گزرے روز ایک پرانی تحریر دہرا دی، معمولی سا اضافہ تھا، دوستوں نے اسے اپنی عزت نفس پر حملہ جان لیا، اور خوب زبان دانی کے جوہر دکھلائے، بجا کہ مضبوط اور توانا انا کے بغیر جماعتیں نہیں پنپتیں لیکن یہ کیا کہ انسان تہذیب ہی کھو دے. اختلاف ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن اختلاف کیجیے بدزبانی نہیں.
بدتہذیبی کبھی لبرل اور سیکولر جماعتوں کا امتیاز تھا، بھٹو دور میں مذہبی جماعتیں اور لبرل تنظیموں میں نظریات کے بعد سب سے بڑا فرق یہی”تہذیب“ ہوتی تھی، وہ مولوی کو گالی دیتے، استہزاء کرتے، اور کبھی کبھی مذہب تک جا پہنچتے. وقت یوں بدلا کہ مذہبی تنظیموں کے کارکنان بھی اسی روش کے اسیر ہوئے. ہمارے معاشرے میں انتہا پسندی ہر گزرے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے. حوصلے کم ہو گئے، زبانیں طویل ہو گئیں.
ہماری اٹھتی جوانی کے دن تھے، روزنامہ جنگ والوں نے شریعت بل پر مذاکرہ کروایا. میں بھی وہاں تھا. بل کے حامیوں میں وہاں قاضی حسین احمد، قاضی عبداللطیف، ڈاکٹر اسرار احمد، وصی مظہر ندوی اور مخالفت میں علامہ احسان الہی ظہیر، وارث میر نمایاں تھے. قاضی حسین احمد نے گفتگو کا آغاز کیا اور بل کے مخالفین والی ڈائس پر آ گئے اور کہا کہ ”ہمارا نظریاتی اختلاف ہے، محبت کم نہیں ہوئی ہے اور نہ دشمنی ہے، اس لیے میں ادھر آ کر بات کروں گا.“ جواب میں علامہ احسان الہی ظہیر نے اسی محبت کا مظاہرہ کیا اور ان کی طرف آ کر بات کی. قاضی عبد اللطیف باہر کھڑے تھے، علامہ نے ان کو دیکھا تو گاڑی پیش کی، انہوں نے بہتیرا کہا کہ تکلف نہ کیجیے لیکن آپ نے زبردستی ان کو اپنی گاڑی پر ان کی منزل پر بھیجا. بہت جلد قاضی حسین احمد کا یہ رنگ بھی دنیا نے دیکھا کہ وہ ملت کا مشترکہ اثاثہ بن گئے، امت کے کسی بھی دکھ پر تڑپ جاتے اور تحریک بپا کر دیتے. آپ کو ملین مارچ یاد ہوگا، باجوڑ پر حملہ ہوا کیسے نکلے تھے؟ جب دل مخلص ہو جائیں تو تعصب دھل جاتے ہیں. ان کا دل بھی دھل گیا تھا.
میں نے اک واقعہ کیا لکھ دیا، ایک دوست نے اپنی زبان سے اپنی تربیت کا ہی پتہ نہ دیا بلکہ یہ بھی سمجھا دیا کہ سید مودودی اور قاضی حسین احمد مرحوم کی جماعت کب کی رخصت ہوئی، اور اب "جوان" قیادت برسر اقتدار نہیں ”برسرپیکار“ ہے. خوش اور اپنے اپنے تعصبات میں گم رہیں. کبھی آپ ملت کے رہنما تھے اور اب محض اپنی کٹیا کے چوکیدار.
مذہبی تنظیموں کو بہرحال سوچنا ہوگا، اپنے کارکنان کی تربیت کرنا ہوگی، ان کی زبان اور اخلاق کا خیال کرنا ہو گا، ورنہ آج کسی کی تو کل آپ کی دستار کی باری ہے. کبھی منہج نبوت کو دیکھیے کہ کبھی کافروں کو بھی گالی نہ دی اور ہم خود کو صرف اپنے بزرگوں کی عزت کرنے تک محدود رکھتے ہیں.
تبصرہ لکھیے