ہوم << غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور عامۃ المسلمین کی تکفیر - نادر عقیل انصاری

غامدی صاحب کا جوابی بیانیہ اور عامۃ المسلمین کی تکفیر - نادر عقیل انصاری

جدید استعماری دور میں بہت لوگوں نے نئے فرقوں کی بنا ڈالی، اور ”اظہار رائے کی آزادی“ کے عَلم تلے اس کا جواز پیش کیا۔ تکفیر کے مسئلے پر ان کا نقطہ نظر بالعموم داخلی طور پر شدید تضاد کا شکار رہا۔ جدید فرقے اپنے وجود کے جواز کے حق میں اپنا استدلال مسلمان اُمت کے روایتی فکر کے نقص و خطا پر تعمیر کرتے ہیں۔ اگر امت کے فکر و عمل درست ہوں تو نئے فرقوں کی ضرورت کا جواز کیسے ثابت ہوگا؟ اگر مسلمانوں میں اپنے دین سے کوئی غفلت پائی جاتی ہے، تو تذکیر و تبلیغ اور تجدید و احیاء کی ضرورت ہے، نئے فرقے کی نہیں۔ لیکن جب یہ نئے مکاتب فکر امت کی تکفیر و تضلیل کر چکتے ہیں، تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔ ہر نیا فرقہ جانتا ہے کہ دینی فکر میں جو نیا پیوند وہ لگا رہا ہے، جلد یا بدیر امت اس کی غلطی پر متنبہ ہوجائے گی، اور اس پر اپنا ردّ عمل ظاہر کرے گی۔ اور اگر کسی نووارد فرقے نے دینی عقیدہ و عمل میں بنیادی تبدیلیاں کی ہیں، تو بالآخر امت اس کی تکفیر و تضلیل کا فیصلہ کرے گی۔ اور جب امت یہ فیصلہ کر لیتی ہے، تو اس قسم کے فرقوں کی توسیع رک جاتی ہے، اور مزید مسلمان ان کا شکار نہیں ہوتے۔ اس خطرے کو ہر نیا مبتدع فرقہ پوری طرح سمجھتا ہے، اور مختلف طریقوں سے اس ”خطرے“ کی پیش بندی کرتا ہے۔ ان میں سے ایک مقبول حکمتِ عملی یہ ہے کہ سرے سے اس بات کا ہی انکار کر دیا جائے کہ امت کے پاس تکفیر کا اختیار ہے۔ ماڈرن مکاتب فکر بالعموم کہتے ہیں کہ تکفیر حرام ہے، اور مسلمان اہل علم کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی پر کفر و ضلالت کا حکم لگا سکیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ نئے فرقے اس دائمی تضاد میں مبتلا رہتے ہیں: ایک جانب امت کی تکفیر میں فیاض ہوتے ہیں، لیکن دوسری جانب، اپنے خلاف تکفیر کو دین کے خلاف بتانے پر مجبور ہیں، بلکہ آگے بڑھ کر سرے سے تکفیر ہی کو دین میں ممنوع و حرام قرار دیتے ہیں۔ یہ رویہ دفاعی حکمت عملی کے لحاظ سے بڑی سمجھداری پر مبنی ہے، لیکن ان کی فکر میں لاینحل تضادات کو جنم دیتا ہے۔
جب قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کی تحریک چلی، تو پہلے مرحلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت نے اس میں پس و پیش کی، کیونکہ ان کا خیال تھا کہ ہمارے ”تنگ نظر مولوی“ ان ”بےچارے قادیانیوں“ کو بےسبب کافر سمجھتے ہیں۔ اس دوران پاکستان کی قومی اسمبلی میں فریقین کے نمائندوں کے مابین وہ مشہور بحث ہوئی جس کی رُوداد اب شائع ہوگئی ہے۔ اس کارروائی میں سیاسی قیادت پر یہ واضح ہوا کہ معاملہ یوں نہیں ہے کہ عامۃ المسلمین قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا چاہتے ہیں، بلکہ سب سے پہلے تو خود قادیانیوں نے اپنے علاوہ دیگر مسلمانوں کو کافر قرار دیا تھا۔ جیسا کہ توقع تھی، قادیانیوں کے ”خلیفہ“ کی جانب سے اس امر کا اعتراف کرنے کے لیے بہت طویل حجت بازی ہوئی۔ لیکن بالآخر اس امر کی تصدیق ہوتے ہی پاکستان کی سیاسی قیادت نے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے میں ذرہ برابر دیر نہ کی۔ گویا وہی بات ہوئی جو علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے: ”میرے استاذ امام ابو اسحٰق اسفرائینی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو ہماری – یعنی امت مسلمہ کی – تکفیر کرتا ہے، ہم اس کی تکفیر کریں گے!“ (شرح المقاصد، جلد:۳، صفحہ:۴۶۱)۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں: ”اس شخص کا کفر بھی قطعی ہے جس کے موقف کے نتیجے میں ساری امت گمراہ قرار پاتی ہو“ (امام نووی، روضۃ الطالبین، جلد دس، صفحہ:۷۰)۔
اس پس منظر میں جاوید احمد غامدی صاحب اپنے متنازعہ ”جوابی بیانیے“ میں لکھتے ہیں:
دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں، اپنے مسلمان ہونے کا اقرار، بلکہ اُس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کرلیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، اُن کے اِس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اُسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اُس کے حاملین چونکہ قرآن وحدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اِس لیے اُنھیں غیرمسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اِس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے؟ اِس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔ دنیا میں اِن کے حاملین اپنے اقرار کے مطابق مسلمان ہیں، مسلمان سمجھے جائیں گے اور اُن کے ساتھ تمام معاملات اُسی طرح ہوں گے، جس طرح مسلمانوں کی جماعت کے ایک فرد کے ساتھ کیے جاتے ہیں۔ علما کا حق ہے کہ اُن کی غلطی اُن پر واضح کریں، اُنھیں صحیح بات کے قبول کرنے کی دعوت دیں، اُن کے عقائد و نظریات میں کوئی چیز شرک ہے تو اُسے شرک اور کفر ہے تو اُسے کفر کہیں اور لوگوں کو بھی اُس پر متنبہ کریں، مگر اُن کے متعلق یہ فیصلہ کہ وہ مسلمان نہیں رہے یا اُنھیں مسلمانوں کی جماعت سے الگ کر دینا چاہیے، اِس کا حق کسی کو بھی حاصل نہیں ہے، اِس لیے کہ یہ حق خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے (اسلام اور ریاست: جوابی بیانیہ)۔
غامدی صاحب کے نزدیک کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں ہے کہ اسلام کے کسی دعویدار کو ”غیر مسلم“ قرار دیں، نہ علماء کو نہ پوری امت کو۔ چونکہ پاکستان میں اس قسم کا فیصلہ فقط قادیانیوں ہی کے معاملے میں ہوا ہے، لہذا یہ بیانیہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرارد ینے والی آئینی ترمیم کو نشانہ بناتا ہے۔ یعنی غامدی صاحب کا اصل موقف یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیرمسلم قرار نہیں دیا جا سکتا۔
