یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں صرف قادیانیت پر لکھا کرتا تھا، تب حافظ بابر بھائی نے مجھے میسج کیا اور کہا کہ جناب قادیانیت پر بہت لکھ لیا اب رد الحاد، لبرل و سیکولر ازم پر آ جائیں. اس دن کے بعد ہم اکثر پرائیویٹ چیٹ میں الحادیوں کی پوسٹس پر گفتگو کرتے تھے. جب کبھی وہ پوسٹ لگا کر کہیں مصروف ہوتے تو مجھے کہہ دیتے کہ نظر رکھنا، اور اسی طرح میں بھی ان کو میسج کر دیتا. یہ وہ وقت تھا جب نامی گرامی لکھاریوں نے الحاد و سیکولرازم پر قلم نہیں اٹھایا تھا اور الحاد سیکولرازم اور فہم و دانش کے خوشنما پردے میں چھپ کر اپنا زہر پھیلا رہا تھا. تب کوئی ایسے پیجز تھے نہ کوئی گروپ تھا اور نہ کوئی ایسی سائٹ جہاں پر رد الحاد کا کام ہو رہا ہو. یہ وہ وقت تھا جب زوہیب زیبی، حافظ بابر، ارمان علی (انجان مسافر)، عمراعوان، اسلم فریادی، عبدالسلام فیصل، مرزا وسیم بیگ، فوزیہ جوگن نواز اور دوسرے ساتھیوں کی ٹیم تھی جن کا مقصد ملحدین کے اعتراضات کا نہ صرف مفصل جواب دینا تھا بلکہ دوسرے مسلمان ساتھیوں کی اس فتنہ کے خلاف تربیت بھی مقصود تھی۔
ان دنوں میں الحادی فتنہ کے بانی کھلے عام نہ صرف گستاخیاں کرتے بلکہ عام مسلمانوں کا مذاق بھی خوب اڑاتے تھے. تب سب سے پہلے حافظ بابر نے ہی ان کے مکروہ طنز کو جوابی طنز سے کاؤنٹر کرنا شروع کیا. انھوں نے مفتی سیریز میں سوفٹ عزازی جیسے ملحد کو خاموش کروایا. اس طرح ان کے مینٹل نامہ، واٹس ایپ سیریز کے عنوان سے مشہور مکالمے فیس بک کے گروپوں میں آج بھی موجود ہیں. حافظ بابر ان فیس بکی گستاخوں کے خلاف اتنے قابل انداز میں متحرک تھے کہ نامی گرامی ملحدین جب بھی کوئی اپنا نیا سیکرٹ گروپ بناتے تو اس میں سے بھی ان کی حکمت عملی، پلاننگ لیک ہو جاتی تھی. آج ان ساتھیوں کی کاوشوں کی وجہ سے الحادی اپنے ہی گروپ محدود ہوگئے، ان کی جارحانہ حکمت عملی انھی پر پلٹ چکی ہے، ان کے دوغلے اور غلیظ عزائم سب کے سامنے کھل کر آ چکے ہیں. یہ اسی انتھک محنت کا نتیجہ ہے کہ اب نامی گرامی لکھاریوں سے لے کر مین سٹریم میڈیا تک اس فتنہ کے خلاف جو گونج سنائی دے رہی ہے، حافظ بابر کا اس میں بہت بڑا حصہ ہے.
اللہ حافظ بابرعلی بھائی! اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور قبر میں اپنے نور کی بارشیں فرمائے. حافظ بابر اپنی کاوشوں کی صورت ہمارے درمیان زندہ ہے اور ان شاء اللہ زندہ رہے گا
تبصرہ لکھیے