کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دوسروں کی زندگی کی تیرگی اور تلخی کے مایوس اندھیروں کو امید کی ننھی منی اجلی کرن سونپ کر اپنے گہرے اور کبھی نہ مندمل ہونے والے زخموں کا بھی مداوا تلاش کر لیتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دکھ دے کر اپنے لیے کھوکھلے سکھ بٹور لیتے ہیں۔ یہ تو اپنا اپنا مزاج اور ظرف ہے اور اپنا اپنا انداز تفکر۔ آسودہ منزل کون ہے؟ یہ تو کوئی نہیں جانتا لیکن جب ہمارا سکھ دوسرے کے دکھ کا باعث بننے لگے تو اسی نقطے پر بد دعا کارگر ہونے لگتی ہے، ایک خاموش بد دعا، ہمیں جس کا وجود نظر تو نہیں آتا لیکن وہ ہمارے وجود کا حصار بن جاتی ہے۔
بہت سال پہلے کا قصہ ہے کہ ہمارے پرانے محلے کا ایک گھر تھا جسے لوگ آسیبی گھر کہا کرتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ آباد نہیں تھا۔ یوں تو اس گھر کے سبھی مکین بلکل ہم اور آپ جیسے اپنے بقائمی ہوش و ہواس میں تھے۔ ان کے ہماری طرح ہی ہاتھ، پاﺅں، دو آنکھیں اور دو کان تھے۔ وہ بالکل ہماری طرح ہی کھاتے پیتے اور جیتے تھے لیکن پھر بھی کوئی بھول کر بھی ان کےگھر کا رخ نہیں کیا کرتا تھا۔ اس کی وجہ دراصل اس گھر سے خالہ مومنہ کا تعلق تھا۔گو کہ وہ محلے بھر میں خالہ ہی کے نام سے جانی اور پہچانی جاتی تھیں لیکن یہ اور بات کوئی انہیں دل سے خالہ کا درجہ نہ دیتا تھا۔ خالہ مومنہ کے گھر کی دہلیز پار نہ کرنے کی وجہ خالہ کی زبان کی تیزی اور ترشی تھی۔ وہ ہر آتے جاتے انسان کی انتہائی ناقابل برداشت حد تک گری ہوئی زبان سے تواضع کر دیا کرتی تھیں۔ بنا کسی دید لحاظ کے بلاواسطہ کی دُشنام طرازی میں وہ کبھی کوئی قباحت محسوس نہیں کیا کرتی تھیں۔ ان کے سر پر ہمیشہ قصوں سے لبالب ایک بھاری بھر کم گٹھڑی دھری رہتی جس میں لوگوں کے سو سو عیبوں کی کتھائیں قید ہوتیں۔ کسی کے گھر قدم دھرے نہیں کہ وہ اپنی ان عیبوں والی گٹھڑی کو سب کے سامنے کھول کر بےتکان اور بے لگام قصے کہانیاں بکھیر دیاکرتی تھیں۔ محلے بھر سے تو کوئی ان کی دہلیز پار کرتے دیکھا نا گیا تھا، لیکن وہ ہر روز بھری دوپہر کو یا چڑھتی شام کے دبیز سایوں تلے کسی نہ کسی چوکھٹ کو عبور کرتی پائی جاتیں۔ محلے میں کسی سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے، کس کا بیٹا امتحان میں ناکام ہوا اور کس کی بیٹی کا کس سے آنکھ مٹکا چل رہا ہے؟ کس کی بیوی گھر چھوڑ گئی ہے؟ کون مقروض ہے اور کون مجبور؟ کس کا ماضی پرعیب ہے اور کون اپنے حال کو داغدار بنا رہا ہے؟ ایسی بے شمار داستانیں جوکوئی سننا چاہے یا نہ سننا چاہے مگر خالہ ان کا ڈھنڈورا پیٹ کر ہی رہتی۔اس سے بھی کہیں زیادہ دل آزاری کا باعث ان کی بیان کردہ عیب جوئی کی وہ کتھائیں بنا کرتیں جو وہ عموماً دنیا سے رخصت ہو چکنے والوں کی بابت سنایا کرتیں۔ الغرض کوئی بے داغ حال و ماضی کا حامل شخص بھی خالہ کے الزامات سے بری نہیں رہ سکتا تھا۔
