صدیاں بیت گئیں اور جانے کتنی صدیاں ابھی اور بیتتی جائیں گی۔ وقت کے پلوں تلے سے جانے کتنا پا نی گزر ا او رزمانے کی مٹھی سے جانے کتنی ریت سرکنا ابھی اورباقی ہے ۔کچھ چیزیں مگر کبھی جانی نہ جاسکیں اور کچھ چیزیں کبھی کوئی جان نہ سکے گا۔
کائنات انسان مسخر کرتا گیا ، یہاں تک کہ کائنات نے اپنے گلے میں انسانی عقل کا پٹا پہن لیا اور اپنی ساخت میں عجوبہ ہوتی یہ دنیا انسانی دستِ ہنر مند کی مطیعِ منقاد ہوتی گئی۔ ہاتھی سے گرانڈیل جانور نے اپنی ناک میں انسانی مہارت کی مہار پہنی۔ دریا کا زورو شور انسانی عقل کے حضور پانی ہوا۔ زمیں و آسمان کے درمیاں معلق فضا نے انسانی پروازِ تخیل کے حضور اپنی ہار مان لی اور عقلِ انسانی کے ٹائی ٹینک کے سامنے سمندر زمیں سے بڑھ کر ہموار اور سازگار ہوگیا۔
اس سب کے باوجود کچھ عجوبے، مگر آج بھی انسانی عقل و دریافت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جیسے مثلاً اہرامِ مصر اور جیسے مثلاً بائبل کے ابراہام! وہ ابراہام کہ قرآن نے جنھیں ابراہیم کہا۔ ابراہام! کہ جس جیسا کوئی دوسرا انسان کبھی کسی انسان نے نہیں دیکھا۔ گو کبھی کوئی کسی دوسرے جیسا نہیں ہوتا۔ ابراہیم جیسا تو مگر قطعاً نہیں، کبھی نہیں۔ کوئی نہیں۔ ہر گز نہیں۔ وہ ایک اکیلا شخص تھا، قرآن کی فصاحت نے جسے پوری قوم قرار دیا۔ دنیا میں بابائے قوم ہوتے ہیں اور قومیں ہوتی ہیں۔ ایک شخص مگر جو قوم ہو، وہ بس ایک ہی ہوا، ابراہام! جو ایک شخص تھا مگر ایک نیشن! کبھی آدمی سوچتا ہے۔ ابراہام ہوں یا ابراہیم کیا واقعی یہ ایک شخص ہی کانام ہے۔ یعنی ہم ہی جیسے جیتے جاگتے، گوشت پوست کے جذبات و احساسات رکھنے والے ایک شخص، ایک فرد اور ایک انسان کا نام!
پاکستان سے 2445 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہوتے عراق (تب بابل) کے اُر شہر میں پیدا ہوئے تووہ دیس کتنا عجیب تھا۔ لوگوں کے باپ خدا ترس ہوتے ہیں۔ ان کاباپ خدا تراش نکلا۔ ایسا کہ گھر گھر میں ہر سائز کا آزر میڈ بت انسانی عقل و عبادت کا استہزا اور خدائی حقوق پر علی الاعلان ڈاکہ مارا کرتا۔ کیا شخص تھا یہ ابراہام بھی۔ ہوش سنبھالتے ہی تلا شِ خالق میں اس نے انسانی نارسائی و ٹھوکر کا پورے اعتماد سے تنِ تنہا انکار کردیا۔ نہیں، ہم نہیں سمجھیں گے۔ جہاں پوری قوم کی اجتماعی مذہبی ٹھوکر کے خلاف سوچنا بھی گناہ ہو، وہاں کمال استقامت و جرات سے عملاًڈٹ جانا، اورپھربیباکانہ جرات سے ڈٹ ہی نہیں جانا، بلکہ کمال فراست اور حکمت سے اپنا موقف قوم کی نفسیات کے عین مطابق پیش کرنا۔ زمیں ایسا عبقری بھی کم دیکھتی ہے۔ ایک پوری قوم کی دانش کے برعکس، ان کی مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے ابراہام ڈٹ گئے، ابراہام پوری قوم ہی نہیں قوم سے بڑھ کرتو یہیں ثابت ہوگئے۔ لیکن یہ تو ابھی کہانی کا آغاز ہے۔ صدیوں تک ہر الہامی مذہب میں بطور ہیرو ذکر ہونے والے ابراہام کی ever greenکہانی کا آغاز۔ یہ جو آج ہم جدالانبیا ء کی قربانی کی یاد میں قربانی کرتے ہیں تو جان لیجیے کہ اس شخص کی زندگی پر کہیں بھی انگلی رکھیے، بخدا کوئی ایک بال بھی شاہکار قربانی سے خالی نہ ہوگا۔
ایک انسان کا مادی سرمایہ کیا ہے؟ پیارا گھر، محبوب وطن اور جان سے عزیز رشتے، والدین اور دوست۔ جن میں سے ہر ایک زندگی کی آکسیجن ہے۔ ان میں سے کچھ بھی ذرا ساکم ہوجائے تو اتنی ہی زندگی بھی کم ہوجاتی ہے۔ باپ کی محبت اور ماں کا پیار، محلے کی یادیں اور وطن کا اعتبار، عمرِ گزراں کی کسک اوردل میں بستے یار۔ زندگی کے لطف اور معاش کے کاروبار۔ کیا زندگی اور کامیابی کا اس کے سوا بھی کوئی نام ہے؟ ابراہیم نامی نوخیز لڑکے نے مگریہ سب یوں بے دریغ قربان کردیا کہ آسمان کے نیچے آسمان والے کے سوا کوئی سہارا نہ تھا۔ انھوں نے مگر ایک خندۂ لب سے زندگی کے سب رنگ اپنے محبوب و معبود پر وار دئیے
وہ بھی کیا خیرات جو گھر میں نہیں تھا
تو نے تہی دستوں کی سخاوت نہیں دیکھی!
