پاکستانی فری تھنکرز کے پاپائے ملحدین میں سے ایک پاپی امجد حسین نے امام الانبیاء کو سید المرسلین محبوب رب ماننے سے انکار کی طرف ایک قدم بڑھایا۔اور تمام انبیاء کی حالات زندگی میں سے ایک ایک پہلو لے کر یہ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی کہ محمد رسول اللہ نہ امام الانبیاء ہیں اور نہ ہی محبوب خدا۔
سب سے پہلے تو امجد کی توجہ اس بات کی کی طرف مبذول کروانے کی جسارت کروں گا کہ جب تم لوگ کتب سماوی کو مانتے نہیں، رب تعالی کے تم منکر ہو، مذہب سے تم باغی ہو، مذاہب خصوصا اسلام کا احترام تمہاری بری تربیت میں شامل ہی نہیں، کتب تواریخ تمہاری ثقاہت پر اترتی نہیں، علم حدیث و رجال تمہارے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا، مذہب کے تم باغی ہو تو توریت، زبور و انجیل اور قرآن مجید، گرنتھ، ویداس و اپنشد تمہارے لیے کسی کھاتے کی کتابیں نہیں، اور نہ تمہارے معیار پر اترتی ہیں۔ تم انھیں تو شاید مان لیتے، مگر اصل نفرت کا منبع تمہارے لیے دین اسلام ہے اور اسی کی نفی کے لیے تمہیں مجبورا دین اسلام کے ساتھ باقی مذاہب کی جزوی نفی کرنا پڑتی ہے۔ مگر حیرت کی بات ہے کہ جن چیزوں کا تم جیسے ملحد انکار کرتے ہیں، انھی چیزوں میں سے عبارتیں منتخب کرکے سادہ لوح عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ دہرا معیار! مگر کیوں؟
1، 2۔ پہلا اور دوسرا اعتراض تھا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 63 سال تھی جبکہ نوح علیہ السلام کی 950 سال، آدم علیہ السلام کا قد 30 میٹر لمبا تھا جبکہ نبی کریم ﷺ کا قد 6 فٹ، اور جبکہ باسکٹ بال کے اکثر کھلاڑیوں کا قد 7 فٹ ہوتا ہے؟ (العیاذ باللہ)
ارے امجد! اپنی فطرت سے مجبور اعتراض کرنے کے لیے سہارا تو تمہیں انھی مذہبی کتب کا لینا پڑتا ہے۔ اور یہ تو ایک انتہائی جاہل، عامیانہ سوچ رکھنے والا شخص اور علم سے کورا انسان بھی جانتا ہے کہ انسان کے مقام و مرتبہ کا معیار عمر ہے نہ قد۔ یہ معیار کسی مذہب کی کتابوں میں ہے نہ دنیا کے کسی اور قانون میں۔ ہوسکتا ہے الحادی نظریہ میں یہ ہوتا ہو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ انسانوں کی عمریں اور قد ابتدائے آدم علیہ السلام تا ہنوز مسلسل گھٹتے گئے ہیں۔ اور چونکہ تم نے مذہبی کتب کا سہارا لیا اس لیے میں بھی مذہبی کتاب کا سہارا لیتا ہوں. نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کی عمر کی حد 60 سے 70 سال ہے اور بہت کم لوگ اس سے زیادہ عمر پائیں گے. (ابن ماجہ:4236)۔ تم چونکہ خدا کے بھی منکر ہو تو پھر یہ بات تو پکی ہے کہ جب اس نے خود کسی کو پیدا نہیں کیا تو وہ خدا کسی کو مارتا بھی نہیں ہوگا۔ ہر چیز اپنی مرضی سے بنی ہے اور ظاہر ہے ختم بھی اپنی مرضی سے ہی ہوگی۔ لہذا ہر انسان کی بھی اپنی مرضی ہے وہ جب مرضی مولود ہو، جب مرضی مرے اس سے تمہیں کیا لگے۔ یہ ان کی زندگی کا معاملہ تھا۔ تم ہی وہ تھے جس نے کہا کہ انسان کوئی بھی کام کرے تمہیں اعتراض نہیں، اور اگر تھوپا جائے تو اعتراض۔ اسی طرح تم چاہے 500 سال جیو تو تمہیں اپنے پر اعتراض نہیں مگر کوئی ’’اپنی مرضی‘‘ سے 63 سال جیا تو تمہیں تکلیف ہونے لگی۔ رہا ان کے قد کا معاملہ تو قد بھی کسی کی فضیلت اور مقام و مرتبہ کا معیار نہیں۔ چونکہ تم بھی اسی زمانے کی پیداوار ہو لہذا تمہیں جواب بھی اسی زمانے کی پیداوار سے دیا جائے گا۔ اور سونے پہ سہاگہ مثال بھی ان لوگوں کی جو تمہاری طرح منکر خدا ہیں۔ چین کی لڑکی ’’زنگ جن لیان‘‘ عالمی سطح پر لڑکیوں میں سب سے زیادہ لمبی تھی، اورعمرصرف سترہ سال۔ مگر کون اسے جانتا تھا بقول تمہارے کہ اگر مقام و مرتبہ کی معراج یہی ہے تو اسے چین کی صدر، وزیراعظم یا کسی شعبے کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ پوری دنیا سینکڑوں قدآور لوگوں سے بھری پڑی ہے، کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرگئے اور کچھ اپنی ’’مرضی‘‘ سے مرضی سے جب جی چاہا مرجائیں گے۔ لہذا تمہارے پہلے دونوں اعتراض باطل ہیں۔ تم نے کہا کہ ابن افک 120 سال کا تھا، وہ آپ سے بڑا تھا لہذا اسےمروادیا۔ ارے کیا حجاز میں رسول اللہ ﷺ سے زیادہ عمر کا اور کوئی نہیں تھا۔ وہاں کتنے لوگ تھے فتح مکہ کے موقع پر جنہیں رسول اللہ ﷺ نے معاف فرما دیا کہ جو ابوسفیان (حالت کفر میں تھے) کے گھر پناہ لے گا، اس کےلیے امان ہے۔ اور تمہارے علم میں تو ہو گا ہی کہ رسول کریمﷺ کے چچا عباس اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ اور ایک کافر کے کہنے پر ایک کافر کے گھر کو دارالامان بنا دیا۔ اور ابوسفیان تو حالت کفر میں رسول اللہ ﷺ سے دشمنی کاحق ادا کرتے رہے۔ لہذا تمہارا یہ اعتراض بھی باطل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کےلیے بھی شفیق تھے کجا کہ کسی بزرگ کو قتل کرواتے.
۳۔ تیسرا اعتراض کیا کہ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کی خوبصرتی کے پیچھے بھاگی جبکہ رسول اللہ عورتوں کے پیچھے بھاگتے (العیاذ باللہ)۔ اور ایک معزز گھرانے کی عورت نے رسول اللہ سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا، کتنی بے عزتی کی بات ہے؟ (نعوذباللہ، نقل کفر کفر نباشد)
تمہیں یہ اعتراض عزیز مصر کے واقعے کی پڑتال کر کے اس وقت کرنا چاہیےتھا جب تم اس کو سمجھ لیتے کہ جس طرح زوجہ عزیز مصر یوسف علیہ السلام کے پیچھے برے ارادے سے بھاگی اورگناہ کی دعوت دی۔ کیا رسول اللہ ﷺ عورتوں کے پیچھے (نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ) اس طرح برے ارادے سے بھاگتے تھے۔ چونکہ اس اعتراض کا پہلا حصہ شاید قرآن سے نہیں تو کسی الہامی کتاب سے ہی لیا ہوگا۔ اور دوسرا حدیث سے لیا ہوگا گرنتھ اور اپنشد میں تو انکار والا واقعہ ملنےسے رہا۔ لہذا اگر تمہاری عقل وخرد کچھ تمہارا ساتھ دے تو تمہیں یاد ہوگا کہ رسول کریم ﷺ ایک مرتبہ اپنی زوجہ کے ساتھ راستے میں تھے تو سامنے سے کوئی آدمی آیا تو فرمانے لگے یہ میری بیوی ہے۔ اور پھر فرمانے لگے کہ انسان میں شیطان اس طرح دوڑتا ہے جس طرح خون، لہذا تم جیسوں کا اعتراض ختم کرنے اور منہ بند کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ نے پہلے ہی انتظام فرما لیا۔ رہا اس اعتراض کا دوسرا حصہ کہ اس نے انکار کیا تو کیا یہ بے عزتی نہیں۔ یہ تو یاد رہ گیا کہ رسول عورتوں کے پیچھے بھاگتے تھے (نعوذباللہ)، بخاری کی وہ روایت یاد نہیں جس میں ایک عورت آئی اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح کی خواہش ظاہر کی مگر رسول اللہﷺ نے انکار کر دیا، اور پھر کسی اور مرد سےنکاح کردیا (۵۰۸۷)۔ رہی بے عزتی والی بات تو جب نبی ﷺ نے ہر لڑکی کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرے یا نہ کرے تو جب اس نے انکار کیا تو نبیﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور اس سے تو تمہاری خود اپنی باتوں کی نفی ہوتی ہے جو تم کہتے ہو کہ ان کا نبی شہوت پرست تھا۔ اگر نبی شہوت پرست ہوتا تو زبردستی نکاح کرکے لڑکی لے آتا۔ نبی ﷺ کے لیے یہ چنداں مشکل نہ تھا۔ ہاں مگر نبی کریم ﷺ نے ہر لڑکی کو اپنے وعدے، زبان اور شرع کے مطابق حق دے کر ایسے لوگوں کی زبان بندی کردی جو انہیں شہوت پرستی کا الزام دیتے نہیں تھکتے۔
۴۔ اگلا اعتراض یہ تھا کہ اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا کہ ان کے حکم پر جن سمندر کی تہوں سے خزانہ لے آئے اور نبی کریم ﷺ کی قسمت میں اللہ نے چوروں ڈاکوؤں کی طرح مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا۔
تمہارا یہ اعتراض ہی غلط ہے کیونکہ اللہ نے جو سلیمان علیہ السلام کو اتنا کنٹرول دیا، وہ نبوت ملتے ہی نہیں عطا کیا بلکہ سلیمان علیہ السلام نے خود اللہ تعالی سے ایسی شاہانہ زندگی طلب کی تھی کہ مجھے ایسی بادشاہی عطا فرما کہ میرے بعد کسی کو ایسی بادشاہی نہ ملے۔ اور رسول اکرم ﷺ چاہتے تو اللہ انہیں بھی ایسی بادشاہی دے دیتے مگر نبی کریم ﷺ کو مال و دولت اور بادشاہت سے بالکل سروکار نہیں تھا۔ تمہیں وہ حدیث تو یاد ہوگی کیونکہ تم حدیث کا حوالہ دے رہے ہو، اس لیے مجھے مجبورا احادیث کا حوالہ دینا پڑ رہا ہے کہ جس میں رسول اکرمﷺ کے ہاتھ ایک جن آیا مگر آپﷺ نے چھوڑ دیا کہ مجھے میرے بھائی سلیمان کی دعا یاد آگئی، اگر میں اسے پکڑ لیتا تو صبح مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے۔ یہ معاملہ تھا بادشاہت کا لہذا رسول اکرم اگر چاہتے تو بادشاہت مانگ لیتے مگر اپنے بھائی کے الفاظ کی لاج رکھ لی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے اپنے لیے غربت کو ہی پسند فرمایا، چاہتے تو احد کے پہاڑ کو سونے سے بدل دیاجاتا. رہا پیسے کا معاملہ کہ اللہ نے لوٹ مار کرکے مال غنیمت اکٹھا کرنا لکھ دیا تو جناب لفظ اللہ تمہارے لیے اجنبی ہونا چاہیے کہ تم تو اسے مانتے ہی نہیں، چونکہ اب تم نے نام لیا ہے تو جس اللہ کی تم بات کر رہے ہو اسی مال غنیمت میں جو رسول کا حصہ تھا وہ دراصل جس اللہ نے نبی کی قسمت میں لکھا تھا یہ دراصل اسی کا حصہ ہوتا تھا۔ جس میں اللہ کے نبی کو حصہ ملتا، غریبوں مسکینوں کو حصہ ملتا اور بیت المال کی ضروریات پوری کی جاتیں۔ اور پہلی جنگوں میں تو کیا، آج بھی جنگوں میں یہی رواج ہے کہ دشمن فوج جب شکست کھائے یا فوجی مرجائیں تو مقابل فوج ان کا اسلحہ سامان، پیسہ، کام کی چیزیں اٹھا لے جاتی ہے۔ وہ انھی کا تصور ہوتا ہے۔ اسلام نے اسے مال غنیمت کا نام دیا ہے، اور باقی اقوام جو مرضی نام دیں وہ ان کی مرضی۔ اور اگر تم غزوہ بدر سے پہلے ابوسفیان کے تجارتی قافلے کی بات کرتے ہو تو اللہ نے تم سے پہلے ہی اس کی مذمت فرما دی تھی۔ لہذا اسے چوری ڈاکے کا مال کہنا ہی مذہبی اور حربی اصولوں کےاعتبار سے بالکل غلط ہے۔
