عید الاضحی قریب آتے ہی میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا پر ایسے مفکروں کی بھرمار ہوجاتی ہے جو انتہائی جذباتی انداز میں یہ پروپیگنڈا کرتے نظر آتے ہیں کہ حج و قربانی پر کروڑوں، اربوں روپے ضائع کرنے کے بجائے غریبوں کی مدد کی جائے۔ انتہائی دردناک قسم کی تصاویر اور گرافکس بنائے جاتے ہیں، تحریریں لکھی جاتی ہیں کہ ”کیوں نہ کسی کے منہ میں روٹی کا نوالہ ڈالاجائے“ کسی پھٹے پرانے کپڑے والے بچے کی تصویر لگا کر، کسی غریب کی بیٹی کو جہیز بنا کر دے دیا جائے، اور ایسی ہی بہت سی خدمت خلق کی باتیں۔
دراصل حقیقت میں ان کو تکلیف صرف یہ ہے کہ کیونکر ابھی تک اس قوم میں سنت نبویﷺ پر عمل کی کچھ رہی سہی کسر موجود ہے۔ یہ بیچارے سنت نبویﷺ کو بزور طاقت روکنے اور اس پر براہ راست تنقید کے بجائے جذباتی ماحول بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سب سے آسان ترین کام دوسروں پر تنقید کرنا اور مفت کے مشورے دینا ہے۔ یہاں ایسے ایسے غائب دماغ سکالر اور تجزیہ نگار مل جاتے ہیں کہ جن بےچاروں کو اپنے خاندان والے گھرمیں بہت کم وقت رہنے دیتے ہیں کہ یہ اپنی منفی خیالات سے سب کا سر کھاتے ہیں۔ یہاں ہر دوسرا بندہ دین اور مذہبی معاملات پر بغیر کسی تحقیق رائے دینا اپنا حق سمجھتا ہے کہ جیسے اس سے بڑا عالم تو شاید کوئی ہے ہی نہیں۔ ہمارے ہاں ایک روایت یہ بھی چل نکلی ہے کہ اگرکوئی بےچارہ رو دھو کر تھوڑا بہت پڑھ لکھ جائے تو پھر وہ انگریزی بول کر خود کو ماڈرن اور عجیب و غریب خصوصا مغربی مفکرین کے نظریات پیش کرکے خود کو روشن خیال ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ اسے اپنے معاشرے میں موجود ہر رسم و رواج اور مذہبی روایات یکدم فرسودہ اور قدامت پرستی لگنے لگتی ہے۔ ایسے میں مذہبی روایات اور عقائد کو حرف تنقید بناکر خود کو ماڈریٹ ثابت کرنا سب سے آسان ترین نسخہ ہے۔ ہمیں آج کے پاکستانی معاشرے میں ایسے ہی خود کو عقل کل سمجھنے والے نام نہاد سکالرز کا سامنا ہے جو مغربی سوچ سے اس قدر متاثر ہو چکے ہیں کہ اب ان اپنی کوئی سوچ نہیں رہی۔ یہ ہر چیز کو سیکولرازم کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ انہیں سب کچھ ہی برا لگتا ہے۔ حجاب میں دم گھٹتا ہے، داڑھی والا ہر کوئی دہشت گرد نظر آتا ہے، مدارس کو بند کرنے کی خواہش دل میں مچلتی ہے اور بہت کچھ۔
حج و قربانی کے خلاف اس پروپیگنڈے سے بہت سے لوگ متاثر بھی دکھائی دیتے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ انسانیت کے ان ہمدردوں کو غریبوں کی مدد کے لیے صرف حج و قربانی اور مذہبی عبادات ہی کیوں نظر آتی ہیں۔ حج و قربانی کا خیال تو اسی کے ذہن میں آتا ہے کہ جوزکوۃ اور صدقات جیسے فرائض ادا کر چکا ہو، صاحب استطاعت ہو۔ ہمارے یہ مغرب زدہ سیکولر مفکرین یہی مشورے اپنے ہمخیال ان امیر زادوں کو کیوں نہیں دیتے جو نیوائیر نائٹ، ویلنٹائن ڈے اور دیگر تہواروں پر کروڑوں لٹا دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کے تو صرف پرفیوم اور کاسمیٹکس کے خرچے سے کئی گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں۔ ایک سمارٹ فون کی قیمت میں کئی قربانی کے بکرے آ سکتے ہیں؟ کیا یہ لوگ فضول خرچی روکنے کے لیے سمارٹ فونز کی خرید و فروخت پر پابندی کا مطالبہ کرنے کی جرات کر سکتے ہیں؟ کیا کبھی یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ بیوٹی پارلرز اور لاکھوں روپے کا ایک ایک جوڑا فروخت کرنے والے بوتیکوں پر اخراجات کے بجائے غریب بچیوں کے گھر بسائے جائیں۔ ان کے ہاں تو شادیوں کے نام پر ہر سال اربوں روپے نمود و نمائش کی نظر ہوتے ہیں۔ یہ حج و قربانی تو انسانوں کے اپنے خالق کے ساتھ تعلق کا ایک اظہار ہیں۔ یہ گوشت اور دیگر اخراجات اللہ تعالی کو نہیں چاہیے بلکہ صرف اخلاص کی ضرورت ہوتی ہے۔
کاش حج و قربانی کو متنازعہ بنانے والے یہ سیکولر ذہن کبھی زکوۃ کی ادائیگی شروع کر دیں۔ ان کی دولت کے اس صرف اڑھائی فیصد سے اس معاشرے میں غربت کا یکسر خاتمہ ہو جائے گا۔ آج کے پاکستان معاشرتی المیہ یہی ہے کہ ایک طرف رمضان المبارک کی بابرکت ساعتوں میں دینی روایات، مذہبی شعائر کو تفریح کی نظر کرکے ان کی روح کو مسخ کر دیا جاتا ہے تو دوسری جانب قرآن وحدیث کے واضح احکامات اور سنت نبویﷺ تک کو متنازعہ بنانے اور فضول خرچی ثابت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ سیکولر حضرات مغرب کی تقلید میں ان سے بھی بڑھ کر روشن خیال بننا چاہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے