ہوم << مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟ - شہزاد احمد شانی

مسئلہ کشمیر: حل کی راہ میں رکاوٹ کون؟ - شہزاد احمد شانی

مسئلہ کشمیر کے حل کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کون ہے؟ جب اس سوال کے جواب کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں، تو گلوبلائزیشن کی فرضی ڈیفی نیشن پہ ہنس پڑتا ہوں اور اقوام عالم کے نام نہاد دعوؤں اور نعروں کو تعصب کے خمیر میںگوندا ہوا پاتا ہوں۔ اپنی سادہ دلی اور سادہ لوحی پہ رونا آتا ہے! اور اس پہ طرہ یہ کہ ہم نے اپنا مقدمہ موثر انداز میں شاید ان فورمز پہ اٹھایا ہی نہیں۔۔۔!
مسئلہ کشمیر تین کرداروں کے گرد گھوم رہا ہے:
انڈیا :
جو کشمیر پہ ناجائز قبضہ کو برقرار رکھنے پہ بضد ہے اور اس ہٹ دھرمی پر انسانیت کے رشتہ کو بھی بھول چلا ہے۔ اگرچہ یہ جنگ اسے مالی اعتبار سے وہاں پہنچاگئی ہے کہ جہاں اسے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق دینے کے وسائل کی عدم دستیابی کا سامنا ہے۔۔۔ کشمیری تو بارود کی بو میں سانس لینے پہ مجبور ہیں ہی، لیکن ہندوستانی شہری بھی بھوک اور ننگ کی نذر ہوئے ہیں!
کشمیری عوام :
ایک حصہ تو آگ اور خون سے گزر رہا ہے اور دوسرا تقریباً خواب غفلت کا شکار۔۔۔ مظفرآباد گزشتہ دہائیوں سے بیس کیمپ کے حقیقی رول سے محروم رہا ہے۔ برہان وانی کی شہادت، مقبوضہ وادی میں نوجوانوں کی حالیہ موومنٹ اور بھارت سرکار کی بوکھلاہٹ ہی کشمیر کی تحریک کو فیصلہ کن موڑ پہ لے گئی!
پاکستانی سرکار:
جو تقریباً ہر دور میں کشمیر کے نام کو اپنے مخصوص ایجنڈے کے لیے استعمال کرتی رہی اور من گھڑت آپشنز کی نذر ستر سال کرگئی۔ جو بدقسمتی سے آج تک کوئی مستقل، پائیدار اور کشمیریوں کی امنگوں کی ترجمان پالیسی بنانے میں ہی کامیاب نہیں ہوسکی۔۔۔
پاکستانی سرکار کی سنجیدگی کا اندازہ اس سے لگالیں کہ 29 اگست کی شب دنیا نیوز کے پروگرام ”آج کامران خان کے ساتھ“ میں جب اینکر نے حالیہ تشکیل پائے جانے والا 22 رکنی وفد (جو مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پہ اجاگر کرنے کے لیے بیرونی دنیا کے وزٹ پہ جانے کو ہے) کے ایک ممبر پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی نواب علی وسان سے پوچھا کہ مسئلہ کشمیر ہے کیا؟ محبوبہ مفتی کون ہیں؟ شملہ معاہدہ کیا ہے ? اور لاہور ڈیکلریشن کیا تو ان کے پاس مضحکہ خیزی کے سوا کچھ نہ تھا۔
جس فرد کو کشمیر کی الف، ب سے واقفیت نہیں وہ دنیا کو کیا قائل کرے گا؟ جس کو یہ نہیں پتا کہ محبوبہ مفتی کون ہے؟ کشمیری چاہتے کیا ہیں؟ وہ سیر سپاٹے کے علاوہ کیا کرپائے گا۔۔۔ حکومت وقت اگر واقعی سنجیدہ ہے تو آخر کیوں صدر ریاست آزادکشمیر مسعود خان کو اس کمیٹی کی سربراہی نہیں دی؟ جو سالوں انٹرنیشنل فورمز کا تجربہ رکھتا ہے؟ کشمیری سیاسی قیادت کو کیوں اس اہل نہیں سمجھا گیا کہ وہ بھی اس کمیٹی کے ساتھ جاتے اور دنیا کے سامنے اپنا درد اور دکھڑا رکھتے؟ حریت رہنماؤں پہ کیوں اعتماد نہیں کیا گیا؟ کیا ان سے زیادہ درد اور کرب کسی اور کو ہے۔۔۔؟؟؟
آخر اس کمیٹی کا ممبر بننے کی اہلیت کیا تھی؟ کیا محض یہی کہ ممبر، کشمیر کے حوالے سے کچھ بھی نہ جانتا ہو!! حکومت پاکستان کا ایک ہی احسان کیا کم تھا جو مولانا کو تحفے میں کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ سالوں سے دے رکھی ہے۔۔۔ اب مزید 22 رکنی وفد بناکر ایک اور احسان کردیا گیا۔۔۔
پاکستانی دفتر خارجہ کو جب تک کشمیریوں پہ اعتماد نہیں آئے گا۔۔۔ جب تک اسلام آباد سرکار مظفرآباد اور سرینگر کو اس ضمن میں ایک طرح کا وزن نہیں دے گی ۔۔۔ جب تک میڈیا غیر ضروری بحثوں سے باہر نہیں نکلے گا۔۔۔ جب تک کشمیری عوام رنگ برنگے نعروں کی نذر رہیں گے اور رائے شماری جیسے بنیادی سوال کے بجائے آگے کی تاویلیں پہلے پیش کرنے کی سعی لاحاصل میں جتے رہیں گے۔۔۔ تب تک خونیں لکیر کے پار کشمیری اپنی ایک اور نسل آگ و خون کے اس کھیل کی نذر کردیں گے۔۔۔

Comments

Click here to post a comment