۵۔ آگے کہتے ہو کہ اسماعیل کو اللہ نے خنجر کے نیچے سے بچا لیا اور محمد کے نوزائیدہ بچے کو چھین کر باپ کو بلکتا ہوا چھوڑ دیا۔
حضرت اسماعیل کا واقعہ اگر تم نے پورا پڑھا ہو تو تمہیں معلوم ہو کہ حضرت ابراہیم کو متواتر خواب آتا رہا کہ میں بیٹے کو ذبح کررہا ہوں۔ سو بیٹے سے رائے پوچھی تو بیٹا سمجھ گیا کہ باپ چونکہ نبی ہے لہذا وحی سمجھ کر سرتسلیم خم کردیا۔ اللہ نے دنیا کو یہی دکھانا تھا کہ اسماعیل کو آگے نبوت سے سرفراز کرنا ہے تو اس کا اپنے رب پر کتنا یقین تھا۔ تمہاری طرح ننھا اسماعیل ملحد تھوڑی تھا، اور ابراہیم علیہ السلام کو ایک مثال کے طور پر پیش کرنا بھی مقصود تھا کہ ایک باپ اپنے مالک کے کہنے پر کس طرح اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔ اوراسماعیل و ابراہیم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہی یہ سنت ابراہیمی آج تک جاری ہے جو تم لوگوں کو کسی صورت ہضم نہیں ہوتی۔سارا سارا سال غریبوں کا احساس نہیں ہوتا، اپنے پاس سے دھکے دے دے کر نکلواتے ہو، ہوٹلوں میں مہنگے کھانے کھاتے ہو، مہنگی گاڑیاں، موبائل خریدتے ہو مگر قربانی کے موسم میں غریبوں کا احساس تمہیں دن رات چین کی نیند نہیں سونے دیتا۔ رہا نوزائیدہ بچے کی وفات کا معاملہ تو جواب حاضر ہے کہ چونکہ محمد رسول اللہ کے آخری نبی تھے۔ اور نبوت کو یہیں ختم کرنا مقصود تھا، چونکہ عورتوں میں نبوت منتقل نہیں ہوتی لہذا لڑکیاں زندہ رکھیں۔ اور نبی کی ساری نرینہ اولاد اٹھا لی گئی کیونکہ آگے نبوت کا سلسلہ ختم کرنا مقصود تھا۔ جس طرح دائود کے بعد سلیمان۔ ابراہیم کے ساتھ اسماعیل، لوط، یحی، زکریا اور عیسی، اور اسحاق، یعقوب، یوسف علیہم السلام کو نبوت ملی۔ اگر نرینہ اولاد زندہ ہو تو عموما نبوت منتقل ہوتی ہے لہذا محمدﷺ پر نبوت کوختم کرنے کے لیے ساری نرینہ اولاد اللہ نے اپنے پاس بلا لی۔ اس لیے تمہیں محمد ﷺ کے لیے اتنا دکھ اور درد محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔
۶۔ آگے معترض ہو کہ یونس کو مچھلی کے پیٹ سے تو بچا لیا مگر عائشہ کی گود میں سر رکھے محمد ﷺ کی دعا نہ سنی اور وہ فوت ہوگئے۔
قارئین کو کس غلط فہمی میں مبتلا کرنا چاہتے ہو کہ کیا محمد ﷺ اپنی طویل عمری کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ نہیں بالکل نہیں، سیرت کی کتابیں لو، مطالعہ کرو، پھر بتاؤ کہ رسول پاک ﷺ نے کس دن اپنے رب سے گڑگڑا کر دعا کی کہ میری موت مؤخر کردے۔ اور جب موت قریب آئی تو لبوں پر دعا تھی اللھم بالرفیق الأعلی اللھم بالرفیق الأعل ی۔ترجمہ تو تم مجھ سے بہتر جانتے ہو گے کیونکہ قرآن پر بھی اعتراض تمھی نے کیا تھا کہ قرآن میں گرائمر کی غلطیاں ہیں، لہذا اس کا ترجمہ تم بھی کرلو گے۔ اور رہی دوسری بات کہ محمد ﷺ کی دعاؤں میں اکثر یہ دعا شامل رہتی تھی کہ اے اللہ میں تجھ سے بڑھاپے اور لمبی عمر سے پناہ مانگتا ہوں، لہذا تمہارے اعتراضات صرف عامی لوگوں کو دین اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ہیں۔ اکثریت اپنی نبی ﷺ کی زندگی اور دعائوں سے واقف ہے.
