پورے جنوبی پنجاب میں میں پانچ یونیورسٹیاں ہیں جبکہ صرف لاہور میں تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ یہی حال ہسپتالوں کا ہے۔ پرویز الہی کارڈیالوجی فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے ابتر حالت میں ہے۔ نشتر ہسپتال میں مریض زیادہ ہیں، عملہ اور بیڈز کم۔ اس سے حکومت کی توجہ صاف ظاہر ہوتی ہے۔ اگر سڑکیں دیکھی جائیں تو انڈس ہائی وے جو کہ اہم ترین سڑک ہے اور پنجاب کو خیبرپختونخوا سے ملاتی ہے، اس کی حالت بھی خستہ و افسوسناک ہے۔ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ پنجاب کی آبادی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔ اتنی زیادہ آبادی کے مسائل حل کرنا کسی ایک بندے کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔ انتظامی بنیادوں پر ایک نیا صوبہ وقت کی ضرورت ہے۔ نئے صوبے سے جنوبی پنجاب کے لوگوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملےگا۔ ایک انٹری ٹیسٹ کو ہی لے لیں۔ اپر پنجاب اور جنوبی پنجاب کے بچوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔ سیٹوں کی تعداد کم ہوتی ہے اور امیدوار زیادہ۔ کیا جنوبی پنجاب اور اپر پنجاب کے بچوں کو ایک جیسا ماحول دیا جاتا ہے؟ کیا ان کو پڑھنے کے ایک جیسے مواقع حاصل ہیں؟ اس کا جواب یقینا نفی میں ہے۔
پیپلزپارٹی نے اپنے دور حکومت میں ایک دفعہ جنوبی پنجاب صوبہ کا شوشہ چھوڑا تھا، اس پر ن لیگی حکومت نے دو صوبوں کی بات کی اور بہاولپور صوبے کی بحالی کی بات کی مگر دونوں نے اس پر عملی قدم نہیں اٹھایا، ظاہر ہے دونوں کا مقصد صرف پوائنٹ سکورنگ تھا۔ جنوبی پنجاب کے لوگوں کو صوبہ چاہیے، اگر احساس محرومی ختم نہ ہوئی تو عنقریب خطے کے سرائیکی بھی سراپا احتجاج ہوں گے۔
جنوبی پنجاب صوبہ ناگزیر ہے - محمد شہروز ناصر

تبصرہ لکھیے