عصرِ حاضر میں انفرادی اور اجتماعی سطح پر کسی نہ کسی صورت میں ادبِ اطفال کے فروغ کی رفتارِ مشن میں نت نئے تجربوں سے قدرے تیزی آئی ہے اور نئے لکھاری کی بھی آمد آمد ہے۔ کئی نام اس فہرست میں شامل ہیں جو ادب اطفال کی اہمیت، ضرورت اور افادیت بارے باخوبی واقف ہیں اور بچوں میں مہد سے لحد تک تعلیمی رحجانات کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ حافظ محمد مظفر محسن اس حوالے سے کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ بڑی ہی پہلو دار شخصیت ہیں۔ صرف نام کے ہی نہیں بلکہ حقیقتاً محسنِ ادب ہیں۔ بچوں کے ادب کے حوالے سے اِن کی بے لوث اور بھرپور خدمات کے اعتراف میں انہیں ہر سطح پر پذیرائی حاصل ہے جبکہ شاعری ہو، طنز و مزاح نگاری ہو، کہانی نگاری ہو یا کالم نگاری ہی کیوں نہ ہو، ہر صنف میں اپنے نام کا لوہا خوب منوایا ہے۔ آپ اپنی دل آویز شخصیت کی بدولت دنیائے ادب میں خاص مقام رکھتے ہیں. حافظ صاحب کی محفل ہو اور قہقہے نہ ہوں، یہ ممکن نہیں ہے. دوست احباب ان کے ساتھ وقت گزارنے کو بےتاب رہتے ہیں۔ ان کا اخلاق، اخلاص، خوش مزاجی، خوشی کلامی ان سے ایک بار ملاقات کر لینے والے کو انھی کا بنا دیتی ہیں۔
قلمی سفر کے حوالے سے عہد کی نامور ادبی شخصیات اپنے خوبصورت تاثرات میں انہیں بھرپور خراجِ تحسین پیش کرتی رہتی ہیں۔ مجموعہ نظم کے حوالے امجد اسلام امجد اپنے تاثرات میں لکھتے ہیں کہ چھوٹی چھوٹی، روزمرہ کی اور سامنے کی باتیں، سیدھے سادے الفاظ اور مفہوم بالکل واضح ہیں، اس لیے یہ نظمیں ہر اعتبار سے حوصلہ افزائی اور تعریف کی مستحق ہیں۔ سید ضمیر جعفری کا کہنا ہے کہ حافظ مظفر محسن کی نظمیں جذبے کے لحاظ سے توجہ اور قدر کے لائق ہیں۔ مجھے امید ہے کہ ان کی روشنی ترتیبِ کردار کے لیے مفید ثابت ہو گی۔ عطاء الحق قاسمی کا بھی کہنا ہے کہ ’’مجھے یہ شخص پسند ہے کیونکہ وہ ایک سچا اور مخلص انسان ہی نہیں بلکہ ایک شگفتہ اور جینوئن مزاح نگار بھی ہے‘‘۔مزاح لکھنا جان جوکھوں کا کام ہے، لکھنے بیٹھو تو دانت تلے پسینہ آ جاتا ہے اور اگر کسی جملے کا وار صحیح نہ پڑے تو پڑھنے والا دانت کچکچانے لگتا ہے چنانچہ طنز و مزاح لکھنے والے نہ ہوں تو جریدے کہاں سے نکلیں؟۔ ان کی فنی و فکری ہنرمندیوں اور شخصیت کے روشن پہلوئوں کے حوالے سے اُردو زبان میں اپنی نوعیت کا واحد طنزیہ و مزاحیہ میگزین ’’مزاح، کراچی‘‘ بھی 112 صفحات پر مشتمل ’’نمبری ادیب، حافظ مظفر محسن‘‘ شائع ہوچکا ہے،جس میں عصر حاضر کے نامور ادیب، صحافی، شاعروں کے دلچسپ مضامین شامل ہیں۔ اِسی کتاب میں شائع ہونے والے انٹرویو میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مطمئن ہیں۔ احمد فراز کی شاعری پسند ہے، مگر مرزا غالب اور علامہ اقبال کو اپنا استاد مانتے ہیں. رات کی اُداسی میں شاعری لکھتے ہیں۔ میدانِ ادب میں شوکت نواز پیرزادہ، محمد صفدر راجہ، امتیاز جاوید، چوہدری محمد اقبال کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں جبکہ مجید نظامی اور فرحت عباس شاہ ان کی پسندیدہ شخصیات میں شامل ہیں۔ بحیثیت کالم نگار دوستوں کے لیے پیغام میں انہوں نے کہا ہے کہ اپنے دل صاف رکھیں، دوستوں کو امتحان میں کبھی مت ڈالیں، دن کو دن کہیں اور رات کو رات، یہ یاد رکھیں کہ ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اِس دور کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ حکومت، اپوزیشن اور سیاسی رہنمائوں سب کے نظریات ایک ہیں، کیوں کہ یہی آج کی ضرورت ہے اور یہی حالات کا تقاضا ہے۔اسی لیے تو کہتے ہیں:
تھک گیا ہوں لگا لگا کے میں
ایک کے بعد دوسری امید
حافظ مظفر محسن کا ’’امن اور ترقی کے حوالے سے ادب اطفال کے کردار‘‘ بارے کہنا ہے کہ پاکستان اور اردگرد کے حالات اس بات کے غماز ہیں کہ نئی نسل کی تربیت قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کرنی ہے. صبروتحمل، ایثار و قربانی کا جذبہ ان حالات میں پہلے سے کہیں زیادہ ہمارے اندر موجود ہونا چاہیے کیونکہ شدت پسندی بہرحال کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔ ان حالات میں جبکہ کتب بینی کا رحجان کم ہوتا دکھائی دیتا ہے، ہمیں اچھے تخلیق کاروں کی بےحد ضرورت ہے. جو چند ادیب شاعر بچوں کے لیے ادب تخلیق کر رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی اور انہیں یہ باور کرانا بڑا ضروری ہے کہ وہ ایک بہت بڑی قومی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ بحثیت وائس چیئرمین اکادمی ادبیات اطفال حافظ صاحب اکادمی ادیبات اطفال کی بچوں کے لیے ادبی تخلیق کرنے والوں کی تربیت اور ان کی حوصلہ افزائی و پذیرائی کے حوالے سے کیے گئے مثبت اقدامات پر بہت اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فروغِ ادب اطفال کا سلسلہ جاری رہے گا. ان شاء اللہ تعالی۔
گلستانِ ادب اطفال کا مہکتا پھول - حسیب اعجاز عاشر

تبصرہ لکھیے