۷۔ پھر اعتراض کیا کہ دائود و یعقوب کی اولاد کی عمریں اتنی زیادہ تھیں اور محمد ﷺ کی اولاد کی عمریں تھوڑی سی تھیں۔ اور فاطمہ بھی بیس سال سے کم عمر میں وفات پاگئیں۔
میرے خیال میں اس کا جواب پہلے گزر چکا ہے۔ پہلے خدا کے وجود کو مانو اور پھر بات کرو وگرنہ چونکہ تمہارے نزدیک خدا کا وجود نہیں ہے، لہذا چونکہ دنیا خود بنی ہے، انسان خود بنا ہے تو منطقی طور پر انسان کو مرنا بھی خود ہی چاہیے اور اپنی مرضی کرنی چاہیے اور تمہیں معترض بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اور جو خدا کے منکر نہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ اس اللہ کے ہی فیصلے ہیں جسے چاہے ہزار سال یا 950 سال سے نوازے اور چاہے تو 63 سال سے نوازے یا جتنی مرضی عمر دے. اس نے پیدا کیا ہے تو مارے گا بھی وہی اور وہ بھی اپنی مرضی سے۔ تم کون ہوتے ہو اس ذات پر معترض جس کے وجود کے تم ویسے ہی انکاری ہو۔ رہا سیدہ فاطمہ کی عمر کا مسئلہ تو جب تمہیں اسلام سے کوئی انسیت نہیں تو تم سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درد میں اتنا ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہو۔ تم صرف اپنی فکر کرو۔
۸۔ آگے اعتراض ابھرتا ہے کہ موسی سے ملاقات کے لیے اللہ بنفس نفیس زمین پر چلے آئے اور رسول اللہ کی کے لیےاتنے لمبے سفر کے لیے خچر بھیج دیا۔ توبتاؤ رسول اللہ کی کیا حالت ہوگی اللہ کو ترس نہیں آیا اتنا تھکا کر؟
امجد! اگر تم نے تاریخ پڑھی ہو، یقینا پڑھی ہوگی مگر نہیں نہیں، تاریخ کو چھوڑو، حدیث کی طرف آؤ تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ تم بھلے حدیث کا انکار کرو، تاریخ کا انکار کرو مگر دال تھوڑی سی کالی نہیں بلکہ پوری ہی کالی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب نبی کریمﷺ پر تم جیسے لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ انھین سرداریاں چاہیے تھیں، ایمان لانے پر پیسہ ڈوبتا نظر آتا تھا، سو ایسے لوگوں کی چھان پھٹک کرنے کے لیے ہی اللہ نے اہل ایمان اور غیر مسلموں کا امتحان لینا چاہا کیونکہ یہی وہ لوگ تھے جو نبی کو نبوت سے پہلے صادق و امین کہا کرتے تھے مگر نبوت کے بعد دشمن ہوگئے۔ اب ان کا مزید ایمان ٹٹولنے کے لیے اور دنیا کو دکھانے کے لیےاللہ نے اس سفر کا انتظام فرمایا۔ اس میں دو چیزیں پوشیدہ تھیں۔ایک تو نبی کو مقام اعلی عطا کرنا، نبی کو جنت، جہنم، سدرۃ المنتھی، اور انبیاء سے ملاقات کروانا مقصود تھا۔ اور دوسرا باقی تمام انبیاء کو محمدﷺکے پیچھے بطور مقتدی کھڑا کرکے محمدﷺکی شان میں اضافہ کرنا بھی مقصود تھا۔ حضرت موسی کو یہ نصیب نہیں ہوا. اور اللہ کبھی زمین پر نہیں آئے، طور پر بس تجلی ہی کی جس کی وہ تاب لایا نہ حضرت موسی، اور رب جب چاہے نبی سے ہم کلام ہو سکتا تھا، کہ وہ تو ہماری شہ رگ سے زیادہ ہم سے قریب ہے. لہذا امجد حسین تم خود ہی بتاؤ ایک شخص کے ساتھ صرف اس کا مالک ہم کلام ہو بس۔ اور دوسرے شخص کو اپنے خاص بندوں کا امام بنادے، پھر اسے وہ سواری دے جس کا اگلا قدم اس کی نظروں تک جائے، اسے سدرۃ المنتھی کی طرف لے جایا جائے، جنت جہنم دکھائی جائے اور پھر آگے اس مقام پر بھی لے جایا جائے جہاں نوری مخلوق کے پر جلتے ہوں اور فرشتے مرحبا کہہ کر استقبال کریں۔ انبیاء سے ملاقات ہو، اللہ سے ہمکلام ہو، پھر راتوں رات واپس آجائے۔ اگرچہ محمدﷺ نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فوقیت دینے سے منع فرمایا ہے مگر تمہارے اعترض کا جواب ایسے ہی بنتا ہے۔ تو تم خود ہی بتاؤ امام الانبیاء اور محبوب خدا کون ہوا؟
