ہوم << ڈیوڈ کیمرون اور شہباز شریف میں فرق - ڈاکٹر ماجد

ڈیوڈ کیمرون اور شہباز شریف میں فرق - ڈاکٹر ماجد

%da%a9%db%8c%d9%85%d8%b1%d9%88%d9%86 یہ 14جون 2011ء ہے، مہذب دنیا کا ایک ملک ہے جس کا منتخب وزیراعظم جو کہ دنیا کی طاقتور ترین شخصیات میں شمار ہوتا ہے، ایک ہسپتال کے دورے پر جاتا ہے، نائبین اور میڈیا کے نمائندے ساتھ ہیں، وارڈ میں پہنچتے ہی وارڈ کے ایک ڈاکٹر صاحب مداخلت کرتے ہیں اور انھیں فوری طور پر وارڈ سے نکلنے کا حکم دیتے ہیں. وجہ کیا ہے؟ ڈاکٹر صاحب کی دانست میں وزیراعظم وارڈ کا ماحول خراب کرنے کا موجب ہو سکتے ہیں. ڈاکٹر کی ڈانٹ ڈپٹ سن کر منتخب وزیراعظم معذرت کرتے ہیں اور انا کا مسئلہ بنائے بغیر رخصت ہو جاتے ہیں. اخبار میں اس کیپشن کے ساتھ تصویر آتی ہے: معزز ڈاکٹر نے وزیر اعظم کو وارڈ سے نکال دیا.
%d8%b4%db%81%d8%a8%d8%a7%d8%b2-%d8%b4%d8%b1%db%8c%d9%81 یہ ستمبر 2015ء ہے، تیسری دنیا کا ایک ملک ہے جس کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ صوبہ کے دارالخلافہ کا ایک مضافاتی شہر ہے جہاں قریب ہی ملک کے طاقتور ترین سیاسی خاندان کا سینکڑوں ایکڑ پر محیط رہائشی علاقہ ہے. صوبے کا وزیر اعلی جو کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، ایک ہسپتال کے دورے پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ جاتا ہے، ہسپتال کی انتظامیہ بےبس اور اپنی صفائیاں پیش کرتے ہوئے نظر آتی ہے، اور اخبار میں اس کیپشن کے ساتھ تصویر آتی ہے: وزیر اعلی ہسپتال کے ایم ایس کی سرزنش کرتے ہوئے.
میں نے جب سے یہ مناظر دیکھے تب سے ذہن میں خیالات کا ایک طوفان برپا ہے جو مضطرب کیے ہوئے ہیں.
وہ کیا وجوہات ہیں کہ ہم ایسی پستی کا شکار ہیں؟
ہم کیوں اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کر سکے؟
کیوں ہم نے ہر ادارے میں سیاسی مداخلت کا راستہ کھولا ہوا ہے؟
کیوں ہم اہل اور ایماندار لوگوں کو سامنے نہیں لا سکے؟ اگر ہم سیاسی بھرتیوں، دھونس دھاندلی، کرپشن اور نا اہل لوگوں کے چنگل سے نہ نکل پائے تو ہمارا انجام کیا ہوگا؟
یہ ہمیں سوچنا ہوگا کیونکہ ہم نے ہی اس ملک میں رہنا ہے نہ کہ ان حکمرانوں نے جو گھٹنے کے معمولی درد کا معائنہ کروانے بھی وہیں جاتے ہیں جہاں ادارے آزاد ہیں، جہاں ڈاکٹر
اپنے مریضوں کی بہبود کے لیے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں اور جہاں وزیر اعظم کو بھی کسی پر کسی قسم کی فوقیت حاصل نہیں.

Comments

Click here to post a comment