ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریبا 15 فیصد حصہ معذور افراد پر مشتمل ہے۔ یعنی پاکستان میں تقریبا 2 کروڑ افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں اور اس تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کی اہم وجوہات پولیو، دہشت گردی اور روڈ ایکسڈنٹ ہیں۔
اس وقت پوری دنیا میں پاکستان اور افغانستان صرف دو ایسے ملک ہیں جہاں سے پولیو کا خاتمہ ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا۔ اسی وجہ سے ڈبلیوایچ او نے 2015ء میں پاکستان پر سفری پابندیاں عائدکرتے ہوئے بیرون ملک سفر کرنے والے پاکستانیوں کے لیئےپولیو سرٹیفکٹ لازمی قرار دے دیا جو کہ پوری دنیا میں ہمارے لیئے جگ ہنسائی کا سبب بنا۔ جبکہ پاکستان سے کئی گنا بڑا ملک بھارت 2015ء میں پولیو فری قرار دیا جا چکا ہے۔
اگر ہم 2015ء کی بات کریں تو اس سال پاکستان کے 23 اضلاع میں54 پولیو کیسز سامنے آئے، خیبر ایجنسی میں 11، ساؤتھ وزیرستان میں 2، نارتھ وزیرستان میں 1 اور ایف آر پشاور میں2، خیبرپختونخوا کے اضلاع لکی مروت، نوشہرہ، چارسدہ میں ایک ایک، پشاور میں 12، سندھ کے اضلاع کراچی میں 7، دادو میں 2، کمبیر، سکھر اور خیرپور میں ایک ایک، بلوچستان کے اضلاع قلعہ عبداللہ، لورالائی میں ایک ایک اور کوئٹہ میں7 کیسز سامنے آئے جبکہ پنجاب کے اضلاع چکوال اور رحیم یار خان میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوا۔ اگر 2016ء کی بات کریں تو اب تک کے پی کے میں 7، سندھ میں 4، بلوچستان اور فاٹا میں ایک ایک کیس سامنے آچکا ہے۔ یعنی 2016 میں 13 خاندان اب تک پولیو سے متاثر سے ہو کر اپنے ہی قدموں میں مقید ہو چکے ہیں۔
اسی طرح اب تک لاکھوں لوگ دہشتگردی اور ایکسڈنٹ سے متاثر ہو کر معذور ہو چکے ہیں ، اور زندہ لاشیں بن کر زندہ رہنے پر مجبور ہیں جو اپنے گھر والوں اور پاکستان پر بوجھ ہیں کیو نکہ ریاست پاکستان نے اب تک معذورافراد کے لیئے کوئی ٹھوس اور عملی اقدامات نہیں اٹھائے جس سے معذورافراد زندگی کے دھارے میں شامل ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔ پاکستان کے 2 کروڑ معذور افراد اس قت پاکستان پر بوجھ ہیں ان کو کارآمد بنا کر ان سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت کوئی ایک ٹرین ایسی نہیں جس سے معذورافراد اپنی مدد آپ کے تحت سفر کر سکیں، کوئی ایک بس ایسی نہیں جو معذورافراد کے قابل استعمال ہو، کوئی ایک پبلک مقام ایسا نہیں جہاں قابل رسائی واش روم ہو جس کے اندر وہیل چیئر جا سکے، کوئی ایک مسجد، مندر ایسا نہیں جہاں ہم اپنی عبادت کر سکیں، کوئی ایک عدالت ایسی نہیں جہاں ہم انصاف کے دروازے پر دستک دے سکیں ،کوئی ایک اچھی نوکری نہیں اور اگر ہے بھی تو اُس میں عزت نہیں ، شدید معذور افراد اٹینڈنٹ شپ سروس نہ ہونے کی سے اپنے گھروں میں پڑے موت کا انتظار کر رہے ہیں ، اور ان افراد میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جہنوں نے پچھلے کئی سالوں سے سورج کو طلوع ہوتے نہیں دیکھا ، چاند تارے نہیں دیکھے اُن کو یہ بھی پتا نہیں کے بہار کب آتی ہے کیونکہ اُن کی خود اپنی زندگی میں ابھی تک خزاں کا بسیرا ہے ۔
بریل سسٹم کا ہونا، اشاروں کی زبان کا سمجھنا، وہیل چیئرکے لیئے ریمپ کا ہونا، مارکیٹ کا قابل رسائی نہ ہونا ہی معذوری کا سبب ہیں ، معذوری انسان کے اندر نہیں باہر تلاش کریں ، رکاوٹیں دور کریں یہ محدود کر دیتی ہیں انسان کو، یہ موت ہو ا کرتی ہیں ۔
آئیں سب مل کر تمام رکاوٹیں دور کریں جو انسانوں کی زندگی میں معذوری کا سبب بنتی ہیں. یہ کام صرف ریاست کا نہیں بلکہ پاکستان کے ہر ذمہ دار شہری کا ہے ۔
فیصلہ ہم نے خود کرنا ہے کہ ہمیں زندگی میں معذوری چاہیے یا معذوری میں زندگی۔۔!
تبصرہ لکھیے