روس کا اپنی معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنا اور چین کی اس کے ساتھ قربتیں بڑھنا امریکہ اور انڈیا دونوں کے لیے نیک شگون نہیں ہے، کیونکہ امریکی جانتے ہیں کہ ہم نے پاکستان کو فرنٹ لائن سٹیٹ کے طور پر جتنا استعمال کرنا تھا کرلیا اور پاکستان کا خطے میں چین کی جانب جھکاؤ اسے روسی اتحاد کی جانب لے جائے گا جس سے امریکہ کی خطے میں بالادستی پر کاری ضرب لگے گی۔ اسی طرح انڈین ماہرین کا خیال ہے کہ خطے میں امریکی اثر کم ہونے سے مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ افغانستان میں افغان حکومت کا کمزور ہونا اور چینی سرمایہ کاری کا بڑھنا بھی ان کے لیےتشویش کا باعث ہے۔
امریکہ نے مغربی پانیوں پر کافی روڑے اٹکائے تاکہ چین مزید مارکیٹوں تک رسائی حاصل نہ کر سکے۔ پاک چین اقتصادی راہداری دراصل چین کی پوری دنیا کی تجارتی منڈی پر قبضے اور اثر و رسوخ کا باعث بنے گا جوامریکہ اور بھارت کو کبھی بھی منظور نہیں ہوگا۔ اس لیے مختلف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔امریکہ اور بھارت کی قربتیں اسی تناظر میں ہیں. ہاورڈ ڈاکٹرائن کا استعمال کیا جارہا ہے جس کا مقصد کمیونزم کا پھیلاؤ روکنا تھا۔ آج وہی ڈاکٹرائن نئے انداز سے سامنے آ رہی ہے، مقصد پاکستان کو مستحکم ہونے اور چین کو گوادر تک رسائی سے روکنا ہے۔
پاکستان کو آگے بڑھتے ہوئے روس سے معاہدے کرنے چاہییں تاکہ خطے میں طاقت کا توازن برقرار رہے۔ ساتھ ہی اس گریٹ گیم میں ترکی اور سعودی عرب کو بھی شامل کرلینا چاہئیے۔ اگر ممکن ہوسکے تو سری لنکا کو بھی کیونکہ اس سے جغرافیائی اور معاہداتی دباؤ انڈیا پر ہوگا اور امریکہ خطے میں یکطرفہ طاقت کو دیکھ کر اپنی دوغلی پالیسی سے وقتی طور سہی مگر باز آ جائے گا۔
امریکہ بھارت عسکری معاہدہ، کیا ہم دباؤ میں ہیں؟ محمود شفیع بھٹی

تبصرہ لکھیے