تاریخ بھی عجیب مضمون ہے۔ دنیا کی تاریخ عجیب وغریب حالات سے بھری ہوئی ہے۔ تخت پر جلوہ افروز حکمران کو تختہ دار تک پہنچنے میں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ دنیا کی سب سے بااختیار مسند تو امریکی صدرکی ہوتی ہے جس پر ایک کامیاب و کامران اور نیک نام حاکم نکسن تاریخ رقم کر رہا تھا کہ صرف ایک اطلاع نے اسے تخت اقتدار سے نیچے اتار دیا۔
آج اکیسویں صدی کی فضائوں میں اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں ایک موضوع زیر بحث ہے۔ دنیا کی باوثوق ریسرچ نے بتایا کہ وزیر اعظم کے بچوں کے ہاتھ میں بہت بڑے خزانے ہیں۔ اگر عام انسان ہوتے تو مسئلہ اتنا ابھر نہ سکتا مگر وہ تو حاکمِ وقت کی اولادیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ باپ نے اپنے بچوں کو ریاستی خزانے کا کوئی حصہ ناجائز طور پر دے ڈالا ہو۔ اسلام میں تو حکمران پر بہت کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور اسے کند چھری سے ذبح کرنے سے تشبیہہ تک دی جاتی ہے۔ حکمران نے خبر آتے ہی اس مسئلہ کی سنگینی کو محسوس کیا اور فوراً ٹی وی پر آ کر ایک خطاب فرمایا جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ ہم تو نسلوں سے امیر کبیر آ رہے ہیں۔ بزعم خود انہوں نے مسئلے کی تحقیقات کا اعلان کیا. تحقیق فیصلہ کرے گی کہ میاں صاحب کو حکمرانی کا حق حاصل ہے یا نہیں اور یہ کہ وہ گھر پر رہیں گے یا سیدھا جیل چلے جائیں گے۔ یہ مسئلہ زیر غور کے فطری نتائج ہیں۔
مسئلہ کے متعلقہ جینوئن فریق صرف چھ افراد ہیں: حسن، حسین، مریم، صفدر، محترمہ کلثوم نواز، میاں نواز شریف۔ مگر یہاں عجب دھما چوکڑی برپا ہے۔ وزیر و مشیر دوڑیں لگائے ہوئے ہیں۔ قانونی ماہرین میاں صاحب کو بچانے میں نہ جانے کہاں کی کوڑیاں لا رہے ہیں۔ ہمیں ایسے لگا کہ اگر اطلاع آئے کہ فلاں جگہ آگ لگ گئی ہے اور فوراً آگ بجھانے کا اہتمام کیا جائے تو متعلقہ کرسی پر بیٹھا افلاطون یہ جواب دے کہ ہم نے شکایت سن لی مگر ہمارے پاس تو 1947ء سے اب تک ایسی ہزاروں شکایتیں آئی ہوئی ہیں، ہم خود کسی تاریخ کو اس پر بھی کارروائی کرڈالیں گے۔ آپ اس پر ’’نان سینس‘‘ کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں مگر وزراء اور وکلائے عالی شان فرماتے ہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک ہزاروں لوگوں نے مالی بدعنوانیاں کر رکھی ہیں، قرض معاف کرارکھے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ ماہرین گہرے غور و خوض اور صبر و تحمل سے پالیسیاں سوچ رہے ہیں اور قانون سازی بھی کرڈالیں گے اور یہ مسئلہ بھی کبھی زیر غور آ ہی جائے گا۔ جبکہ یہ مسئلہ تو فیصلہ کرسکتا ہے کہ میاں صاحب ابھی اور ہمیشہ کے لیے سیاست سے رخصت ہوجائیں ۔ تو یہ ہے وہ تماشا جو ہمارے ملک میں بہت اونچی سطح پر ہورہا ہے اورجس کسی نے ٹیڑھی نظر سے میاں صاحب کی ’’بادشاہی‘‘ (خاندانی سیاست)کی جانب دیکھا ان کے کیس آگے سے آگے بھی پہنچا دیئے گئے ہیں۔