پہلا سوال یہ ہے: قرآن مجید کی کون سی آیت تکفیر کی ممانعت یا حرمت بیان کرتی ہے؟ دیکھ لیجیے، اپنے اس بیانیے میں غامدی صاحب نے کوئی آیت پیش نہیں کی، اور نہ پیش کر سکتے تھے۔ محض اپنی رائے کو دینی موقف قرار دے رہے ہیں۔ اصولی اعتبار سے ہر وہ شے جس کی ممانعت و حرمت نہیں کی گئی، مباح ہوتی ہے۔ اگر قرآن مجید کی کوئی آیت تکفیر سے مانع نہیں ہے، تو تکفیر مباح ہے۔ یہ اختیار کسی کو حاصل نہیں ہے کہ جس شے کو اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول ﷺ نے ممنوع نہیں ٹھہرایا، اسے ممنوع و مذموم قرار دیں۔ غامدی صاحب اس کے جواب میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں: ”[تکفیر کا یہ حق] خدا ہی دے سکتا تھا اور قرآن و حدیث سے واقف ہر شخص جانتا ہے کہ اُس نے یہ حق کسی کو نہیں دیا ہے۔“ یعنی وہ فرما رہے ہیں کہ چونکہ قرآن و حدیث نے اس کی اجازت نہیں دی، لہذا یہ ممنوع ہے! یعنی کسی شے کے جائز ہونے کے لیے بھی قرآن مجید اور حدیث کی تصریحات درکار ہوں گی! یہاں انہوں نے اصول ہی الٹ دیا۔ گویا، الجبرا کی ایجاد بھی بدعت ہے، کیونکہ قرآن مجید میں کوئی آیت اس کے جواز کے حق میں نازل نہیں ہوئی! یہ وہی داعش وغیرہ کا استدلال ہے کہ بچوں کو سکول بھیجنے کا حکم چونکہ قرآن مجید میں نہیں ہے، لہذا بچوں کو سکول بھیجنا حرام ہے!
غامدی صاحب قرآن مجید سے تکفیر کی صریح حرمت کے حق میں تو کوئی استدلال نہیں کر سکے، لیکن ان کے استاد امین احسن اصلاحی کے نزدیک ”قرآن مجید سے یہ تعلیم نکلتی ہے“ کہ تکفیر کرنا جائز ہے۔ سورہ کافرون کی پہلی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
”[قل یایھاالکفرون] سے ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے کہ جو چیز کفر یا شرک ہے اس کو کفر یا شرک بتانا اور اس سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کرنا تو ہر مسلمان کی ہر لمحہ ذمہ داری ہے، لیکن کسی فرد یا گروہ کو کافر قرار دے کر اس سے اعلانِ برأت کرنا، یا اپنے جملہ روابط اس سے کاٹ لینا یا اس سے اعلانِ جنگ کردینا بڑی احتیاط کا متقاضی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کا مسئلہ بڑا مشکل ہے جو اپنی ہر گمراہی کو اسلام بنائے ہوئے ہوں، اور صحیح اسلام ان کے آگے پیش کرنے کا کوئی شرعی نظام موجود نہ ہو۔ اس طرح کے حالات میں صحیح راستہ یہی ہو سکتا ہے کہ آدمی غلطیوں اور گمراہیوں پر تنقید تو کرے، اور لوگوں کے ان افعال میں شرکت سے اجتناب بھی کرے جو شرک و بدعت کی نوعیت کے ہوں، لیکن ان کو کافر قرار دے کر ان سے کلیتاً علیٰحدگی کا اعلان اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے لیے مجبور نہ ہو جائے، یا یہ باور کرنے کے لیے اس کے سامنے معقول وجوہ نہ آ جائیں، کہ اس نے لوگوں پر حق واضح کر دیا، اور یہ دوسری چیز نہایت مشکل ہے.“ (تدبر قرآن، جلد:۹، صفحہ:۶۰۷)۔
امین احسن اصلاحی کی اس تفسیر سے واضح ہے کہ ان کے نزدیک کسی کو کافر کہنا اسلام میں حرام نہیں ہے، بلکہ اس آیت سے ”ہمارے لیے یہ تعلیم نکلتی ہے“ کہ تکفیر جائز ہے، گو یہ ایک نازک معاملہ ہے، لہذا اس عمل میں انتہائی احتیاط درکار ہے، اور اس کی شرائط پوری کرنا نہایت مشکل ہے، لیکن انہوں نے اسے ناممکن نہیں کہا، نہ حرام و ممنوع قرار دیا۔
