قضا و قدر کا مسئلہ شاید اسلامی مکاتب فکر کے درمیان سب سے زیادہ زیرِ بحث مسئلہ رہا ہے۔ اس مسئلے سے کئی ایسے سوالات جنم لیتے ہیں جن کا تعلق ہماری زندگی سے بنیادی نوعیت کا ہے۔ مثلا:
1۔ ایک انسان اپنے ارادے میں آزاد ہے یا نہیں؟ اگر آزاد ہے تو اللہ کے ارادے کے کیا معنی؟ اگر نہیں ہے، تو پھر جزا و سزا کیسی؟
2۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے، کیا وہ پہلے سے لوحِ محفوظ میں لکھا ہوا ہے؟ اگر لکھا ہوا ہے تو پھر اس کا قصور کیا ہے؟ اور اگر نہیں، تو کیا تمام پیش آنے والے واقعات محض اتفاق ہیں؟
3۔ کیا یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہے؟ اگر علم میں ہیں تو پھر وہ مجھے گناہ کرنے سے روکتا کیوں نہیں؟ اور اگر نہیں، تو اللہ کے العلیم ہونے کے کیا معنی ہیں؟
4۔ کیا موت کا وقت مقرر ہے؟
5۔ کیا رزق مقرر ہے؟
6۔ کیا بیماریاں، غم پریشانیاں، آرام، راحتیں سب کچھ اللہ کی طرف سے ہیں یا ہمارا اپنا کسب ہیں؟
7۔ قضا کیا ہے؟
8۔ قدر کیا ہے؟
9۔ انسانی اختیار کیا ہے؟
10۔ انسان اپنے ارادے میں کتنا آزاد ہے اور کتنا نہیں ؟
11۔ جزا و سزا کس بنیاد پر ہوگی؟ وغیرہ وغیرہ
یہ اور اس طرح کے کئی سوالات اس بحث کا حصہ ہیں۔ عموما ان سوالات میں الجھنے والا ذہن ان کا شافعی جواب چاہتا ہے اور تصویر کو اس طرح مکمل دیکھنا چاہتا ہے جس سے کوئی اشکال باقی نہ رہے۔ میں اس مسئلے کی علمی اور کلامی بحثوں میں الجھنا نہیں چاہتا اور نہ ہی یہ میرے بس کی بات ہے۔ یہ علماء اور متکلمین کا کام ہے۔ میرے اس مسئلے کو بیان کرنے کی صرف دو وجوہات ہیں۔
اول: اس مسئلے کو پیچیدہ علمی مباحث کی بجائے سادہ آسان فہم الفاظ میں بیان کرنا تاکہ ہم اس مسئلے کو درست بنیاد پر درست انداز سے سمجھ سکیں۔
دوم: اس مسئلے کی تفہیم سے اپنی زندگی میں درپیش مسائل کو حل کرنا، جن سے ہمیں قدم قدم پر واسطہ پڑتا ہے۔ مثلا: اعمال کی جزا و سزا، موت، بیماری، رزق، اختیار، اللہ کے قادرِ مطلق ہونے جیسے تصورات کی درست تفہیم، جو عملی طور پر ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس مسئلے کی درست تفہیم کے لیے سب سے پہلے اس بنیادی تقسیم کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں ہماری زندگی بٹی ہوئی ہے۔ اگر ہم کائنات، انسان اور حیات کا بغور مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی زندگی اختیار کے لحاظ سے دو واضح دائروں میں تقسیم ہے۔
اول وہ دائرہ ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ یہ دائرہ کسی عظیم کائناتی پلان کا حصہ ہے جسے ایک مدبر اعظم نے کھینچا ہے اور وہ حقیقی طور پر اس کے خیر و شر سے واقف ہے۔ قضا و قدر کا تعلق اصل میں اسی دائرے سے ہے۔ وہ افعال جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں، انھیں ہم قضا کہتے ہیں۔ اور وہ فطرت جو انسان اور اشیا کا بلٹ ان پروگرام ہے، جسے ہم تبدیل نہیں کرسکتے ،انھیں قدر کہا جاتا ہے۔
قضا ان افعال کا نام ہے جو ہم سے سرزد ہوتے ہیں یا ہم پر وارد ہوتے ہیں لیکن ان پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ مثلا ہم کس گھر میں پیدا ہوں گے، موت کا واقعہ کب اور کہاں رونما ہوگا، کس طرح کے حالات سے گزریں گے، ساری زندگی کن مسائل سے دوچار ہوں گے، رزق کتنا کمائیں گے، کن قدرتی آفات کا شکار ہوں گے، کسی دوسرے انسان کی غلطی یا کسی فنی خرابی سے کسی حادثے سے دوچار ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام افعال کا تعلق اللہ کی تدبیر، علم، ارادے اور اختیار کل سے ہے۔ چونکہ ان تمام واقعات اور افعال پر ہمارا کوئی اختیار نہیں اس لیے قیامت والے دن ہم سے ان کے متعلق کوئی پوچھ نہیں کی جائے گی۔