خون، محبت اور مفاد کے کسی ایک رشتے، زمیں کے کسی ایک گز اورکرنسی کے کسی ایک صفرکے لیے عمر بھر رنجیدہ رہنے والے، کیا واقعی ہم ابراہیم کی قربانی کا احساس کرتے ہیں؟؟
افرادِ خانہ اور دشمن ہوئی قوم کے مقابل اس لڑکے کی جرات او رذہانت اللہ اللہ! معبد میں گھسے اور قوم کے الاہوں کی لہلہاتی کھیتی ویران کرڈالی۔ مشکل کشاؤں کو مشکل میں ڈال کے اور آلۂ جرم بڑے کے کندھے پر ٹکاکے سب سے بڑے مشکل کشا کوعین دائرہ تشکیک میں لا کے کچھ اور ہی بے بس کرڈالا۔ کہنے کویہ بھی اک کہانی ہے، مگر جرأت و ذہانت اور منصوبہ بندی کی کیسی لازوال کہانی! پھر ایک دن وہ تھا کہ باپ کے ہاتھ میں پتھر اور قوم کے ہاتھ میں اس لڑکے کے خلاف سنگینیں تھیں
میں کل جس کے ہاتھ میں پھول دے کے آیا تھا
آج اس کے ہاتھ کا پتھر میری تلاش میں ہے
باپ کے ہاتھ کا پتھر، گویا شبلی کے ہاتھ کا پھول تھا، کیا کیا نہ اس لڑکے کے دل پر بیت گئی ہوگی کہ جب دنیا کے پتھروں کے سامنے ڈھال بننے والا باپ کا معتبر رشتہ بھی اپنا پتھر الگ لیے کھڑا تھا۔ اللہ اللہ مگر حلیمی و حکمت اور توازن و ضبط کی وہ توانانی ابراہیم کی۔ ایسے باپ کے لیے بھی لب پہ دعا تھی، آنکھ میں پسرانہ حیا تھی اور اسی پتھر بہ کف باپ کی سلامتی کی ابراہیم کو کیسی چنتا تھی۔ دعوت ہی نہیں زمانے کو ابراہیم سے حکمت ووفا اور توازن کی اد ابھی ابھی سیکھنا ہے۔ تھانیدار کے آگے جن کی ٹانگیں کانپیں، وہ نمرود کے دربار میں بائبل کے لڑکے ابراہام کو دیکھیں تو سہی کہ وہ کس بے نیازی سے تمکنتِ شاہی کا کھڑا اڑاتا ہے مذاق۔ کہا، تو رب ہے تو نکال سورج مغرب سے۔
یوں دلاور ابراہیم کی فراست کے آگے نمرود سا زندہ رب بھی، معبد میں بکھرے الاہوں کے سپیئر پارٹس کے درمیان شانے پہ کلہاڑا ٹکائے مجرمانہ کھڑا بے بس رب ہوگیا۔ پھر جس سمے غلیل میں پڑا ا س ابراہیم کا پھولوں سے پیارا اور سونے سے قیمتی جسم آسمان چھوتی آگ میں جانے کوبس اک کھینچ کی دوری پر تھا۔ابن قیم نے لکھا تب جبرئیل نے پوچھا ، کوئی حکم ؟ کہا ، جس نے مجھے خلیل بنا رکھا ہے، اسی کے بھیجے آئے ہویا خود سے ہی چلے آئے ہو ؟ کہا خود سے۔ کہا توبس چلے جاؤ، تمہارا دل پسیج گیا ہے تو جس کے نام پر میں نے یہ احوال بنارکھاہے وہ بھی تو دیکھتا ہے، جاؤ اور اسے ہی بروئے کا رآنے دو۔ کیا وہ واقعی ابراہیم تھا، نہیں، اللہ کی قسم ہرگز نہیں، وہ سراپا ئے ایمان تھا اور کچھ نہ تھا۔
یہ ایک اور منظرہے۔آج کے سے جدید اوزار تھے اور نہ بی ایم ڈبلیو سے لگژری موٹر کار۔ ایک گدھے پر یاشاید ایک اونٹ پر یا کیا جانئے پا پیادہ ہی اپنے وطن سے بیوی او ربھتیجے کے سنگ یوں نکلے کہ شام و فلسطین و مصر میں مہاجرانہ و مسافرانہ بہ نامِ خدا گھوما کیے
طعنہ زن تھا ہر کوئی ہم پہ دلِ ناداں سمیت
ہم نے چھوڑا شہرِ رسوائی درِ جاناں سمیت
آہ وہ ابراہیم کہ جو صحیفوں کا عنوان ہے او ریہاں دامنِ ”پاکستان“ سے مانگا،گنتی کے لفظوں پر مشتمل کالم کا مفلسانہ ساماں! یعنی
کتھے مہر علی، کتھے تیری ثنا!
جبکہ حق تو یہ ہے کہ
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے
تبصرہ لکھیے