میں بارہا لکھتا رہا ہوں کہ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلز میں جو اینکر پرسن رونق افروز ہیں، وہ بزعم خویش دانائے کل ہوتے ہیں اور جس کی چاہیں پگڑی اتاریں اور جسے چاہیں جوتے کی نوک پر رکھ لیں۔ بعض شعبے حساس ہوتے ہیں، جیسے مذہب، مگر وہ اپنے آپ کو مذہب کا مصلح اعظم سمجھتے ہیں اور اس شعبے میں بھی ٹانگ اڑانا اپنی دانش کی معراج سمجھتے ہیں۔ جناب شاہ زیب خانزادہ جیو نیوز پر پروگرام کرتے ہیں، جیو والے ان کے پروگرام کو اپنے اشتہار میں سپرہٹ قرار دیتے ہیں، لہذا وہ مذہب اور اہل مذہب کو بھی ہٹ (Hit) کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ دنیا میں ستاون مسلم ممالک ہیں، ان میں قمری مہینوں رمضان المبارک، عید الفطر اور عید الاضحی کےلیے جو بھی رئویت کا سرکاری نظام ہے، اس کے مطابق حکومتی اعلان آ جاتا ہے اور لوگ اس پر عمل کرتے ہیں۔ پاکستان واحد اسلامی ملک ہے کہ جہاں ٹیلی ویژن چینلز آئے دن رئویت ہلال پر بحثیں شروع کر دیتے ہیں اور اسٹوڈیوز میں رونقین لگاتے ہیں، کیونکہ ہم ساری دنیا میں منفرد خصوصیات کی حامل قوم ہیں۔
2 ستمبر کی شب جناب شاہ زیب خانزادہ نے بڑی شد و مد کے ساتھ اپنا قیمتی وقت صرف کیا کہ مفتی منیب الرحمن نے محکمہ موسمیات کو چاند کے بارے میں اپنی پیش گوئی پبلک کرنے سے روک دیا ہے اور یہ سماں باندھا کہ گویا اس کے سبب سائنس اور علم کا راستہ روک دیا گیا ہے اور جَہل کی تاریکی کو مُسلّط کیا جارہا ہے۔ خانزادہ صاحب سے گزارش ہے کہ موجودہ دور میں چاند کی پیدائش یا امکانِ رؤیت ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے کوئی شخص دنیا والوں سے چھپا سکے یا پردہ ڈال دے۔ ہمارے ملک کی یونیورسٹیوں میں فلکیات (Astronomy) کے شعبے موجود ہیں، خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو موجود ہے، پرائیویٹ ماہرین موجود ہیں، نیٹ پر Moonsighting.com پرکوئی بھی جائے تو اُسے ساری معلومات مل جاتی ہیں۔ مجھے ہر ماہ درجنوں ماہرین امکانِ رؤیت کے حوالے سے اپنی رپورٹیں بھیجتے ہیں۔ کراچی کے ایک دینی ادارے ’’جامعۃ الرشید‘‘ میں باقاعدہ شعبۂ فلکیات موجود ہے اور ہر قمری مہینے کے آغاز سے پہلے اور بعد اُن کی تفصیلی رپورٹ ایک روزنامہ اسلام میں چھپتی ہے، دعوتِ اسلامی العالمی کے مرکز فیضانِ مدینہ میں بھی شعبۂ توقیت اور فلکیات کام کر رہا ہے، اُن کی رپورٹیں بھی ہمیں دستیاب ہوتی ہیں، خلائی تحقیقاتی ادارہ سپارکو، یونیورسٹیوں کے فلکیات کے ماہرین اور آزاد ماہرین بھی ہمیں باقاعدگی سے رپورٹیں بھیجتے ہیں۔
ہماری دینی جامعات میں تخصُّص فی الفقہ و الافتاء کے نصاب میں بھی علمِ توقیت و فلکیات کے بارے میں کورس کرائے جاتے ہیں۔ الغرض جناب شاہ زیب خانزادہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ صیغۂ راز میں ہو اور اُس پر کوئی پردہ ڈال کر لوگوں کی نظروں سے چھپا دے اور آپ اسٹوڈیوز میں اُس پر طوفان مچا دیں۔ الحمد للہ! ہم بھی اس دنیا میں رہتے ہیں اور جتنا جدید علم جناب شاہ زیب خانزادہ نے حاصل کر رکھا ہے، اتنا یا اُس سے کچھ کم اس ناچیز طالبِ علم نے بھی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہم شیشے کے گھر یعنی اسٹوڈیو میں نہیں بیٹھتے، جہاں سے ہم جس پر چاہیں چاند ماری کریں، جس کی چاہیں عزت سے کھیلیں، سب کی خبر لیں لیکن خود کسی کو جواب دہ نہ ہوں۔ ہمارے ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ آزاد میڈیا کے آنے کے بعد اب وطن عزیز میں کوئی بھی منصب یا کوئی بھی صاحب علم لائق توقیر نہیں رہا، حالانکہ مہذب و متمدن معاشروں میں اہل علم و دانش اور اہل تقوی و کردار پوری ملت کا مشترکہ اثاثہ سمجھے جاتے ہیں۔
