ہوم << بیٹی کے بعد قوم کے بیٹوں کے نام ایک خط ! عامر امین

بیٹی کے بعد قوم کے بیٹوں کے نام ایک خط ! عامر امین

%d8%b9%d8%a7%d9%85%d8%b1-%d8%a7%d9%85%db%8c%d9%86پیارے بھانجے محمّد موحد محمود!
آج ١٢ ستمبر ٢٠١٦ ہے اور آج سے ٹھیک ١٢ دن پہلے یکم ستمبر ٢٠١٦ کو آپ پیدا ہوئے.آپ ہمارے خاندان کی تیسری نسل میں پہلے لڑکے ہو. اتفاق سے آپ جس مہینے میں پیدا ہوئے، اسی مہینے میں ہمارے اور آپ کے گرینڈ پیرنٹس کے دور کے ایک نامور اداکار امیتابھ بچن نے اپنی نواسی اور پوتی کے نام ایک خط لکھا. اس خط میں بچن صاحب نے انھیں اور ان کے ذریعے تمام بیٹیوں کو یہ نصیحت کی کہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود اپنی عقل کے تا بع رہ کر کریں. وہ کیسا لباس زیب تن کرنا چاہتی ہیں، کس سے اور کہاں ملنا چاہتی ہیں، کس کو دوست بنانا چاہتی ہیں اور کس سے اور کب شادی کرنا چاہتی ہیں، اس سب کے لیے وہ نہ تو کسی کو اس بات کی اجازت دیں کہ وہ ان پر اپنے نظریات تھوپے اور نہ ہی یہ لوگوں کی سوچ کی پرواہ کریں. ان کی نصیحتوں میں کتنا وزن تھا، وہ ہماری مسلم معاشرت اور دینی احکامات سے کتنی ہم آہنگ تھیں، اس پر ہمارے دور کے ایک نامور صحافی جناب عامر خاکوانی صاحب نے بھی اپنی بیٹی کو ایک خط لکھا، جس میں انھوں نے اپنی بیٹی کی وساطت سے مسلم معاشرے کی تمام بیٹیوں کو مخاطب کر کے کچھ انمول نصیحتیں کیں.اس بیچ مجھے احساس ہوا کہ آپ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے. چونکہ آپ، بطور مرد، اس بحث کاایک بہت اہم اور، شاید پاکستانی معاشرے کی حد تک، کلیدی کردار ہو، اس لیے سوچا کہ آپ کو بھی ایک خط لکھا جائے.
آپ سوچیں گے کہ اس سب سے آپ کا کیا تعلق؟ آپ تو ایک لڑکے ہو، اور اس معاملے کا تعلق تو خواتین سے ہے اور اسی لیے مجھے بھی آپ کی بہن دعا محمود کو ہی خط لکھنا چاہیے تھا لیکن میرے پیارے موحد! جس پدرانہ معاشرے میں آپ نے جنم لیا ہے، اس میں عورت کے اندر اعتماد اور تحفظ کا آپ سے بہت گہرا تعلق ہے. اس تعلق کو سمجھنے سے پہلے میں آپ کو بچن صاحب کے خط کا پس منظر بتانا چاہوں گا. بچن صاحب کے خط کا ایک پس منظر، اس کی ایک پوری تاریخ ہے. وہ تاریخ اور پس منظر اگر میں چند جملوں میں آپ کو بتاؤں تو یہ ہے کہ عورت زمانہ قدیم سے استحصال کا شکار رہی ہے. کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی معاشرتی روایات کے نام پر. یہ داستان کوئی نئی نہیں. کہیں ارسطو نے عورت کو ایک کمتر مخلوق اور مرد کی ہی ایک نامکمل اور مسخ شدہ شکل سمجھا اور کہیں مذہب کے نام پر عورت کی تعلیم پر پابندی عائد کی گئی اور اس کی انفرادی شخصیت کو مسخ کیا گیا. اس سب کے خلاف فطری طور پر ایک ردعمل پیدا ہوا جو مغرب کے شخصی آزادی کے نظریہ کےتحت پروان چڑھا. بچن صاحب کا خط شاید اسی ردعمل کے پس منظر میں لکھا گیا لیکن آپ کو شاید تعجب ہو کہ جو لوگ عورت کےمعاشرتی اور مذہب کے نام پر استحصال کے خلاف اٹھے، انھوں نے ہی عورت کو جنس بازار بنا دیا. آپ جس دور میں پیدا ہوئے ہیں، وہ یہی دور ہے جس میں عورت کے کردار اور اس کی شخصیت سے زیادہ اس کے حسن اور جسم کی اہمیت ہے. اسی لیے برادرم عامر خاکوانی صاحب نے مسلمان معاشرے اور اقدار کی روشنی میں اپنی بیٹیوں کو بھی ایک خط لکھا. جیسا کہ میں نے اوپر کی سطور میں لکھا، اس سب میں آپ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا. آؤ اب میں آپ کو بتائوں کہ اس سب سے آپ کا کیا تعلق ہے.