خالہ مومنہ جب بھی ہمارے گھر کا رخ کیا کرتیں، سبھی گھر والے ادھر ادھر چھپتے پھرتے پائے جاتے۔ آ جا کر شامت اماں کی ہی آجاتی جو ان کی موجودگی سے ایک شکن تک بھی ماتھے پر نہ لاتیں۔ ہم سبھی ان کے جانے کے بعد اماں سے بہت الجھا کرتے کہ ”اماں کیا ضرورت تھی خالہ کو منہ لگانے کی۔ وہ جس طرح لوگوں کے بارے بازاری زبان استعمال کرتی ہیں، آپ کیسے برداشت کر لیتی ہیں؟ اور یہاں سے اٹھ کر نجانے کس کے گھر میں وہ ہماری درگت بناتی پھرتی ہوں گی؟“ اماں حسب عادت مسکرا کر ہمیں سمجھایا کرتیں۔”بیٹا جیسے رزق، اولاد، سکھ دکھ کا نصیب قدرت نے ہمارے مقدر میں لکھ دیا ہے ایسے ہی ہر ایک کے مقدر کا اخلاق بھی متعین کر دیا گیا ہے ۔کون کس کی زبان سے کتنے رنج اٹھائے گا اور کس کے مقدر میں رنج تقسیم کرنا یا دوسروں کی راہ کے رنج چننا لکھا ہے، اس سب کا حساب کتاب تو اسے مختص کرنے والا ہی جانتا ہے۔ لیکن اسی تقسیم کا ہیر پھیر ہمارے درجات کو بناتا اور گھٹاتا بھی ہے۔ یہ جو زبان کے کڑوے کسیلے، بدزبان اور بدلحاظ لوگ ہیں، یہ اگر رنج تقسیم کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا اختیار، ہاں یہ لوگ قابل رحم ضرور ہیں۔ اگر ہم جیسے انہیں برا سمجھ کر ان سے قطع تعلق ہو جائیں تو ان کی سوچ کا کوڑھ ختم نہیں ہوگا اور بھی بڑھے گا۔ اگر ہم ان کی اصلاح کریں تو شاید کبھی نہ کبھی وہ دھیرے دھیرے اندر سے بدلنے لگیں“. ”نہیں اماں خالہ مومنہ کبھی نہیں بدلیں گی، یہ بات آپ ہم سے لکھوالیں کہ وہ ہمیشہ عیب گو ہی رہیں گی۔ وہ تو مردہ لوگوں کو نہیں بخشتیں تو زندہ لوگ کہاں محفوظ رہیں گے ان کی زبان سے۔“ مجھے یوں بیٹھے بیٹھے خالہ مومنہ کی یاد کیوں آگئی؟ وہ تو اب زندہ نہیں۔ ہم اس محلے سے کب کے نکل کے جدید رہائشی کالونیوں کے مکین بن چکے ہیں لیکن خالہ مومنہ آج بھی یاد آ جاتی ہے۔ لیکن تف ہے ہماری سوچ پر کہ ہمیشہ برے خیالات میں ہی انہیں یاد کرتے ہیں کبھی اچھے خیالات میں نہیں۔
ابھی کچھ دن پہلے 6 ستمبر گزرا ہے اور قوم نے جنگ ستمبر کے 17 دنوں کو یاد کرتے ہوئے اپنے کھوکھلے جذبوں کو مجتمع کرنے، دھندلائے ہوئے ماضی کے کچھ کارناموں کی یاد رفتہ کو تازہ کرنے اور کچھ بے یقین حوصلوں اور کمزور سے عہد کو نبھانے کی تجدید کی ہے۔ ہم نے 1965ء کی جنگ نہیں دیکھی، ہم نے 1971 کی شکست کو بھی نہیں دیکھا، ہم نہیں جانتے کہ 1947ء کو ہمارے اجداد کے ساتھ کیا ہوا؟ ہاں کچھ سنی سنائی کہانیاں ضرور ہیں جن کے سہارے ہم جی رہے تھے۔ اب تو وہ نسل بھی ناپید ہو گئی جو کبھی دادا، دادی یا نانا نانی کے روپ میں ہمیں یاد ماضی کے دریچوں کے پار لے جایا کرتی تھی۔ ان یادوں کے سائے تلے آکر وہ اپنی ان آنکھوں کو ہم سے چھپایا کرتے تھے جو اس سمے لہو ٹپکایا کرتی تھیں۔ ان کے آنسو تو کب کے خشک ہو چکے تھے، اب تو خون جگر ہی تھا جو ان کی غم چھلکاتیں آنکھوں کے رستے ٹپکنے لگتا تھا جسے صرف احساس کا حامل انسان ہی محسوس کیا کرتا تھا۔ انہوں نے ہمارے والدین کو بھی ان کے بچپن میں اپنی یادوں کی گٹھڑی سے ڈھیروں امیدوں، جذبوں، خوابوں کی آنکھوں دیکھی داستانیں نکال کے دکھائی تھیں۔درحقیقت ان کی کل جمع پونجی یہی گٹھٹری ہی تو تھی جس کے کٹے پھٹے حصوں سے یہ یادیں وقتاً فوقتاً خود بخود پھسل کر باہر آجایا کرتیں۔ وہ بڑے فخر سے بتایا کرتے تھے کہ وہ قائداعظم کے سپاہی تھے۔ انہیں اس بات پر بھی فخر تھا کہ وہ اپنی جوانی میں اقبال کا شاہیں بننے کا عزم رکھا کرتے تھے۔ انہیں بخوبی یاد تھا کہ انہیں آزادی کی قیمت کیسے کیسے اور کہاں کہاں چکانی پڑی؟ بڑی طویل داستانیں تھیں ان کے پاس ،خون میں نہائی ہوئیں۔ قربانیوں کے ان گنت آزار کو احساس کے ناتواں کندھوں پر اٹھائے میلوں کے طویل،بے تکان، پر ہیبت صدیوں پر منقسم زخم زخم سفر کی داستانیں۔ وہ ان درد بھری داستانوں سے اپنے آج کا عزم اور حوصلہ کشید کرتے۔ ایسی خون گرمانے والی کہانیاں انہیں متحرک کرتیں کہ وہ اپنے اس وطن سے کیے گئے عہد کی پاسداری کرسکیں، اس کی حفاظت کریں، اس کی ترقی و عزت کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔
ہمارے والدین خوش قسمت تھے کہ کچھ بھی ہو کم از کم ان کے پاس وہ اجداد تو تھے جو انہیں کچھ آئیڈیلز سونپ گئے، شکست و ریخت کے ان گنت مہیب سایوں کے چھٹنے کے بعد ابھرنے والی کٹی پھٹی جیت کی داستانیں سنا کر آگے بڑھنے اور کچھ کرنے کی امنگ تو دلوں میں جگا گئے۔ پھر وہ سچی آنکھیں وقت کے دریا میں ڈوب گئیں۔ اور ہمارے والدین ہمیں سنی سنائی کہانیاں سنانے لگے۔ ہم وہ سن کر حیران ہوئے۔ اس قدر پسماندہ اور دگرگوں حالات میں ڈوبی قوم کو محض ایک قائد کی طلسماتی شخصیت نے کیسے ایک میدان عمل پر یکجا کیا؟ کیسے یہ بےخواب قوم کسی خواب کو پانے کے لیے جی جان سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہم حیران تھے لیکن اس دکھ، اس طوفان ابتلاء کو جی جان سے محسوس نہ کر پائے۔ہم شرمندہ تھے کہ اس خواب کو سنبھال نہ سکے۔ شاید کبھی اس شرمندگی کے بوجھ کو کبھی اتار پانے کی کوئی ترکیب ہو پاتی۔ کبھی ہم اپنے بزرگوں کے زخموں، ان کے گھائو کی شدت کو اپنی روح کے اندر بھی محسوس کرنے لگتے۔ لیکن! کچھ بھی تھا اس سب کے باوجود ہمارے پاس ایک فخر تھا. ہم دنیا کے عظیم رہنمائوں کے قائداعظم کے بارے میں اچھے خیالات پڑھ کر خوش ہو لیتے تھے۔ ہم اپنی تقریروں اور تحریروں میں اقبال کے خیالات کا تذکرہ کر کے پر جوش ہو جایا کرتے تھے۔ ہمیں فخر تھا کہ ہمارے اجداد نے لاکھوں قربانیاں دے کر ہمیں ایک علیحدہ وطن عنایت کیا۔ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ پاکستان واقعتاً حضرت صالح کی مقدس اونٹنی جیسا ہی معجزہ ہے۔