جبکہ قدر اشیا یا انسان کی وہ صفات ہیں جو من جانبِ اللہ مقرر کی گئی ہیں اور ہم انھیں تبدیل نہیں کرسکتے۔ مثلا ہم دیکھتے ہیں کہ اشیا کی مختلف صفات مقرر ہیں، مثلا: آگ کا جلانا، پانی کا پیاس بجھانا، لکڑی میں جلنے اور چھری میں کاٹنے کی صفات ان کی قدر ہیں، جس کے وہ پابند ہیں۔ اسی طرح فلکیاتی اجسام کا اپنے اپنے مقررہ راستوں اور قوانین کے تحت گردش کرنا ان کی قدر ہیں جن سے وہ انخراف نہیں کرسکتے۔ اسی طرح انسان کو عطا کی گئی فطرت بھی اس کی قدر ہے جس کے آگے وہ مجبور ہے۔ مثلا : ہم زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، رزق تلاش کرتے ہیں، عزت و اخترام کا متلاشی ہیں، اپنی جنسی ضرورت کی تسکین چاہتے ہیں، کسی مدبر اور مختارِ کل کے آگے سرجھکانا چاہتے ہیں۔ وغیرہ۔
گویا اس پہلے دائرے میں قضا (وہ افعال جو انسان سے سرزد ہوں یا اس پر وارد ہوں) اور قدر (انسان اور اشیا کی مقررہ صفات) دو چیزیں شامل ہیں اور ان دونوں پر انسان کا کوئی اختیار نہیں۔ اس لیے قیامت والے دن ہم سے ان دونوں کے متعلق پوچھ نہیں کی جائےگی۔ آسان لفظوں میں قضا اور قدر کا تعلق ہماری جزا و سز ا سے نہیں بلکہ ایک عظیم کائناتی پلان سے ہے جو ہماری عقل سے ماورا ہے۔ اس لیے ہمیں اس کے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
دوسرا دائرہ وہ ہے جس میں ہمیں صحیح اور غلط، حلال اور حرام، جائز اور ناجائز کے اختیار کا حق حاصل ہے۔ ہم چاہیں تو اپنی بنیادی اور فطری ضروریات حلال طریقے سے پوری کریں یا حرام سے، ہم چاہیں تو اپنی جنسی ضروریات کی تکمیل نکاح سے کریں کرے یا زنا سے، ہم چاہیں تو ماتھا کسی بت کے آگے ٹیک دیں یا ایک خالقِ حقیقی کے آگے۔ یہ سب اختیار ہمیں حاصل ہیں۔ یہاں کوئی جبر اور زبردستی ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔
اب یہاں سب سے اہم مسئلہ اُس بنیاد کے انتخاب کا ہے جس کے بعد قضا و قدر، انسانی اختیار اور جزا و سزا کا مسئلہ اور اس سے متعلقہ تمام چیزیں اپنی جگہ جگہ فٹ بیٹھ جائیں۔ تصویر مکمل ہوجائے اور کوئی اشکال باقی نہ رہے۔ مثلا اگر ہم انسانی افعال کی تفہیم کے لیے تقدیر، اللہ کے علم یا اللہ کے ارادے کو بنیاد بنائیں گے تو جزا و سزا کا خانہ ہمیشہ خالی رہے گا اور ہم یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اگر یہ سب کچھ اللہ کے لکھا ہوا تھا، اس کے علم اور ارادے سے ہوا تھا تو پھر ہمیں جزا اور سزا کیوں ملے گی؟ کیونکہ ان تینوں صورتوں میں بندہ صرف مجبورِ محض قرار پائے گا۔
تو پھر کس چیز کو بنیاد بنایا جائے جو تصویر کو کماحقہ مکمل کردے؟ تو جواب بہت سادہ سا ہے، اور وہ ہے : انسانی اختیار کو۔ یہی وہ درست بنیاد ہے جس پر قضا و قدر اور جزا و سزا کی عمارت تعمیر کی جانی چاہیے۔ یہ ہے وہ درست بنیاد، جس پر ازل اور ابد ایک مکمل تصویر کی صورت میں ڈھل جاتے ہیں اور کوئی اشکال باقی نہیں رہتا۔ اللہ الخالق، المدبر، القادر، العلیم سب کچھ ہے اور اس نے اپنی قدرت سے ہمیں زندگی کے ایک دائرے میں وہ اختیار بھی دیا ہے، جس کی بنیاد پر ہم صحیح اور غلط راستے کا انتخاب کرسکتے ہیں اور اسی اختیار کی بنیاد پر قیامت والے دن جزا و سزا کا عمل واقع ہوگا۔
گویا ہم سے سوال یہ نہیں کیے جائیں گے کہ زندگی کتنی پائی، رزق کتنا کمایا، کہاں پیدا ہوئے ، کیسے مرے، خوشی اور غم کون کون سے اُٹھائے کیونکہ یہ سب ہمارے دائرہ اختیار سے باہر اور قضا و قدر کا معاملہ ہے اور ہمیں ان سے متعلق فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔
ہم سے سوال یہ کیے جائیں گے کہ زندگی کن کاموں میں گزاری، جوانی کن کاموں میں گزاری، پیسہ کیسے کمایا ؟ کن کاموں میں لگایا؟ حقوق العباد پورے کیے یا نہیں؟ حقوق اللہ پورے کیے یا نہیں ؟ فرائض سے غفلت تو نہیں برتی؟ وغیرہ وغیرہ، کیونکہ یہ ہمارا دائرہ اختیار ہے۔ اس لیے ہمیں اصل میں اس دائرے سے متعلق فکر مند ہونے کی ضرورت ہے کہ اس میں کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔
اس لیے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں درست بنیاد پر درست انداز سے اس مسئلے کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ترتیب دینے کی توفیق فرمائے۔ آمین
نوٹ: اس تمام بحث کے شرعی دلائل موجود ہیں۔
تبصرہ لکھیے