محکمۂ موسمیات کا مسئلہ یہ ہے کہ اُس کی اصل مہارت موسم کی پیش گوئی کے حوالے سے ہے، فلکیات سے اُن کا تعلق ضمنی ہے۔ وہ ایک سرکاری ادارہ ہے اور وہ جب حساس مواقع پر ٹیلی وژن چینل پر آ کر مسلسل پیش گوئی کرتے ہیں، تو لوگوں کا ایک ذہن بنتا ہے اور بعد میں فیصلہ اُس کے برعکس آئے تو لوگ کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں اور ایک سرکاری ادارہ ہونے کی وجہ سے بعض اوقات اُن کے پیچھے سرکار کے ایما کی بدگمانی بھی کی جا سکتی ہے۔ بعض اوقات موسم کے بارے میں اُن کی پیش گوئیوں کا آپ لوگ خود مذاق اڑاتے ہیں، اخبارات میں کارٹون چھاپتے ہیں، لہٰذا اُن کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی پیش گوئی سے ہمیں مطلع کریں اور ایسا کرتے بھی ہیں۔ امکانِ رؤیت کے حوالے سے بعض چاند انتہائی حساس ہوتے ہیں اور اس کے بارے میں بعض صورتوں میں ماہرین بھی سو فیصد متفق نہیں ہوتے، جہاں امکان ففٹی ففٹی ہو، وہاں احتیاط بہتر ہے، اس سال عیدالفطر اور عیدالاضحی کے چاند کی پوزیشن یہی تھی۔
ہمارا اجلاس تو اکثر محکمۂ موسمیات کے ہیڈ کوارٹر میٹ کمپلیکس کراچی ہی میں ہوتا ہے، آپ کو پریشانی اس وقت ہوتی کہ ہمارے فیصلے اور محکمۂ موسمیات کی رپورٹوں میں تضاد ہوتا۔ ہر چاند کے اعلان کے موقع پر میں محکمۂ موسمیات کی آفیشل رپورٹوں کا حوالہ دیتا ہوں اور اس سال بھی عیدالاضحی کے موقع پر حوالہ دیا کہ پاکستان بھر میں محکمۂ موسمیات کے مراکز سے بھی باقاعدہ (Officially) عدمِ رویت کی رپورٹ دی گئی، اس کے باوجود آپ کی پریشانی اور اضطراب ناقابلِ فہم ہے۔ بس صرف شور و غوغا برپا کرنا اور قوم کو انشار میں مبتلا کرنا، کیا یہی میڈیا کی معراج ہے اور یہی ریٹنگ حاصل کرنے کا حربہ ہے۔ خدارا رحم فرمائیں، جب آپ بار بار مذہب میں دخل دیتے ہیں اور لوگ احتجاج کرتے ہیں، تو پھر آپ ہی لوگ اہلِ مذہب پر عدمِ برداشت (Non Tolerant) کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ بنیادی طور پر میٹرالوجسٹ فلکیات کے متخَصِّص (Specialised) نہیں ہوتے اور یہ کہنا کہ سو سال یا ہزار سال کی پیش گوئی کی جاسکتی ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔
جہاں تک علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریات کا تعلق ہے، اُن سے ہم واقف ہیں اور وہ بھی ہمارے نظریات سے واقف ہیں اور دونوں فریق ایک دوسرے کے دلائل سے بھی واقف ہیں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اِس ملک میں جو مسلمان پائے جاتے ہیں، ان کا ایک یا دو فیصد بھی علامہ غامدی کے مذہبی نظریات سے متفق نہیں ہے، اگرچہ ان کا لبرلزم اور آزاد خیالی آپ لوگوں کو بہت پسند ہے، مگر کیا اِس ملک کے اٹھانوے فیصد مسلمان خَس وخاشاک ہیں کہ آئے روز آپ اُن کا تمسخُر اڑائیں اور غامدی صاحب کو لے کر بیٹھ جائیں تاکہ وہ علماء کی تضحیک اور تجہیل (To consider ignorant) کریں۔ جیو ٹیلی ویژن میں چونکہ ان کے صاحبزادے جناب معاذ غامدی اعلی منصب پر فائز ہیں، اس لیے ان کا یکطرفہ طور پر پورا نقطہ نظر دیا جاتا ہے۔ تاہم میں اس حد تک علامہ جاوید احمد غامدی کا شکر گزار ہوں کہ وہ اپنے نظریاتی تفرد کے باوجود یہ بات ضرور کہتے ہیں کہ رئویتِ ہلال کے حوالے سے سرکاری اعلان ہی کو تسلیم کیا جائے۔