۹۔ نواں اعتراض یہ کہ اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ایک سے بڑھ کر ایک معجزے دیے۔ مثلاًحضرت ابراہیم کو آگ کو گلزار بنانے کا معجزہ دیا، حضرت موسیٰ کے عصا کو سانپ میں تبدیل ہونے اور سمندر میں راستہ نکالنے کا معجزہ عنایت کیا، حضرت عیسیٰ کو لوگوں کو مسیحا بنایا جو بیماروں کو شفا، مردوں کو زندہ، اندھوں کو آنکھیں عطا کرتے تھے، حضرت نوح کو ایک ایسی کشتی بنانے کا معجزہ دیا جس میں تمام جن و انس اور جانور و پرندے اور حشرات الارض وغیرہ سما سکیں، حضرت سلیمان کو جنوں اور جانوروں سے رابطہ پیدا کرنے کا معجزہ بخشا۔ لیکن جب امام الانبیا نے معجزہ طلب کیا تو اللہ نے جواب دیا کہ ’’قرآن آپ کا معجزہ ہے‘‘۔ ایک ایسی کتاب جس کے تضادات اور بچگانہ سائنسی توجیہات پر اب تو لونڈے لپاڑے بھی ہنستے ہیں۔
ارے امجد! علمی بددیانتی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے مگر تم لوگوں کو بددیانتی کی ایسی لت پڑی ہے کہ چھوڑے چھوٹتی نہیں۔ ویسے ان تمام معجزات کا ذکر انھی مذہبی کتابوں میں ہے نا جنھیں تم مانتے ہی نہیں. تم نے سارے انبیاء کے معجزات تو ایک ایک کرکے گنوادیے مگر محمدﷺ کی باری آئی تو صرف ایک قرآن مجید کا ذکر کرکے اپنا منہ بند کرلیا اور قلم کو جنبش دیتے ہوئے شاید کچھ شرم سی آنے لگی۔ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ رسول اللہ کو چاند کے دو ٹکڑے کرنے کا معجزہ بھی عطا ہوا۔ چند بندوں کا کھانا سینکڑوں لوگوں کو کفایت کرتا، پانی میں برکت پڑ جاتی، ہاتھوں سے چشمے پھوٹ پڑتے۔ اور سلیمان کی جانوروں کی بولی کا ذکر کیا تو اس اونٹ کا واقعہ بھی بتلاؤ کہ جس نے آ کر رسول اکرمﷺ کو مالک کی شکایت کی، اور آپ نے مالک کو بلایا اور بتایا کہ تمہارا اونٹ تمہاری شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے تھکاتے زیادہ ہو، خوراک کم دیتے ہو. (ابو دائود:2549)۔ وہ معجزہ بھی بتاؤ جب رسول اللہ قضائے حاجت کے لیے علیحدہ جگہ گئے تو دو درخت آپس میں مل گئے اور اوٹ بنادی، آپ کی فراغت پر اپنی اپنی جگہ واپس چلے گئے۔ باقی رہا قرآن کے تضادات کا مسئلہ اور سائنسی توجیہات کا تو شنید نہیں کہ وہ لونڈا لپڑا تم خود ہو یا تمہارے مکتبۂ فکر کے لوگ ہی ہوں۔ جا کر پوچھو ان سائنسدانوں سے جو تمہاری طرح قرآن کی توجیہات کو غلط کہنے تو نکلے مگر بعض میں سچائی کی جستجو ہوتی ہے تو وہ خود مسلمان ہوجاتے ہیں یا حیران رہ جاتے ہیں اور سچائی کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ پاتے۔ مگر تمہارے جیسے لونڈے لپڑے کسی کھاتے کے نہیں رہتے۔ بلکہ ’’کالانعام بل ھم اضل‘‘ تم تو جانوروں سے بھی گئے گزرے ہو۔ تمہاری وہی حالت ہے’’نہ کھیڈنا اے نا کھیڈن دینااے‘‘یعنی اپنے لیےتو ہدایت مقصود نہیں تو دوسروں کے لیے بھی نہیں.