عزیز م ، آپ جس معاشرے میں پیدا ہوئے ہو، وہاں آج تک عورت مذہبی اور معاشرتی بنیادوں پر استحصال کا شکار ہو رہی ہے. اس پر مستزاد یہ کہ شخصی آزادی کے مغربی تصور نے ایک اور طرح کے استحصال کا راستہ کھول دیا ہے، جس کا ذکر میں نے اوپر کی سطورمیں کیا ہے. اس سب کے بیچ آپ پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں. آپ جب پیدا ہوئے تو آپ کی بہن دعا محمود پہلے سے دنیا میں آ چکی تھیں. مجھے وہ تصویر بہت خوبصورت لگی جس میں دعا نے آپ کو اپنی گود میں اٹھا رکھا ہے، اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہی ہے. یقین جانو بہنیں اپنی محبت میں، ماؤں کا ہی عکس ہوتی ہیں اور وہ آپ سے ہمیشہ ایسے ہی پیار کریں گی. لیکن جب آپ بڑے ہو جاؤ تو اپنے آپ کو اپنی بہن سے دور نہ کرنا. اس کے ساتھ سخت بھائیوں والے رویے کے بجائے ایک اچھے دوست جیسا تعلق رکھنا. دیکھو موحد! وہ کل اپنے گھر سے جب باہر جائیں گی تو آپ انھیں معاشرے کا سامنا کرنے کا حوصلہ اور اعتماد دینا. ایک ایسے دوست اور بھائی کی طرح جو انھیں نہ صرف معاشرے میں تحفظ دے گا، بلکہ ان کے مسائل، ان کی خواہشات اور زندگی کے اہداف حاصل کرنے میں ان کی ہر ممکن مدد کرے گا. یاد رکھنا کہ وہ بھی آپ کی طرح انسان ہیں. آپ کی طرح وہ بھی کبھی صحیح فیصلے کریں گی، اور کبھی غلط، لیکن آپ دوغلے معیار نہ پالنا. ایک عورت کی غلطی اور اس کے گناہ، اور ایک مرد کی غلطی اور گناہ میں، اللہ کے نزدیک کوئی فرق نہیں، تو آپ بھی یہ فرق نہ کرنا. لیکن اگر ان سے غلطی ہو جائے تو انھیں یہ احساس دلانا کہ گھر میں کوئی جلاد نہیں، بلکہ ایک مخلص، ایک رازدان، ایک پیار کرنے والا بھائی ہے، جو ان کی غلطیوں کو اپنی غیرت اور انا کا مسلہ بنائے بغیر، نرمی اور اخلاص کے ساتھ، ایک اچھے دوست کی طرح ان کی اصلاح کرے گا. یقین جانو، ان کی غلطی کا خمیازہ بھی کم ہو جائے گا اور دوبارہ غلطی کرنے کا امکان بھی.
آپ باہر جاؤ گے تو آپ کے اسکول، یونیورسٹی، اور کام کی جگہ پر آپ کو دعا جیسی بہت سی دعائیں ملیں گی. یاد رکھنا کہ ان دعاؤں کی معاشرے میں قبولیت کا انحصار بھی آپ پر ہے. ہمارے معاشرے میں ایک لڑکی کا اکیلے باہر جانا بھی محال ہے. اور اگر کسی ضرورت کے تحت وہ چلی بھی جائے، تو اسے طرح طرح کی نظروں اور جملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے. اسے تحفظ کا احساس آپ نے دینا ہے. آپ کی نظر میں پستی، آپ کے لہجے میں عزت، اور آپ کے ذہن کی پاکیزگی، آپ کی بہن دعا جیسی بہت سی بہنوں کو معاشرے میں تحفظ اور اعتماد دے گی. اور دیکھو! ویسے تو ہر ایک کی طرف حسن ظن رکھنا چاہیے، لیکن آپ جس معاشرے میں پیدا ہوئے ہو، وہاں عورت کو بدظنی کا سامنا مرد سے زیادہ کرنا پڑتا ہے. اس بےچاری کی عزت کو ہمارے معاشرے نے ایک ایسا کچا دھاگا بنا دیا ہے جسے ایک اوباش کی جھوٹی افواہ بھی توڑ ڈالتی ہے. اس لیے معاشرے میں دعا سے متعلق حسن ظن کو عام کرنا. کوئی شخص آپ کی اپنی بہن یا کسی اور کی بہن سے متعلق گفتگو کرنا چاہے تو اسے وہیں روک دینا.
عزیز از جان بھانجے! میں نے صرف چند باتوں کا ذکر کیا. لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے علاوہ بہت سے مواقع اور طریقوں سے عورت کا استحصال ہوتا ہے. کہیں اس کا وراثت میں حق مارا جاتا ہے تو کہیں نکاح کے موقع پر. کہیں وہ بیوہ بن کر اچھوت بن جاتی ہے تو کہیں مطلقہ بن کر. اگر کوئی اس استحصال کا خاتمہ کر سکتا ہے تو وہ آپ ہو. امیتابھ بچن صاحب نے جو کچھ بھی کہا ہو، ہمارے لیے تو سب سے بہترین اسوہ ہمارے پیارے نبی محمّد ﷺ کی ذات میں ہے. ہماری نسل، اور ہم سے پہلی نسل تو شاید اس میں بری طرح سے ناکام رہی کہ آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی بنیاد پر عورتوں سے معاملہ کرتی لیکن آپ اپنی بہن دعا کو وہی معاشرہ دینے کی جدوجہد کرنا جو ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے زمانے کی عورتوں کو دیا تھا. دعا محمود، حضرت خدیجہ (رض) کی طرح کاروبار کرنا چاہیں، وہ حضرت عائشہ (رض) کی طرح کوئی کھیل دیکھنا یا خود کھیلنا چاہیں، وہ حضرت میمونہ (رض) کی طرح شادی سے متعلق اپنی پسند کا اظہار کریں، یا آپ ﷺ کے زمانے کی خواتین کی طرح اعتماد اور تحفظ کے احساس کے ساتھ معاشرے میں اپنا کردار ادا کرناچاہیں، آپ ان سب معاملات میں اپنی بہن کے لیے آسانیاں پیدا کرنا. میری دعا ہے کہ آپ دعا کے لیے وہ معاشرہ تشکیل دو جس میں وہ نہ صرف تحفظ محسوس کرے بلکہ اعتماد اورعزت کے ساتھ زندگی میں آگے بڑھے. آمین
آپ کا ماموں
عامر امین

Comments

Click here to post a comment