رفتہ رفتہ ہم میں سے ہی ایک خاص کلاس نے ابھرنا شروع کیا۔ وہ کلاس اپنے علم، اپنی لیاقت کی دھاک بٹھانے کو ایک خاص سوچ اور فلسفے کے ساتھ میدان میں اتری اور عہد رفتہ کی انوکھی کہانیاں سنانے لگی۔ ان کے سر پر بھی خالہ مومنہ کی طرح لوگوں کے سو سو عیبوں کے قصے سے گندھی ہزار داستانیں تھیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو ہر سال چودہ اگست ہو یا چھ ستمبر، اپنے تئیں اپنی اپنی سچائیوں بھری کہانیوں کی روداد سنانے لگتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ”پاکستان بنانا ہماری سراسر تاریخی غلطی تھی“ کسی کی زبان پر آجاتا ہے کہ ”قائداعظم نے پاکستان بنا کر ہزاروں نہیں لاکھوں جانوں کے خون کا دریا بہا دیا.“ کوئی اقبال کے بارے فرماتا ہے کہ ”اقبال نے تو سرے سے ہی کسی آزاد وطن کا کبھی کوئی خواب دیکھا ہی نہ تھا۔“ ایسے میں اسی برادری کے کچھ اور لوگ آگے بڑھتے ہیں اور فرماتے ہیں ”65 کی جنگ ہماری تاریخی ہار تھی جسے ہم اک جیت کی جھوٹی داستان بنا کر پیش کرتے رہے“. اس طرح گویا اقبال، قائد، پاکستان اور پاکستانی افواج کے ڈھیروں عیب گنوائے جاتے ہیں۔
بڑے عجیب لوگ ہیں ہم۔ ہم خیال کو حقیقت اور حقیقت کو خیال بنانے میں ہی اپنی تمام تر توانائیاں اور صلاحیتیں تلف کر بیٹھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی ایک خیال ہوتا ہے اور حال ایک حقیقت، ہم گزرے خیال کو اپنا آج بنا کر جی لیتے ہیں اور اپنے آج کو خیال ہی میں تیاگ دیتے ہیں اس لیے ہمارا آج لا حاصل رہ جاتا ہے، زندگی عمل سے محروم رہ جاتی ہے اور ہمارا مستقبل ایک سراب بن کر رہ جاتا ہے۔ یاد اور تخیل ہمارے آج کو کھا جاتا ہے، اور ہم اسی محرومی اور تلخی میں جی جاتے ہیں۔ ہم صدا اپنی کم مائیگی اور بےعملی کے قصے سنا سنا کر اپنا وقت اچھا پاس کر لیتے ہیں لیکن آج کے خواب اپنے ہی قدموں تلے روند کر سمجھتے ہیں کہ ہم حقیقت پرست کہلائے جائیں گے۔ ایسے لوگوں سے ہمارا شکوہ یہ ہونا چاہیے کہ خدارا ہمارے سامنے کچھ تو ایسی داستانیں زندہ رہنے دیں کہ جن سے ہم اپنے آئندہ کے مقاصد اور عزم کشید کر سکیں۔ ہر قوم کے پاس اس کے ماضی کی کچھ اچھی یادیں ہوتی ہیں، کچھ ایسے آئیڈیلز ہوتے ہیں جو اس کی آکسیجن بنتے ہیں، جو اس کی نسل سازی میں مددگار ہوتے ہیں، یہی آئیڈیلز اور تاریخی داستانیں اس کا حال متعین کرتی ہیں، اس کا تشخص تشکیل دیتی ہیں، ان داستانوں سے محروم قوموں کے پاس فخر کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا اور وہ محروم زمانہ بن کر خود اپنے آپ میں نادم رہتی ہیں۔ جو لوگ آج نئی نسل کے سامنے ہمارے ماضی کو محرومیوں، غلطیوں، ناکامیوں اور نامرادیوں کی ایک داستان بنا کر پیش کر رہے ہیں وہ دراصل اس نسل کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ حقیقت پسندی نہیں بلکہ ایک ایسے احساس کمتری کو ہماری روح میں اتارنے کی سازش ہے کہ جو مدتوں اس قوم کی ترقی کی راہ میں حائل رہےگا اور یہ کبھی اپنا سر اپنے ماضی کے فخر سے اٹھا کر چلنا نہ سیکھ سکیں گے۔ کبھی گاندھی جی جب اپنی ہی قوم کے ہاتھوں قتل ہوئے تو ہم ازراہ تمسخر اس قوم کو رگیدا کرتے تھے کہ کیسی قوم ہے جو خود اپنے ہی لیڈر کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ بیٹھی۔ اور آج ہم اپنے وجود کی شناختی تحریک سے وابستہ رہنمائوں کا تمسخر اڑا کر دنیا میں احسان فراموش قوم کہلا کر اپنا ہی تمسخر خود اپنے ہاتھوں اڑا نا چاہتے ہیں۔گو کہ ہم بالکل خالہ مومنہ ہی کی طرح اپنی کتھائوں کی گٹھٹری سر عام کھولتے اور زندہ یا مردہ دونوں ہی طرح کے لوگوں کی عیب جوئی کی داستانیں کھول کے دھر دیتے ہیں۔
خدارا اس نسل کے حال پر رحم کریں. اس نسل کے پاس وہ لوگ نہیں ہیں جنہوں نے پاکستان بنتا دیکھا، اس نسل کے پاس وہ لوگ بھی کمیاب ہو رہے ہیں جنہوں نے اس سفر کی ابتلائوں اور آزمائشوں کی کہانیاں سنیں اور ان کہانیوں کے رنج اپنے دل میں محسوس کر کے ہمارے آج کی فکر کرنے لگے۔ اب تو کہانی بننے والے اور سننے والے ناپید ہو چلے ہیں اور ہمارے پاس صرف کہانی کے کچھ مخدوش اور معدوم نشان رہ گئے ہیں، خدارا ان نقوش کو زندہ رہنے دیں۔ اس نسل کو اپنے جھوٹ سے اتنا گمراہ نہ کریں کہ یہ رستے کے نشان ہی بھول جائے، یہ اپنے اجداد سے بھی نفرت کرنے لگے، اجداد سے نفرت کرنا خود اپنے آپ سے نفرت کرنا ہے۔ اس نسل کے آئیڈیلز جیسے بھی ہیں، سچے یا جھوٹے، انہیں قائم رہنے دیں ورنہ یہ confused نسل ہر ایک کو قابل نفرت سمجھنے لگے گی۔ اسے نفرتوں اور کدورتوں کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق نہ ہونے دیں۔ اس کی نظر میں پاکستان کو قابل نفرت نہ بنائیں۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو اپنے وطن سے محبت کرنا سیکھ لیتی ہیں۔ نفرتیں ہمیں مزید آزمائشوں میں ڈال کر رکھ دیں گی۔ اس وطن سے نفرت کرنا آزادی سے نفرت کرنے کے مترادف ہے اور آزادی کی قدر و قیمت سمجھنی ہو تو اسرائیل کے زیرتسلط فلسطینیوں سے جا کر پوچھیں، اپنے پیاروں کی جانوں کا نذرانہ دیتے اور انتہائی بےدردی سے اپنی آنکھوں کی بینائی سے محروم کر دیے جانے والے کشمیریوں سے پوچھیں۔ ان بھارتی مسلمانوں سے پوچھیں جنہیں قابل نفرت بنا کر ان کی نسل کشی انتہائی بےرحمی سے کی جا رہی ہے۔ بھول جائیں کہ یہ وطن قائداعظم کی غلطی کا نتیجہ ہے اور یہ یاد رکھیں کہ یہ قدرت کا وہ معجزہ ہے جسے اپنے دل فگار حالات اور غلامی کے زخم چنتے لمحوں میں ہم نے خود اپنے لیے مانگا، اور ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ اپنے لیے خود اپنی ہی دعائوں سے مانگے گئے معجزے کو جھٹلانے اور اس کی بے قدری کرنے والوں کا انجام عذاب الہی کو بھگتنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
تبصرہ لکھیے