انار کلی بازار میں داخل ہوتے ہی، بازار میں موجود ہوٹلز کے ویٹرز ہر آنے جانے والے فرد پر بھوکے گدھوں کی مانند جھپٹ پڑتے ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بازار میں داخل ہونے والا ہر شخص ان کے کھانے سے لطف اندوز ہو۔ کوئی بھی شریف آدمی اس بازار میں اپنی فیملی کے ہمراہ داخل ہونے سے پہلے سو بار سوچے گا لیکن یہ تحریر انارکلی بازار کی خوبیاں یا خامیاں بیان کرنے کے لیے نہیں لکھ رہی بلکہ مغربی ملبوسات بنانے والی ایک برانڈ کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کیے جانے والے اخلاق باختہ اشتہار نے قلم اُٹھانے پر مجبور کیا ہے۔
میں بطور لڑکی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ برانڈ پاکستانی عورت سے کیا کرانا چاہتا ہے۔ پہلے ہی نام نہاد آزادی کے نام پر عورت کو بازار کی رونق بنا دیا گیا ہے۔ اب برانڈ اشتہار کے نام پر اس کے جسم کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ اشتہار کے نام پر اسے اخلاقی پستیوں کی تاریک وادیوں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ یورپی طرز کے ملبوسات میں سر عام جسم کی نمائش کا یہ طریقہ پہلے یورپ میں رائج تھا مگر اب مارکیٹنگ کا یہ طریقہ پاکستان میں رائج ہو رہا ہے، اور ہماری اقدار، روایات اور اخلاقیات کو دیمک کی طرح کھانے لگ گیا ہے۔ تہذیب کا سر عام جنازہ نکالا جا رہا ہے۔
آزادی کے اس نام نہاد تصور کا مقصد عورت کو تہذیب و مذہب سے آزادی کی ترغیب دلانا اور مغربی روایات کا غلام بنانا ہے تاکہ یہاں بھی وہ مرد کےلیے کھلونا بن جائے جس سے وہ اپنی مرضی سے کھیل سکے۔ ایسے اشتہار واقعی آزادی دیتے ہیں، مذہب و اخلاقیات سے بےزاری کی آزادی، تہذیب و روایات، اخلاقیات اور معاشرت سے آزادی۔ ٹی وی چینلز پر جو اشتہارات دکھائے جاتے ہیں وہ کوئی بھی شریف انسان اپنے خاندان کے ہمراہ دیکھ نہیں پاتا، اس کے تباہ کن اثرات کے باوجود اس کے بارے میں بات نہیں کی جا رہی۔ تقلید مغرب میں عورت کی آزادی کی خواہش رکھنے والے مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی بھول گئے ہیں، جس نے مغرب میں عورت کو سر بازار ذلیل و رسوا کر دیا ہے۔ عدم تحفظ کے ساتھ اس نے مغرب کو اخلاقی پستیوں کی جانب دھکیل دیا ہے۔ عورت کو اعلیٰ مقام ملنے کے بجائے اسے زمانے کی گرد میں ذلیل و خوار کر دیا ہے۔
اس اشتہار پر حکومتی کردار لمحہ فکریہ ہے۔ حال میں متعارف کرایا جانے والا سائبر کرائم بل شخصی آزادیوں پر تو قدغن لگا رہا ہے مگر اخلاقیات کو نقصان پہنچانے پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے. عورت کی تذلیل کو کیوں برداشت کیا جا رہا ہے؟ کیا ہماری عورت ایسے ہی بازار میں ٹھمکے لگاتی ہے؟ کیا ایسے ہی اس کا تماشا دیکھا جاتا ہے؟ کیوں سائبر کرائم بل اور سیکورٹی ادارے اس اشتہار پر خاموش بیٹھے ہیں؟ آخر کیوں حکومت اس پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہر ذی شعور پاکستانی کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں مگر ان سوالات کے جوابات شاید باقی سوالوں کی طرح کبھی نہ مل سکیں. ہم یوں ہی بھوک ، پیاس اور چھت کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے اور ہماری اقدار ماریکٹنگ کی دوڑ میں کہیں کھو جائیں گی۔ حکومت کی طرف دیکھنے کے بجائے ہمیں خود اپنی اقدار کے تحفظ کے لیے کردار ادا کرنا ہوگا، شاید ہمارا جلایا ہوا ایک دیا ہی مستقبل میں چراغاں کرنے کا سبب بن جائے۔
(انعم احسن سپیرئیر یونیورسٹی کے ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ایم فل کی طالبہ ہیں)
لباس نہیں جسم کی تشہیر، عورت کی تذلیل - انعم احسن

تبصرہ لکھیے