سے تلقین فرما رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو دیوار کے ساتھ نہ لگایا جائے۔ الطاف حسین کا نام پارٹی کے دستور سے انہوں نے حذف کردیا ہے۔ چنانچہ اب ایسی کوئی بات نہ کہی جائے ، ان کے طبع نازک پہ جو گراں گزرے۔
سوال بہت سادہ ہے اور سامنے کا۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھی، اس روز الطاف حسین سے قطع تعلق نہ کرتے تو اور کیا کرتے؟کراچی سمیت ردّعمل کی آگ، پورے ملک میں بھڑک اٹھی تھی۔ اس آگ میں جل کر راکھ ہوجاتے۔ بغاوت کے مقدمات ان کے خلاف قائم ہوتے اور زیادہ سے زیادہ چند ماہ کے دوران، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی رکنیت سے محروم ہوجاتے۔ خلق خدا کی لعنت ملامت اس کے سوا۔ وہ رات انہوں نے رینجرز کی حراست میں گزاری۔ یہاں کراچی پہنچ کر پوری طرح میں نے تصدیق کرلی ہے کہ وہ خوف زدہ تھے۔ جس مختصر اجتماع سے الطاف حسین نے خطاب کیا تھا اور جس نے ان کے ساتھ ''پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگائے تھے، زیادہ تر اس میں خواتین تھیں۔ ایک طے شدہ منصوبے کے مطابق، جو پہلے سے مرتب تھا، انہی لوگوں نے بعدازاں ٹی وی کے دو مقامی چینلز پر حملہ کیا تھا۔ سب کے سب یہ ''حریت پسند‘‘ فلمیںدیکھ دیکھ کر ، ان خواتین کی نشان دہی کرتے رہے۔ ہراساں اور مضطرب، فکر مندی ان کی یہ تھی کہ آنے والا کل ان کے لیے کیا لائے گا۔
قلعوں میں چھپے فتنہ پرور یہودیوں پر یلغار کے لیے ، مدینہ منورہ سے اصحابؓ رسول ﷺ کا لشکر خیبر پہنچا۔ ریگ زار کی بستیوں پر شب اُتر آئی تھی۔ سویر طلوع ہوئی تو ختم المرسلین ﷺ نے صبح صادق کے دھندلکوں سے آبادی کو نمودار ہوتے پایا۔ نگاہ اُٹھی اور ارشاد کیا: ''بری ہے، ڈرائے گیوں کی صبح۔‘‘
جیسا کہ ہمیشہ سے ان کا طریق چلا آتا ہے، فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے وقت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند افسروں سے رابطہ ہوا، اس شب جن سے الطاف حسین کی ''امّت‘‘ کا سامنا ہوا ۔اُن میں سے ایک نے کہا: دو تین ماہ کا وقت انہیں درکار تھا۔ فاروق ستار غلط کہتے ہیں کہ لندن سے ان کا رابطہ نہ ہوا۔ بالکل ہوا اور ان کی اجازت سے فیصلہ صادر کیا گیا۔ الطاف حسین سے بریّت کے سوا تمام کے تمام راستے بند تھے۔ دوسرا خوف فاروق ستار کو یہ لاحق تھا کہ اگر کھل کر اور ڈٹ کر اپنے مربّی کی انہوں نے مخالفت اور مذمت کردی تو ممکن ہے کہ ''فدائین‘‘ ان پر ٹوٹ پڑیں۔ آج تک اسی ذہنی کیفیت کا وہ شکار ہیں۔ ادھر لندن کی رابطہ کمیٹی، مکمل طور پر اب بھارت کے رحم و کرم پر ہے۔ کشمیر میں زچ ہونے والی بھارتی قیادت کے اشارے پر انہوں نے مہاجروں کی ''آزادی‘‘ کا نعرہ بلند کیا ہے۔ واسع جلیل کے ایک خطاب کی فلم سوشل میڈیا پر دیکھی جاسکتی ہے، الطاف حسین کے ڈیڑھ دو درجن کارندے ، جس میں مہاجروں کے علاوہ بلوچوں اور پختونوں کی ''آزادی‘‘ کے لیے نعرہ زن ہیں۔ ان احمقوں کا خیال یہ ہے کہ اس طرح وہ پاکستانی عوام، فوج اور سیاسی قیادت کو خوف زدہ کرکے رکھ دیں گے۔ 22اگست کے بعد امریکہ اور جنوبی افریقا میں اپنے چند سو حامیوں سے ندیم نصرت، واسع جلیل اور الطاف حسین کے خطابات کی فلمیں اگر آزاد میڈیا پر دکھائی جاسکیں تو کراچی میں باقی ماندہ ''مجاہدین‘‘ کا گھروں سے نکلنا مشکل ہوجائے۔