۱۰۔ آخری اعتراض ہے کہ سلیمان کو جانوروں کی بولی سکھا دی مگر رسول اللہﷺ کو مادری زبان میں بھی پڑھنے لکھنے کی صلاحیت نہیں دی، تو کیا اب بھی رسول اللہ ﷺ امام الانبیاء اور خدا کے محبوب ہیں؟
بجا کہا کہ محمدﷺ کو مادری زبان لکھنی آتی تھی نہ پڑھنی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر نبی کو اس کے زمانے اور لوگوں کے ذہن، ان کے رجحانات کے مطابق بھیجا جاتا ہے، انہیں ایسی صفات سے متصف کیا جاتا ہے جو دوسروں سے ممتاز ہوں۔ جیسے حضرت عیسی، موسی علیہما السلام وغیرہ کا معاملہ ہے۔ قرآن کو معجزہ اسی لیے ہی نہیں کہا گیا۔ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ اس وقت کے لوگ ادب ونثر، شاعری اور پڑھنے لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اگر محمدﷺ کو پڑھنا لکھنا سیکھنا ہوتا تو چنداں مشکل نہ تھا۔مگر نہ خود رسول اکرمﷺ نے سیکھا نہ اللہ نے حکم دیا کیونکہ اگر پڑھنا سیکھ لیتے تو تمہاری جنس کے لوگوں کا پہلا الزام ہی یہ ہوتا کہ چونکہ پڑھا لکھا ہے لہذا یہ کلام الہی نہیں بلکہ یہ اسی کا گھڑا ہوا کلام ہے۔ لہذا آپ کے پڑھے لکھے نہ ہونے کے باوجود بھی لوگوں نے نہ بخشا اور الزام لگایا کہ یہ ایک لوہار کے پاس آتا جاتا ہے، لہذا اس سے سیکھا ہے اور آگے ہمیں بتاتا ہے۔ مگر وہ بھی ایسے عقل کے اندھے رہے کہ جس کے پاس سے رسول اکرم ﷺ کو آتے جاتے دیکھا، جھٹ یہ تو کہہ دیا کہ اس سے سیکھا ہے مگر یہ نہ سوچا کہ وہ لوہار خود علم و ادب و نثر اور شاعری میں مہارت رکھتا ہے بھی یا نہیں؟ اس لیے تم جیسوں کا یہ اعتراض بھی بالکل باطل ہے۔ اور تم نے کوئی حوالہ بھی تو نہیں دیا کہ سلیمان علیہ السلام بھی اپنی مادری زبان میں لکھت پڑھت کر سکتے تھے۔ جس طرح سلیمان جانوروں کی بولی سمجھتے تھے تو کیا نبیﷺنے اونٹ کی بولی نہیں سمجھی تھی۔منطقی طور پر بھی ایک مالک کے تحت کئی لوگ کام کرتے ہوں۔ ان میں تمام لوگ اپنی اپنی صفات کی وجہ سے ممتاز حیثیت رکھتے ہوں، اور ان ہی میں سے ایک ایسا شخص بھی ہو، جو ہو تو ان پڑھ مگر مالک اسے اس کی ممتاز حیثیت کی بنا پر ایک اعلی مقام دے دے تو تمھیں کیا اعتراض ہے۔ یہ اس کا اور اس کے مالک کا معاملہ ہے. مالک جسے چاہے اپنے پاس بلند مرتبہ سے نوازے اور جسے چاہے کم مرتبہ دے۔ یہ مالک پر منحصر ہے کہ وہ جسے چاہے اپنا پسندیدہ قرار دے۔
تبصرہ لکھیے