ہوم << یہ عام آدمی کون ہوتا ہے؟ فراز بیگ

یہ عام آدمی کون ہوتا ہے؟ فراز بیگ

آنے والے نئے وزیر نے جانے والے بوڑھے وزیر سے کہا۔
’’آپ سے ایک بات پوچھوں، ناراض تو نہیں ہوں گے؟‘‘
’’پوچھو پوچھو بلکہ بعد میں بھی کچھ پوچھنا ہو تو ضرور پوچھنا.‘‘
وزیر نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا،
’’یہ عام آدمی کون ہوتا ہے؟‘‘
بوڑھے وزیر کی آنکھوں میں ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ ایسا لگا جیسے اس سے کسی خزانے کی چابی چھن گئی ہو۔ پھر اس کے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ کھیلنے لگی۔
’’تم کو عام آدمی سے ملنا ہے؟‘‘
’’مجھے اصل میں اس ہستی سے ملنا ہے جس کوآپ عام آدمی کہتے ہیں۔‘‘ نو وارد وزیر اب کچھ کھل کر بولنے لگا تھا۔
’’تم بہت ہوشیار ہو، مجھے یہ بات پتہ لگانے میں 5 پانچ سال لگے تھے۔ لیکن تم نے اب پوچھ لیا ہے تو سنو۔ دارالحکومت سے کوئی چالیس کلومیٹر دور مشرقی سمت میں ایک گاؤں ہے۔ وہاں کے مکھیا سے جا کر مل لینا اور اس سے کہنا کہ میں نے کہا ہے کہ عام آدمی سے ملا دے تم کو، مگر خاموشی سے جانا وہاں.‘‘
اگلے دن نیا وزیر بغیر کسی پروٹوکول کے خود گاڑی پر بیٹھ کر اس گاؤں میں پہنچ گیا۔ مکھیا نے اس کو گاؤں کی دور افتادہ بستی کے ایک گھر کی چابی دے دی اور کہا کہ ’’عام آدمی تک ہماری پہنچ نہیں ہے۔ ہم صرف رکھوالے ہیں۔‘‘
وزیر کچھ تذبذب کا شکار ہو گیا۔ یہ تو اسے پہلے ہی اندازہ تھا کہ عام آدمی کوئی خاص چیز ہے مگر اتنی خاص؟ بالآخر تجسس تذبذب پر غالب آگیا اور اس نے مکان کا تالا کھول کر اندر قدم رکھ دیا اور پہلے ہی قدم پر ٹھٹھک کر رک گیا۔ اندر ایک شیشہ کے بڑے سے بکس میں عام آدمی کی’’ممی زدہ‘‘ لاش پڑی تھی۔
اس واقعے کے ایک مہینے بعد بوڑھے وزیر کا انتقال ہو گیا۔ نئے وزیر نے اسے خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آنجہانی وزیر صاحب نے ہمیشہ اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی معاشی پالیسیوں سے عام آدمی متاثر نہ ہو۔ میری بھی یہی کوشش ہے کہ میں ان کے نقش قدم پر چلوں اور عام آدمی کو وہ ساری چیزیں بغیر کسی تکلیف اور دقت کے ملتی رہیں جن کی اس کو ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment