اللہ رب العزت نے جب تخلیق آدم کا تذکرہ فرشتوں سے کیا تو انہوں نے سوال کیا کہ اے ہمارے رب کیا تو ایسی مخلوق پیدا کرے گا جو تیری نافرمانی اور زمین میں فساد کرے گی تو خالق کائنات نے جواب دیا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
تخلیق آدم ہوئی اور اس کی افزائش کا سلسلہ جاری اور ساری رہا اور بلآخر پیغمبر آخر زماں جناب سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ السلام پر قرآن مجید کا نزول شروع فرمایا اور زمانے کی قسم کھاکر سورہ عصر میں اعلان فرمادیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں۔ یہ اعلان سنتے ہی انسانوں کہ دماغ میں سوال پیدا ہوا کہ اے ہمارے پالنے والے تمام انسانوں میں تو سیدنا آدم علیہ السلام سے نبی آخر الزماں سیدنا محمد رسول اللہ بھی آتے ہیں۔ ان میں تیرے عبادت گزار، صالحین، شہدا اور تجھ سے ڈرنے والے بھی آتے ہیں کیا سب خسارے میں ہیں۔ یہاں اللہ رب العزت نے کامیاب انسانوں کی چار صفات بیان فرمائیں اور قانون بنا دیا۔
چناچہ اعلان ہوا کہ سب انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے۔ گویا کہ اس اعلان نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ایک وہ جو اپنے خالق و مالک پر ایمان لائے اور اس کی توحید کا اقرار کیا، اور اس کے رسولوں اور ان کی تعلیمات، فرشتوں، کتابوں، یوم جزا و سزا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لائے اور دوسرا وہ جنہوں نے سب کا انکار کیا اور اللہ کی ذات و صفات میں کسی کو شریک کیا اور نافرمان کہلائے۔
جو ایمان لائے ان کے ذہن میں سوال آیا کہ کیا اب ہم کامیاب ہوگئے تو خالق کائنات نے ارشاد کیا، تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے۔ گویا دوسرا قانون بتلایا گیا کہ مجھ پر ایمان لا کر میرے احکامات جو میرے رسولوں کے ذریعہ تم تک پہنچے ہیں ان پر عمل کرنا لازم ہے۔ رسول اللہ جس چیز کا حکم دیں اس پر عمل کرنا اور جس سے روک دیں اسے چھوڑ دینا لازم ہے۔ دین کے معاملے میں اگر مگر، بدعات و رسومات کو چھوڑنا اوراللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ضروری ہے۔
سوال کا دائرہ وسیع ہوا کہ جو اللہ پر ایمان لائے اور نیک اعمال بھی کرتے رہے کیا وہ کامیاب ہوگئے، تو ارشاد ربانی نے تیسرا اور چوتھا قانون بیان کیا کہ تمام انسان خسارے میں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔
گویا ایمان لاکر نیک اعمال کرنے والوں کو ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنے کی، کہ جو ایمان تمہارے دل میں اترا ہے اور جن اعمال سے تم نے اللہ کی رضا پائی ہے وہ اپنے تک محدود نہیں رکھنا، یہ پیغام و تبلیغ ان لوگوں تک پہنچانی ہے جو ایمان لائے مگر اعمال صالح نہ کر پائے یا سرے سے ایمان کی نعمت سے محروم رہے، ان کو ایمان اور اعمال دونوں کی طرف لانا امت کے ہر اس فرد کی ذمہ داری ہے جو پہلے دونوں قانون اپنا چکا ہے۔
یہاں اللہ رب العزت نے ایمان لا کر، اس پر عمل کرکے، حق بات کی تلقین کرنے والوں کو کامیابی کا چوتھا قانون سمجھا کر صبر جیسی عظیم صفت کو اپنانے کی تلقین کی، کہ جب تم ایمان لا کر اعمال کرنے لگ جائو گے اور پھر اللہ اور اس کے رسول کے پیغام دنیا بھر میں پھیلائو گے توعالم کفر و طاغوتی قوتیں تمہاری دشمن ہو جائیں گی، تم شدت پسند بھی کہلائو گے اور غیر تہذیب یافتہ بھی۔ تم پر زمین تنگ کردی جائے گی۔
جب تم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو مضبوطی سے تھاموگے تو تمھارے اپنے بھی مولوی، صوفی اور طرح طرح کے القابات دے کر تمھارا مزاق بھی اڑائیں گے اور تمہیں آج کی چلاک دنیا کا جاہل انسان قرار دے کر اس کی سند بھی دیں گے۔ تو گویا پچھلے تین قوانین پر ثابت قدم رہنے کے لیے ضروری ہوگا کہ تم صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھنا اور بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جو ان چار قوانین کو اپنی زندگی اور وجود پر لاگو کرگیا وہ کامیاب ہوگیا.
اللہ پاک ہمیں بھی ان پر عمل کرنے اور اپنے فضل سے کامیاب انسانوں کی فہرست میں شامل فرمائے۔ آمین
تبصرہ لکھیے