ہوم << بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل - محمد اشفاق

بھارت کو دستیاب آپشن اور ہمارا ردعمل - محمد اشفاق

محمد اشفاق آج ایک بھارتی اخبار کی ویب سائٹ پر مضمون چھپا ہے جس میں مصنف نے حالیہ واقعے کے بعد بھارت کو دستیاب آپشنز بیان کیے ہیں, جو کچھ یوں ہیں.
✘ آزاد کشمیر میں چیدہ چیدہ مقامات پر سرجیکل سٹرائیک
✘ بغیر لائن آف کنٹرول کراس کیے پاکستانی فوج کے مورچوں پہ گولہ باری.
✘ بارڈر کے ساتھ ساتھ فائرنگ اور شیلنگ.
✘ 290 کلومیٹر تک رینج رکھنے والے براہموس میزائل کے ذریعے مبینہ جہادی کیمپس پر حملہ
✘ پاکستانی سرحدوں پہ فوجوں کا اجتماع
✘ پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے کی کوشش
✘ پاکستان کے ساتھ مذاکرات
دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والا ملک قرار دینے، پاکستان کو بین الاقوامی طور پر تنہا کرنے اور محدود حملوں کےذریعے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا گیا ہے. بتایا گیا ہے کہ ان حملوں کا مقام اور وقت بھارتی سرکار بعد میں منتخب کرے گی. جس قدر وسیع پیمانے پر اس ایشو کو لے کر میڈیا ہائپ کھڑی کی گئی ہے، اس کے نتیجے میں بھارتی عوام کا جو ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس اندرونی دباؤ کو جواز بنا کر جس طرح بھارتی حکومت انتہائی تندوتیز اور جارحانہ بیانات دے رہی ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ کشمیر پر پاکستان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کو بےاثر کرنے کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے.
چین، او آئی سی اور امریکہ کی جانب سے کشمیر پر بھارتی موقف کی پذیرائی نہ ہونے کا سبب ہے کہ مودی جی خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نہیں جا رہے. اب عین ممکن ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کےاسمبلی سے خطاب سے پہلے یا بعد میں سرجیکل سٹرائیکس یا لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اس جانب سے ہٹانے کی کوشش کی جائے. اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ بھارت کی یہ پالیسی بیک فائر کر سکتی ہے کیونکہ بہرحال وہ کچھ بھی کریں گے، اس سے کشمیر کا تنازعہ دنیا کی توجہ مزید کھینچے گا.
لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کوئی نئی بات نہیں اور اس سے بھارتی عوام یا میڈیا کو مطمئن کرنا شاید ممکن نہ ہو، ایسے میں سرجیکل سٹرائیکس جنہیں ایک عرصے سے بھارتی دفاعی تجزیہ نگار ایک بہتر آپشن گردانتے چلے آ رہے ہیں کو آزمانے کا امکان بڑھتا چلا جا رہا ہے.
پاکستان کو اس معاملے پر زیرو ٹالرینس کی پالیسی اپنانا ہوگی. بھارتی فوج اور دفاعی ماہرین کو خدشہ ہےتو صرف یہ کہ ان سرجیکل سٹرائیکس کے نتیجے میں کہیں بارڈر پر محدود جنگ نہ چھڑ جائے. ہمیں فوج یا حکومت کی جانب سے ایک پالیسی بیان کے ذریعے ان کےاس خدشے کو قوی کرنا ہوگا. اپنی ائیرفورس کو بھی مزید متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور ائیر ڈیفنس سسٹم کو بھی تاکہ کسی ممکنہ سرجیکل سٹرائیک کو ناکام ہی نہ بنایا جائے بلکہ اس کا مؤثر جواب بھی دیا جا سکے.
بھارت میں نریندر مودی اور پاکستان میں نواز شریف دو ایسے لیڈرز ہیں جن کے باہمی تعاون سے بہت سے تنازعات ختم ہو سکتے تھے اور دو طرفہ تجارت و تعاون کو ایک نئی جہت مل سکتی تھی. افسوس مودی صاحب تولے گئے اور بہت ہلکے نکلے. نواز شریف صاحب نے آرمی اور عوام کی مخالفت مول لے کر بھی بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا چاہا مگر بھارتی رویے کو برداشت کرنا اب ان کے لیے بھی ممکن نہیں رہا.
مودی سرکار فل سکیل جنگ کرنے یا پاکستان کو سفارتی محاذ پہ ہزیمت سے دوچار کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے، افسوس وقتی فائدے اور پوائنٹ سکورنگ کی خاطر انہوں نے دیرپا امن کے امکانات ایک بار پھر دھندلے کر دیے ہیں.

Comments

Click here to post a comment