سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ ’ناممکنات‘ کی دو اقسام ہیں. پہلی قسم وہ جو منطقی اعتبار سے تو سوچی جا سکتی ہو مگر کسی کے لیے اسے انجام دینا ممکن نہ ہو اور دوسری ناممکنات کی قسم وہ ہے جو منطقی اعتبار سے ہی غلط اور عقلی بنیاد سے خالی ہو. ناممکنات کی اس دوسری قسم کو ’منطقی حماقت‘ سے تعبیر کرتے ہیں اور حماقت پر گفتگو کرنا بھی سراسر حماقت ہے. پہلی قسم البتہ حماقت نہیں بلکہ صرف مخلوق کے لیے اسے انجام دینا ناممکن ہے. خدا ہر اس ناممکن کو ممکن کرسکتا ہے جو پہلی قسم سے متعلق ہو. یہ سوال کہ ’کیا خدا ایک اور خدا بنا سکتا ہے؟‘ دراصل دوسرے قبیل سے ہے یعنی منطقی حماقت (لوجیکل فیلیسی) جسے کچھ شریر اذہان استعمال کرکے تشکیک پیدا کرتے ہیں. خدا کی بنیادی تعریف یہ بتاتی ہے کہ خدا وہ ہستی ہے جسے کسی نے تخلیق نہ کیا ہو اور جو سب کی خالق ہو. اب کسی عقلمند کا یہ استفسار کہ خدا دوسرا خدا بنا سکتا ہے بلکل لغو اور عقل سے عاری ہے. دراصل دوسرے الفاظ میں یہ پوچھا جارہا ہے کہ کیا کبھی نہ تخلیق ہونے والی ہستی کسی دوسری نہ تخلیق ہونے والی ہستی کو تخلیق کرسکتی ہے؟ ظاہر ہے ایسی بات کی حیثیت ایک منطقی الجھاؤ سے زیادہ نہیں ہے. یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی فرمائے کہ کیا خدا ایسی مخلوق بناسکتا ہے جو مخلوق نہ ہو؟ اب اس حماقت یا شرارت پر ہنسا تو جاسکتا ہے مگر سنجیدگی سے نہیں لیا جاسکتا. ان ’منطقی حماقتوں‘ کی کچھ روزمرہ کی امثال دیکھ لیتے ہیں. فرض کیجیے آپ میراتھن دوڑ میں سب سے پہلے نمبر پر آتے ہیں. اب کوئی شخص آپ سے یہ پوچھے کہ کیا آپ دوڑ میں سب سے پہلے سے پہلے آسکتے ہیں؟ آپ اسے سمجھائیں گے کہ میاں میں تو پہلے ہی سب سے پہلے نمبر پر ہوں مگر وہ آپ کا مذاق اڑانے لگے کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ سب سے پہلے سے پہلے نہیں آسکتے. اب آپ اس سجن کی عقل پر ماتم کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں؟
.
ہوسکتا ہے آپ سوچیں کہ ایسا بے سر پیر کا سوال کون پوچھے گا؟ لیکن جان لیں کہ ایسے عقلمند کثرت سے موجود ہیں جو یہ پوچھتے ہیں کہ اگر خدا الاول ہے تو کیا وہ اول سے اول ہو سکتا ہے؟ یا اگر الآخر ہے تو آخر سے آخر ہوسکتا ہے؟ انہیں بتانا ہوگا کہ خدا کی بہت سی صفات ہیں جو اس کی ذات کا ہمیں تعارف فراہم کرتی ہیں. یہ تقاضہ عبث ہے کہ وہ آپ کو کسی کرتب دیکھانے کیلئے اپنی کسی مستقل صفت کا انکار کردے. یہ سچ ہے کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے مگر اس سے مراد فقط اتنی ہے کہ وہ اپنی صفات کو برقرار رکھتے ہوئے کائنات کی ہر شے پر تصرف اور قوت رکھتا ہے. لہٰذا جب کوئی شخص اس طرح کا سوال پوچھتا ہے کہ کیا خدا اتنا وزنی پتھر بنا سکتا ہے جسے وہ خود نہ اٹھا سکے؟ تو اس کا یہ سوال زبان حال سے اپنے غلط ہونے کا اعلان کر رہا ہوتا ہے. جب یہ جان لیا کہ خدا ہر شے پر قدرت یعنی اتھارٹی رکھتا ہے تو اب اس تقاضا کا کوئی محل ہی نہیں کہ وہ کچھ ایسا تخلیق کرے جس پر وہ قادر نہ ہو. قاعدہ یہ ہے کہ ذات اپنی صفات سے مزین ہوتی ہے اور جس لمحے کسی صفت کی نفی ہوتی ہے، اسی لمحے ذات کی تعریف بدل جاتی ہے. جیسے صدیق اکبر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی صفت سچ بولنا ہے. اب اگر کوئی ان کی حیات میں یہ پوچھتا کہ کیا ابوبکر رضی اللہ عنہ جھوٹ بولنے پر قادر ہیں؟ تو جواب دیا جاتا کہ ہاں قادر تو ہیں مگر وہ کبھی جھوٹ نہیں بولیں گے کیونکہ جھوٹ بولنا ان کی سرشت میں ہی نہیں. گویا اختیار اگر حاصل بھی ہو تو ذات کبھی خود میں پیوست صفات کا انکار نہیں کرتی. خدا بھی اپنی صفات اور سنت کے خلاف کبھی نہیں کرتا. قران حکیم میں جابجا اسی حقیقت کا بیان ہوا ہے.
.
[pullquote]لَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اﷲِ تَبْدِیْلاً (الاحزاب:62)[/pullquote]
’’تم خدا کی سنت میں ہر گز تبدیلی نہیں پاؤ گے ‘‘
تبصرہ لکھیے