ہوم << غیر مسلم اور کافر کی بحث - انجینئر فیاض الدین

غیر مسلم اور کافر کی بحث - انجینئر فیاض الدین

%d9%81%db%8c%d8%a7%d8%b6-%d8%a7%d9%84%d8%af%db%8c%d9%86 چند مہینوں سے اہل علم کے ہاں ”غیرمسلم“ کی اصطلاح پر کافی کچھ دیکھنے اور پڑھنے کو ملا۔ بعض اہل علم کے ہاں کافر اس دنیا سے مکمل ختم ہوگئے ہیں۔‌ ‌ان کے خیال میں کافر صرف وہ لوگ تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست مخاطبین تھے، ان لوگوں پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حجت تمام ہوئی، اس لیے ان کو کافر کہا گیا اب چونکہ نبوت ختم ہو چکی ہے، کسی نبی نے نہیں آنا، اس لیے آج کی دنیا میں کافر کوئی نہیں ہے اور جو اسلام کو نہیں مانتے ان کے لیے ایک اصطلاح ”غیرمسلم“ استعمال کی جاسکتی ہے۔ ان اہل علم کے مطابق اگر کوئی کفر کرتا ہے تب بھی وہ کافر نہیں ہے جب تک وہ خود اقرار نہ کر لے کہ ہاں میں کفر کر رہا ہوں، اب میں کافر ہوگیا ہوں۔
یہ مان لینے سے بہت سارے سوالات جنم لیتے ہیں۔ پہلا اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نظریے کا ماخذ کیا ہے؟ اس کے برعکس قرآن کا مدعا تو یہ ہے کہ دو گروہ ہیں جو اللہ کے بارے میں لڑتے رہیں گے۔اگر یہ دو گروہ مومن اور کافر ہیں تو یہ ”غیر مسلم“ کون ہیں؟ اللہ نے غیر مسلم کی اصطلاح قرآن میں کہیں استعمال نہیں کی، اور نہ ہمیں اتنا بڑا حق دیا ہے کہ ہم خود سے تیسرا گروہ نکال کر بیٹھ جائیں۔
[pullquote]ھٰذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّھمْ ۖ فَالَّذِينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَھُمْ ثِيَابٌ مِّن نَّارٍ يُصَبُّ مِن فَوْقِ رُءُوسِھمُ الْحَمِيمُ [٢٢:١٩] [/pullquote] یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے ربّ کے معاملے میں جھگڑا ہے۔ اِن میں سے وہ لوگ جنہوں نے کُفر کیا اُن کے لیے آگ کے لباس کاٹے جا چکے ہیں، اُن کے سروں پر کھَولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا۔
قرآن ہمیں کچھ اصول دیتا ہے۔ یہ معلوم ہے کہ اللہ نے اہل کتاب کے بعض عقائد کو کفر کہا۔
[pullquote]لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّہ ھُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۖ وَقَالَ الْمَسِيحُ يَا بَنِي إسْرَائِيلَ اعْبُدُوا اللَّہ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۖ إنَّہ مَن يُشْرِكْ بِاللَّہ فَقَدْ حَرَّمَ اللہ عَلَيْہ الْجَنَّہ وَمَاوَاہ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أنصَارٍ [٥:٧٢][/pullquote] یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ مسیح ابنِ مریم ہی ہے۔ حالانکہ مسیح ؑ نے کہا تھا کہ ”اے بنی اسرائیل ! اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی“۔ جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنّت حرام کردی اور اُس کا ٹھکانا جہنّم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔
لَقَد کَفَرَ الَّذِین قَالُوا اِنَّ اللہ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ ۘ وَ مَا مِن اِلٰہٍ اِلَّاۤ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ وَ اِنۡ لَّم یَنتَہُوا عَمَّا یَقُولُونَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنھم عَذَابٌ اَلِیمٌ [٥:٧٣] یقیناً کفر کیا اُن لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے، حالانکہ ایک خدا کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی ان باتون سے باز نہ آئے تو ان میں سے جس جس نے کفر کیا ہے اُس کو درد ناک سزا دی جائے گی۔
اس میں سارے اہل علم متفق ہیں کہ قرآن قیامت تک ایک ہدایت کی کتاب ہے، احکامات اسی کتاب سے اخذ کیے جائیں گے۔ آج کی دنیا میں کوئی کہے کہ فلاں اللہ کا بیٹا ہے، یہ گائے ہی بھگوان ہے وغیرہ، ان جیسے لوگوں کے لیے قرآن کی مندرجہ بالا آیات میں کیا رہنمائی ہے؟ کیا ان آیات کا مقصد ختم ہو چکا؟ آج کی دنیا میں ان آیات میں کیا سبق پوشید ہ ہے؟ یا انہیں سیاق وسباق کے لبادے میں پیش کر کے اس زمانے کے لیے خاص کیا جائے گا؟ یا یوں کہا جائے گا کہ دراصل ان آیات میں مخاطب اہل کتاب تھے لہذا ان میں ہمارے لیے کوئی رہنمائی نہیں ہے؟
میرے نزدیک بات یہ ہے کہ جیسے اس زمانے کے اہل کتاب کے متعلق اللہ کہتے ہیں کہ وہ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ عزیر علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں، ٹھیک اسی طرح اگر آج کے اہل کتاب کہیں کہ عیسی علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں تو یہ بھی کفر ہی ہوگا، یہ غیرمسلم نہیں ہوں گے بلکہ کافر ہی ہوں گے۔ بالفرض وہ کافر نہیں ہیں تو پھر قرآن کی مندرجہ بالا آیت کا مقصد کیا ہے؟ جیسے کہ میں نے پہلے ہی یہ سوال اٹھایا۔
اہل کتاب تو دور کی بات ہے، کوئی خود کو مسلم کہنے کے بعد بھی ایسا کہے تو یہ بھی ویسا ہی کفر ہے جیسا کہ اہل کتاب کرتے تھے یا کرتے ہیں۔ اس مسئلے پر سوچنا چاہیے کہ کہیں ہمارا ایمان غلط سمت میں تو نہیں جا رہا؟ جس طرح کپڑا خریدتے وقت ہم دکاندار کا دماغ کھا جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اچھے سے اچھا قیمتی کپڑا مل جائے، یعنی ہم دنیا کی چیزوں کا جتنا احترام اور اس کی تحقیق کرتے ہیں، اتنی کوشش دین اور اپنے ایمان کے حوالے سے بھی ہونی چاہیے۔
[pullquote]ھُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللہ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [٦٤:٢] [/pullquote] وہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر کوئی تم میں کافر ہے اور کوئی مومن۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو خدا اس کو دیکھتا ہے.
یہاں اللہ تعالی دو ناموں کا ذکر کر ہے ہیں مومن اور کافر۔ اللہ پاک کہتے ہیں کہ میں نے تمہیں پیدا کیا، پس تم میں سے کوئی مومن ہے اور کوئی کافر۔ یہاں سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اللہ نے غیر مسلم نامی مخلوق پیدا کیوں نہیں کی؟ یہ تیسری کیٹیگری ”غیرمسلم“ کی کہاں سے آئی؟ شریعت سازی کا حق ہم میں سے کسی کو نہیں ہے، دین مکمل ہوچکا ہے، اس کوئی کمی نہیں رہ گئی ہے، لہذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں ہے کہ دین میں ایک تیسری کیٹیگری ایجاد کر لیں۔ اللہ ہمیں توفیق دے کہ ہم قرآن کے مطابق نظریات اپنائیں۔ آمین

Comments

Click here to post a comment