ہم نے اس لیے میڈیا پر مختلف موضوعات پر اپنا مئوقف دینا چھوڑ دیا کہ ہمارے چند جملے صرف مطلع کے طور پر لے لیے جاتے ہیں اور اُس کے بعد بحرِ طویل میں پوری نظم علامہ جاوید غامدی کی نشر کی جاتی ہے۔ سلمان تاثیر صاحب کے قتل کے بعد جناب میر شکیل الرحمن نے جیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ڈائریکٹر صاحبان سے میری میٹنگ کرائی، میں نے انہیں یہی مشورہ دیا کہ لِلّٰہ ! حساس مذہبی مسئلوں کو موضوع نہ بنائیں اور نہ ہی آپ مذہب کے مُحقّقین اور متخصِّصین ہیں۔ ایک کانفرنس کے موقع پر میں نے مولانا فضل الرحمن، مولانا سمیع الحق، علامہ ساجد نقوی، علامہ قاضی نیاز حسین نقوی، پروفیسر ساجد میر اور مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور تمام مکاتبِ فکر کے دیگر سرکردہ علماء کی موجودگی میں اِن حضرات سے گزارش کی کہ اپنے نوجوان علماء کو میڈیا پرامامت، خلافت، طلاقِ ثلاثہ، حلالہ، مُتعہ اور اِن جیسے موضوعات پر مناظروں سے روکیں، یہ کلاس روم کے اور اکیڈمک موضوعات ہیں، اِن کا پبلک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میڈیا والے رونق لگانے کےلیے اور محض یہ ثابت کرنے کےلیے کہ مذہب توڑنے کے لیے ہے، جوڑنے کےلیے نہیں ہے، اس طرح کے موضوعات کو وقتا فوقتا زیربحث لاتے ہیں۔ ہمارے میڈیا پرسن تو مذہب اور اہلِ مذہب کو کوس کر اپنے نفس کی تسکین کا سامان کر لیتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ آیا باقی شعبہ ہائے حیات میں پوری قوم کے درمیان مکمل یک جہتی، وحدتِ فکر اور نظریاتی ہم آہنگی ہے؟۔ ایک دوسرے پر اہلِ سیاست کی دشنام اور اتّہام و الزام تو پوری قوم ہر روز سرِشام سے نصف شب تک کسی توقُّف کے بغیر سنتی رہتی ہے۔ سو اہلِ مذہب بھی اِسی معاشرے اور اِسی زمین کے خمیر سے اٹھ کر آتے ہیں، یہ کوئی آسمانی مخلوق نہیں جو پیراشوٹ سے اتر کر زمین پر آئی ہو۔
رؤیت ہلال کے حوالے سے علامہ جاوید احمد غامدی کے نظریے پر بارہا لکھ چکا ہوں۔ اُن کے نزدیک ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو‘‘ والی حدیث میں ’’رؤیت‘‘ علم کے معنی میں ہے، لہٰذا اُن کے نزدیک جب سائنسی علم سے قطعی طور پر معلوم ہو جائے کہ چاند پیدا ہوگیا ہے، اگرچہ عملی رؤیت کا دور دور تک کوئی امکان نہ ہو، تو قمری مہینہ شروع ہوجائے گا۔ لیکن ہماری فقہ کا اُصول یہ ہے کہ جب تک کسی لفظ کو اُس کے حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہو، مَجاز کی طرف نہیں جائیں گے اور رؤیت کا حقیقی معنی ’’آنکھ سے دیکھنا‘‘ ہے اور علم اُس کا مجازی معنی ہے۔ پس رؤیت کو حقیقی معنی پر محمول کرنا ممکن ہے اور پاکستان میں پائے جانے والے تمام مکاتب فکر کی فقہ میں یہی معتبر ہے اور اہلِ پاکستان کے تمام مذہبی مکاتبِ فکر کی غالب ترین اکثریت اسی نظریے کی حامی ہے۔ سو آپ آزاد ہیں، اپنے نفس کی تسکین کے لیے انہیں جاہل کہہ دیں، دقیانوسی کہہ دیں، گزرے ہوئے وقتوں کے لوگ کہہ دیں، جس گالی سے آپ کے دل کو تسکین ملے نواز دیں، لیکن آج کی تاریخ تک اِس خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے فقہی نظریات یہی ہیں۔
تبصرہ لکھیے