قرآن حکیم نے تین طرح کے انسانی نفوس کا ذکر کیا ہے۔ نفس امارہ، نفس لوامہ اور نفس مطمئنہ، ان تمام نفوس کا الگ الگ کردار انسان کے فکر و عمل سے ظاہر ہوتا ہے۔ تاہم معاشرے کے سطحی مشاہدے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد ’’ نفس امارہ‘‘ کی اسیر ہوتی ہے۔ یہ نفس اتنا مؤثر اور قوی ہے کہ انسان اس کے پھیلائے ہوئے جال سے خود کو نکال ہی نہیں پاتا۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خالق کائنات نے انسان کو زندگی بخشتے وقت اس کی ذات میں فسق و فجور یا نیکی اور بدی کے میلانات رکھ دیے ہیں، ارشاد ربانی ہے:
’’پھر اس کو بدکاری ( سے بچنے) اور پرہیز گاری کرنے کی سمجھ دے دی‘‘ (الشمس ۸) اسی سچائی کا اعتراف اللہ کے ایک جلیل القدر نبی یوسف علیہ السلام نے خود کو بدی کے ارتکاب سے بچنے کے بعد ان الفاظ میں کیا: ’’ اور میں اپنے آپ کو پاک صاف نہیں کہتا کیونکہ نفس (امارہ انسان کو) برائی سکھاتا ہے۔ مگر یہ کہ میرا اللہ رحم کرے‘‘( یوسف ۵۳)
خالق ارض و سماوات نے نیکی اور بدی کے میلانات ودیعت کیے تو اس کو نیکی و پار سائی کا فہم اور برائیوں سے اجتناب کر نے کا شعور بھی عطا کر دیا، اسے سننے والا اور دیکھنے والا بنایا۔ ارشاد الہی ہوا: ’’ کان اور آنکھ اور دل، ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہوگی‘‘ ( بنی اسرائیل ۳۶) اور اسی غرض سے اللہ نے ارسال کتب اور انبیاء و رسل کی آمد کا ایک طویل سلسلہ جاری کر دیا، جو محمد الرسول اللہ ﷺ پر منتج ہوا۔ لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ کی ہدایت کے اس سلسلے سے بہت قلیل تعداد نے فیض حاصل کیا، نفس امارہ کی خباثتوں نے نیکی اور پرہیز گاری کے رستے میں ہزار ہا رکاوٹیں حائل کر دیں۔ کیونکہ دنیا کی زیب و زینت میں جو اللہ نے ایک امتحان انسان کے لیے رکھا ہے اس میں پورا ترنے کے لیے بہت بڑے مجاہدے کی ضرورت ہے۔ سورۃ المک کی آیت ۰۲ میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا: ’’ اسی (اللہ) نے موت و زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے‘‘۔ چنانچہ ہماری موت اور زندگی کے درمیان جو ہمیں مہلت عمل اللہ کی طرف سے دی گئی ہے اس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں کہ ہمار ا خالق و ما لک ہماری آزمائش کر رہا ہے، ہمارا امتحان لے رہا ہے۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات کے اعزاز سے نوازا ہے، لیکن انسا ن نے ہدایت الٰہی سے روگردانی کی روش اختیار کر کے خود کو اسفل السافلین کی دلدل میں گر ا دیا۔ قوم ِ نوح کی بت پرستی ہو، قوم شعیب کی ناپ تول میں بد دیانتی ہو یا قوم لوط کی ہم جنس پرستی جیسا گھنا ؤنا عمل ، یہ سب اسی نفس امارہ کے شجر خبیثہ کی شاخیں ہیں۔
اسی نفس امارہ نے آج مسلمان معاشروں میں فحاشی و عریانیت کا ایک طوفان برپا کیا ہواہے۔گھر، خاندان، انفرادی و اجتماعی ماحول، خوشی اور غمی، عبادات و معاملات حتیٰ کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی کیوں نہ ہوں، ہر جگہ اور ہر سطح پر اللہ کی نافرمانیوں کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ تعلیمی ادارے جہاں مخلوط ذریعہ تعلیم ہے وہاں حصول علم سے زیادہ عشق و محبت کی داستانیں رقم کی جا رہی ہیں۔ حد یہ ہے کہ ثانوی درجے کے طلبہ و طالبات میں بھی یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جنسی تعلقات کی پردہ پوشی کی وہ باتیں جو پختگی کی عمر میں جا کر سمجھ میں آتی تھیں، وہ آج سیکنڈری جماعتوں میں ہی پوی طرح سے بچوں کے ذہنوں میں سما جاتی ہیں۔ اور نئی نسل کے اس فکری اور عملی بگاڑ میں ہمارے سیکولر و لبرل میڈیا کا بڑا کلیدی کردار ہے جس کی فنڈنگ وہ قومیں کر رہی ہیں جو اسلام دشمن بھی ہیں اور مسلمان معاشروں میں عریانیت اور فحاشی پھیلاکر ان کی نسلوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتی ہیں۔ اہل حق میڈیا کی اس گمراہی اور فساد آدمیت کے شعوری عمل پر ہر پلیٹ فارم سے آوازیں اٹھاتے رہتے ہیں مگر ان کی حق وصداقت کی یہ آوازیں صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہیں۔