دوسروں سے زیادہ آدمی کی عقل خود اسی کو فریب دیتی ہے اور آخر کار وہ اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں، ندیم نصرت کا ایک بیان نشر کیا جارہا ہے کہ الطاف حسین کو مہاجروں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ فاروق ستار کا موقف بھی کہ ایم کیو ایم پاکستان کا اس بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ تعلق کیوں نہیں حضور؟ ندیم نصرت، اب بھی ایم کیو ایم کے کنوینر ہیں۔ الطاف حسین سے عدم تعلق کا اعلان ایک حکمت عملی ہے۔ اس کے باوجود اعلانیہ طور پر ، ویسی ہی غدّاری کا ارتکاب کرنے والے ندیم نصرت کا منصب برقرار ہے۔ فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے پاکستانی عوام کو کیا احمق سمجھ رکھا ہے؟ جی نہیں ، وہ خود حماقت میں مبتلا ہیں۔ نہایت تیزی سے وہ اپنے انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جیسا کہ پی ایس 127میں ، صوبائی اسمبلی کے انتخاب سے واضح ہوا، گھٹتے گھٹتے، ایم کیو ایم کے ووٹ پندرہ بیس فیصد رہ گئے۔ وہ بھی اس طرح کہ رینجرز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے، اُن پر چڑھ دوڑنے والے ایم کیو ایم حقیقی کے کارندوں کو گرفتار کرلیا۔ وہ بھی اس طرح کہ شادمان کے علاقے میں ، تین پولنگ سٹیشنوں پر بہت سے جعلی ووٹ بھگتانے کا انہیں موقع مل گیا۔ ؎
بڑھتے بڑھتے حد سے اپنی بڑھ چلا دستِ ہوس
گھٹتے گھٹتے ایک دن دستِ دعا رہ جائے گا
ایک ایک کرکے، تاریکیوں میں چھپے تمام پیچیدہ پُراسرار ''سیاسی‘‘ کردار بے نقاب ہورہے ہیں۔ الطاف حسین، ندیم نصرت اور واسع جلیل ہی نہیں‘محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی خان ہی نہیں، سندھ میں وفاقی حکومت کا نمائندہ، صوبائی گورنر عشرت العباد بھی، ناقدین جنھیں ''رشوت العباد‘‘ کہتے ہیں۔
جناب عشرت العباد کھیل کا حصہ ہیں، جس کا ایک ڈرامائی کردار انہوں نے ادا کیا۔ اس کی تفصیل پھر کبھی۔ فی الحال ایک سوال اور اس کا جواب۔ ایک باخبر اور معتبر قومی شخصیت سے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں، جس کا بہت ہی اہم کردار ہے ، میں نے پوچھا: عشرت العباد صاحب کا رابطہ کس کس کے ساتھ قائم ہے؟ جواب: چھ جہات ہوتی ہیں.... مشرق، مغرب، شمال اور جنوب، اوپر اور نیچے۔ ہر طرف ان کی کھڑکیاں کھلی ہیں۔ ساتویں جہت کے بارے میں البتہ کچھ عرض نہیں کیا جاسکتا۔ ساتویں جہت؟ جی ہاں، آسمانوں سے پرے ربّ عرش عظیم کی دنیا!
عرش کے مالک کا فیصلہ کیا ہے؟ کون جانتا ہے، کون ہے کہ دعویٰ کرے۔ اشارے مگر یہ ہیں کہ پاکستان سے بے وفائی کرنے والوں کی رسوائی کا وقت آپہنچا۔ پاکستان کا کون دشمن ہے ،بربادی سے جو محفوظ رہا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت سے تعلق رکھنے والے ، سانحۂ 1971ء کے مجرموںکا انجام کیا ہوا؟
تبصرہ لکھیے