ہم تو ایسے محسوس کرتے ہیں گویا کرپشن کو ایک تقدس کا درجہ حاصل ہوچکا ہے اور حکمرانِ وقت بیرون ملک تشریف فرما اولادوں کے پاس لامتناہی خزانوں کے ڈھیروں پر بات کرنا شاید قانونی طور پر حرام ہی قراردے دیا جائے۔ قومیں جب زوال پذیر ہوتی ہیں تو ایسا ویسا سب کچھ ہوسکتا ہے۔ ہم نے ماضی میں اس خوب صورت سرزمین کی ترقی اور اثر آفرینی کے نظارے دیکھے ہیں۔ شاہ فیصل اور بھٹو کے دور میں یہ اسلامی دنیا کا قائد اور محبوب لیڈر ملک تھا۔ اس کی سیاسی تباہی کے صرف دو واقعات ذمہ دار ہیں۔ پہلا یہ کہ بےنظیر کی رحلت کے بعد پارٹی کے سینئر وائس پریذیڈنٹ مخدوم صاحب کو پارٹی اقتدار نہ سونپا جانا اور دوسرا میاں شریف مرحوم و جنرل جیلانی کے مابین ڈیل اور اس کے نتیجے میں ضیاء الحق کی سرپرستی میں خاندانِ شریفاں کی سیاست میں عملداری۔ نہ زرداری اسلامی جمہوریہ کی سیاست کا اہل تھا اور نہ جنرل جیلانی کا عطاکردہ ’’تحفہ‘‘۔ بس قوم ان کرداروں کی بھینٹ چڑھی ہوئی ہے اور خدا کی قسم یہ اسلامیانِ ہند کی جدوجہد برائے قیامِ پاکستان و تحریک پاکستان کی نفی ہے۔
اللہ جانے کب ہماری قوم انتخابات میں چارسال کے لیے حکمران چننا شروع کرے گی۔ پانچ سال تک بہت طویل زمانہ ہے۔ ہم ویسے تو امریکہ برطانیہ وغیرہ مغرب کے بہت عاشق اور غلام ہیں مگر ان کے سیاسی آداب سے کچھ بھی نہیں سیکھتے۔ زرداری خاندان اور شریف خاندان کو وطن کی محبت اور وفاداری کے جذبے میں سرشار ہوکر ہمیشہ کے لیے سیاست سے ریٹائر کر دینا چاہیے۔ ایک نیا جمہوری و سیاسی دور شروع کیا جائے تاکہ پاکستان ان بدعنوان اور شعبدہ باز اصلاً غیر سیاسی گھرانوں سے نجات حاصل کرسکے۔
ملکی سیاست جاتی امرا، دبئی اور لندنی آکٹوپسوں نے جکڑ رکھی ہے۔ قوم ان سے آزادی حاصل کرے اور قومی سیاست کو بابائے قوم حضرت قائدِ اعظم کے ماڈل اورعلامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں چلایا جائے۔ کیا ہماری باتوں کی تصدیق کے لیے یہی خبر کافی نہیں ہے کہ پاکستان میں یومِ اقبال کی چھٹی ختم کر دی گئی ہے۔ یہ چھوٹی مگر اصل میں بہت بڑی بات ہے جس نے حکمرانوں کی سوچوں کا ایکسرے کرکے رکھ دیا ہے۔ خیر آج کی گفتگو کے اصل عنوان پانامہ لیکس یا پانامہ خزانوں کی طرف واپس آتے ہیں۔ اس سلسلہ میں راقم نے چند ایک اشعار بعنوان ’’احوالِ پانامہ‘‘ترتیب دیے ہیں، ملاحظہ فرمایئے:
مت پوچھ مجھ سے سوالِ پانامہ
کیوں بتائوں تجھ کو احوالِ پانامہ
کتنے اس میں پیسے ہیں
کب ٗکیسے اس میں پہنچے ہیں
یہ ہیں میری راز کی باتیں
ان سے جڑی مری رات کی نیندیں
لیکس کے قصے عجب ہیں یارو
کہ راز اپنے پرائے سب کو بتلائو
ختم ہوتی کیوں نہیں ٹی آروکہانی
یہ تو بن گئی الف لیلہ ہماری
جی یہ پنامہ نہیں پاجامہ ہے
پیدا اس سے نقصِ امنِ عامہ ہے
کوئی اس اینگری خان کو سمجھائے
شریفوں کے قصے شرافت کی کہانی
القصہ کبھی نہ بتلائوں میں راز اپنا
ہائے پانامہ وائے پانامہ ارے میرا پاجامہ
تبصرہ لکھیے