نفس امارہ کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر سے حیا کا وصف نکال دیتا ہے۔ اور حیا ہی وہ اہم صفت ہے جس کے خاتمے سے سب سے گہری ضرب انسان کے ایمان پر پڑتی ہے۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جب تم میں حیا نہ رہے تو پھر جو چاہو کرو‘‘. حیا ایک ایسا زیور انسانیت ہے کہ اس کی موجودگی انسان میں اخلاقی اور روحانی حس کو بیدار رکھتی ہے۔اسی لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کے اندر حیا ہو اور ایمان نہ ہو اور ایمان ہو تو حیا نہ ہو، یہ ایک مؤمن کی پہچان ہے۔ حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے، یہ دونوں اوصاف یکجا ہوں گے تو ایمان مکمل ہوگا کیونکہ جزوی ایمان اللہ کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔
قرآن حکیم نے جن پچھلی اقوام کا ذکر کیا ہے ان میں سے ہر قوم میں کوئی ایک برائی پائی جاتی تھی، اس قوم کے رسول نے اپنی قوم کو ان کی نافرمانیوں اور اللہ سے سرکشی پر متنبہ کیا اور اللہ کے عذاب سے ڈرایا مگر وہ نہ مانے اور اپنے گناہوں پر عمل پیرا رہے، چنانچہ ان پر اللہ کا عذاب آیا اور وہ نسیاً منسیاً کر دیےگئے، دنیا سے ناپید ہوگئے اور ان کے بلند و بالا اور پر شکوہ گھر کھنڈر بنا دیے گئے۔ آج ان کے کھنڈر لوگوں کے لیے عبرت کے نشان بنے ہوئے ہیں، اور ان کی یہ تباہی و بربادی محض ایک ایک گناہ کی پاداش میں عمل میں لائی گئی۔
امت مسلمہ کا حال اب یہ ہے کہ پچھلی قوموں کی تمام برائیاں اور گناہ جمع ہوکر اس کے فکر و عمل میں سرایت کر گئے ہیں، بلکہ گذشتہ اقوام میں جو برائیاں نہیں تھیں وہ بھی آج مسلمانوں کے طرز عمل میں ظاہر ہو رہی ہیں۔ اور دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی ان برائیوں کو اپنا حق سمجھ کر کر رہے ہیں۔ فحاشی و عریانی کے جو انداز آج منظر عام پر آ رہے ہیں وہ تو ان قوموں میں بھی نہیں تھے۔ صنعت اور پیداوار کی ترقی کے لیے عورت کو بازاری جنس بنا دیا گیا ہے اور عورت بھی اس پر خوش ہے اور اسے کوئی برائی سمجھتی ہی نہیں۔ نیم عریاں لباس، رقص و سرود کی محفلوں میں شرکت وہ اپنی ذات کی کامیابی سمجھتی ہے۔ ہمارے قومی ادارے رشوت کی لپیٹ میں ہے اور اسے اپنا پیدائشی حق سمجھ رہے ہیں، اور اس پر انھیں کوئی شرمندگی نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ ان برائیوں، خرافات، اخلاق باختگی اور دیگر گناہوں سے کیسے بچا جائے؟ تو اس کا ایک ہی حل ہے کہ ہر انسان اللہ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرے، اب تک کیے ہوئے تمام گناہوں اور بد اعمالیوں کے لیے اللہ کے حضور سچی توبہ کی جائے۔ آئندہ گناہ نہ کر نے کا پکا عہد کیا جائے۔ ندامت اور شرمندگی کے گہرے احساس کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی جناب میں سجدہ ریز ہونا تمام گناہوں کو زائل کر دیتا ہے۔ اللہ نے اپنی رحمت کو اپنے غضب پر غالب کیا ہوا ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ انسان اپنی ذات پر کیے ہوئے اللہ کے احسانات پر غور کر ے، اللہ نے زندگی جیسی عظیم نعمت کے ساتھ اس کائنات کی ہر شے کو ہمارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ یہ پوری کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ ہمہ وقت ہماری خدمت میں لگا ہوا ہے۔ تو کیا ان احسانات کا بدلہ یہ ہے کہ ہم اپنی فکر کو انپے ہر عمل کو نفس امارہ کی ذلت آمیز کثافتوں میں غرق کر دیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے، اس لیے کہ خالق کائنات کا ارشاد ہے: ’’ نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں‘‘ (الرحمٰن ۶۰)
Great MashaAllah