اب حدیث کے مقدس ذخیرے کی طرف دیکھتے ہیں۔ دین سے متعلق بہت سے امور میں حتمی رہنمائی آپ ﷺ کے اُسوے ہی سے ملتی ہے۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے دوسرے کو کافر کہا، تو ان میں سے ایک نے کفر کیا۔ اگر دوسرا شخص واقعی کافر ہے تو اس کے ساتھی نے درست بات کہی، اور اگر وہ ایسا نہ تھا جیسا اس نے کہا (یعنی اگر وہ کافر نہ تھا) تو کافر کہنے والا کفر کے ساتھ لوٹا (امام بخاری، الادب المفرد؛ اس موضوع پر دیگر روایات صحیح بخاری، صحیح مسلم، موطا امام محمد، ترمذی، مسند احمد، ابن حبان میں آئی ہیں)۔ ناصرالدین البانی نے اس روایت کو تحقیق کے بعد صحیح قرار دیا ہے۔ اس روایت کی رُو سے کسی مسلمان کو کافر قرار دینے پر پابندی نہیں ہے۔ البتہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ معاملہ نازک ہے، یعنی احتیاط کی ضرورت ہے۔ اور اگر جانتے بوجھتے کسی مومن کو کافر کہا تو یہ اور بھی شنیع فعل ہے۔ لیکن کفر کا حکم لگانا فی الاصل بالکل جائز ہے۔ شارحینِ حدیث نے بھی اس کے یہی معنی لیے ہیں۔ کسی نے یہ معنی نہیں لیے کہ سرے سے مرتد کی تکفیر کرنا ہی ناجائز ہے۔ حافظ ابن حجر ؒفرماتے ہیں کہ ان روایات کا مقتضی یہ ہے کہ کہ اگر کسی نے دوسرے کو فاسق یا کافر کہا اور وہ فاسق یا کافر نہ ہو، تو کہنے والا اس وصف کا مستحق ہوگا۔ لیکن اگر دوسرا شخص ویسا ہی ہے جیسا اسے کہا گیا ہے، تو کوئی شے کہنے والے کی جانب نہیں لوٹے گی، کیونکہ وہ حکم لگانے میں سچا ہے (فتح الباری، جلد:۱۰، صفحہ:۵۷۲)۔ امین احسن اصلاحی بھی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے یہی رائے دیتے ہیں۔ وہ تکفیر کو حرام یا ممنوع قرار نہیں دیتے، بلکہ کہتے ہیں کہ تکفیر بہت ”خطرناک“ کام ہے۔ ان کے خیال میں حدیث کی رُو سے، تکفیر کے فتوے مفتی کی جانب لوٹ آتے ہیں، لیکن فقط اس صورت میں ”اگرکافر قرار دیے جانے والا آدمی کافر نہیں“! (تدبر حدیث: شرح موطا امام مالک، صفحہ:۵۰۲)
دوسری حدیث شریف حکمرانوں کے بارے میں ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ حکمرانوں کی اس وقت تک اطاعت کرو، اور ان کے خلاف جنگ نہ کرو جب تک ان میں کھلا کفر نہ دیکھ لو، جس کے حق میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح دلیل موجود ہو (صحیح بخاری)۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں حکومت کے فیصلے کا انتظار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اہل علم فیصلہ دیں گے کہ یہ حکمران معتقد و مرتکبِ کفر ہونے کی وجہ سے دائرۂ اسلام سے خارج ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے اس کی اطاعت مسلمانوں پر فرض نہیں رہی۔ لہذا تکفیر اسلام میں ممنوع نہیں ہے، جیسا کہ غامدی صاحب کا دعویٰ ہے۔
تیسری مثال نبی ﷺ کی وہ پیش گوئی ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک ایسا گروہ آئے گا جس کی نماز اور روزوں کے سامنے تمہاری نماز اور روزے حقیر لگیں گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا، اور یہ لوگ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان میں سے نکل جاتا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے خوارج کے بارے میں فرمایا: یعنی یہ لوگ مسلمان تھے، پھر کافر ہوگئے (فصاروا کفارا ۔ چنانچہ اس حدیث کی روشنی میں، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کی روشنی میں، معلوم ہوا کہ عقائدِ فاسدہ کی وجہ سے ایسے شخص کی بھی تکفیر کی جا سکتی ہے جو مسلمان ہونے کا مدعی ہو۔
چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں نبی ﷺ نے صراحت سے روکا ہے کہ میرے بعد ”کافر نہ ہو جانا“ (لا ترجعوا بعدی کفارا)۔ یہ روایت صحیحین میں بھی ہیں اور دیگر کتب حدیث میں بھی۔ آپ ﷺ نے یہ اخبار اسی لیے دیے تھے تاکہ مسلمان ایسی صورت میں ایسے لوگوں کو کافر ہی سمجھیں، ورنہ خبر دینے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض مسلمان ایسے کام کریں گے یا ایسے عقائد رکھیں گے جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ کافر ہو جائیں گے۔ یہ جوازِ تکفیر میں صریح نص ہے، کہ عقیدہ و عمل میں فساد کی بنا پرلوگوں کو کافر قرار دیا جا سکتا ہے، خواہ وہ مسلمان ہونے کے مدعی ہوں۔
پانچویں حدیث وہ ہے جس میں آپ ﷺ نے اسلام کی ابدی شریعت میں مرتد کی سزا بیان فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنا دین تبدیل کیا، اسے قتل کر دو (صحیح بخاری)۔ ظاہر ہے کہ اس سے پہلے اس شخص کی تبدیلی دین کا فیصلہ کیا جائے گا۔ تکفیر کے بغیر کسی کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔ یہ پانچ مثالیں ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی احادیث مقدسہ اس سلسلے میں پیش کی جاسکتی ہیں۔
معاشرتی اور عدالتی امور میں کئی صورتیں ہیں جن میں حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے تکفیر کا فیصلہ ناگزیر ہوگا۔ اگر کسی مسلمان کی اولاد منکر ختم نبوت ہو جائے، یا منکر قران ہو جائے، یا منکر حدیث و رسالت ہو جائے، تو باپ کی وفات کی صورت میں وہ ترکے کا وارث نہیں ہوگا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ کافر اور مسلمان ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوسکتے۔ جو منکرِ ختم نبوت یا منکر حدیث و رسالت ہو گیا، دیگر ورثاء اسے حصہ نہیں دیں گے۔ لیکن اس کے لیے علماء و قاضی حضرات کو فیصلہ کرنا پڑے گا، کہ آیا یہ کافر ہو گیا ہے یا نہیں، سو تکفیر کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ اگر کسی مرد کی بیوی، یا کسی عورت کا شوہر انکارِ ختم نبوت، یا انکارِ قرآن مجید، یا انکارِ حدیث و رسالت کردے، تو نکاح قائم نہیں رہتا۔ عدالتوں کو رائے قائم کرنی ہوگی کہ آیا فی الواقع یہ شخص یا عورت دائرۂ اسلام سے خارج اور کافر ہو گیا/گئی ہے یا نہیں۔ مساجد میں امامت کے مسئلے میں بھی یہی ہوگا۔ کافر مسلمانوں کی امامت نہیں کرا سکتا، لہذا اگر تنازعہ ہوگا، تو امام کے بارے میں فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ مسلمان ہے یا کافر۔ اسی طرح کی کئی اور صورتیں بھی ہو سکتی ہیں، جن میں شرعی احکام پر عمل کرنے سے پہلے، ایمان و کفر کا فیصلہ ناگزیر ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ جس شے پر اقامتِ شریعت موقوف ہو، وہ خود حرام یا ممنوع کیسے ہو سکتی ہے؟ کیا اب جاوید غامدی صاحب چاہتے ہیں کہ مسلمان خواتین قادیانیوں وغیرہ کے عقد میں رہیں، اور عامۃ المسلمین منکرینِ ختم نبوت اور منکرین حدیث و رسالت کی امامت میں نمازیں پڑھیں، اور کُفار مسلمانوں کے وارث بنیں؟
غامدی صاحب کے اس دعوے پر مزید دو معروضات ہیں:
ایک مسئلہ یہ کہ خود جاوید احمد غامدی صاحب نے امت کے سواد اعظم کی تکفیر کی ہے۔ جاوید احمد غامدی صاحب نے جب امت کے عظیم قائدین، علماء، صوفیاء، اور مجتہدین و مجددین سے اپنا اختلاف بیان کیا تو یہ ان کا حق تھا۔ لیکن وہ یہاں نہیں رکے۔ انہوں نے فقط یہ نہیں کہا کہ میں ان کی دینی تعبیرات سے اختلاف رکھتا ہوں، یہ نہیں کہا کہ یہ میری اجتہادی رائے ہے، یہ نہیں کہا کہ صوفیاء کی رائے میں صحت، اور میری رائے میں خطا کا احتمال ہے! اس کے بجائے وہ متشددانہ انتہاپسندی کی آخری حدوں پر پہنچ گئے اور انہیں دینِ اسلام کے دائرے ہی سے نکال دیا۔ لکھتے ہیں:
”[تصوف] اُس دین کے اصول و مبادی سے بالکل مختلف ایک متوازی دین ہے، جس کی دعوت قرآن مجید نے بنی آدم کو دی ہے۔“ (برھان، صفحہ:۱۸۱)۔
”اس باب میں قران مجید کی اس صراط مستقیم سے انحراف کے بعد، جس میں نہ ممکن کے لیے وجود کا اثبات کوئی شرک ہے، اور نہ موجود یا مشہود صرف اللہ ہی کو قرار دینا توحید کا کوئی مرتبہ ہے، اہل تصوف نے جو راہ اختیار کی ہے، یہ سب اسی کے احوال و مقامات ہیں.“ (برھان، ۱۸۸)۔
”اپنشد، برہم سوتر، گیتا، اور فصوص الحکم کو اس دین میں وہی حیثیت حاصل ہے جو نبیوں کے دین میں تورات، زبور، انجیل، اور قرآن [مجید] کو حاصل ہے.“ (برھان، ۱۹۲)۔
[صوفیاء کرام نے] ”حریم نبوت میں نقب“ لگائی ہے (برھان، ۱۹۹)۔
”ایک پوری شریعت ہے جو خدا کی شریعت سے آگے اور قرآن و سنت سے باہر، بلکہ ان کے مقاصد کے بالکل خلاف ان اہلِ تصوف نے طریقت کے نام سے رائج کرنے کی کوشش کی ہے.“ (برھان، ۲۰۹)۔
”اسلام کے مقابلے میں تصوف ایک عالمگیر ضلالت ہے.“ (برھان، ۱۹۲)۔
جاوید احمد غامدی صاحب کے ان دعووں سے واضح ہے کہ اُن کے نزدیک یہ لوگ – یعنی صوفیائے کرام اور تصوف کے تمام قائلین، اور ان کا احترام کرنے والے اور پیروی کرنے والے – سب دائرۂ اسلام سے خارج ہیں کیونکہ: صوفیائے کرام کا دین ہمارے دین سے الگ ہے، یہ لوگ ”اسلام سےبالکل مختلف دین“ کو مانتےہیں، یہ لوگ ”اسلام کے مقابل دین“ کو مانتے ہیں، یہ لوگ ”اسلام کے متوازی دین“ کو مانتے ہیں، انہوں نے اللہ کی کتاب قرآن مجید کے مقابل اپنی ”کتاب“ لکھی ہے، یہ اللہ کی کتاب کے مقابل ایک اور کتاب کو مانتے ہیں، یہ لوگ عقائد میں قرآن مجید کی ”صراط مستقیم سے انحراف“ کے مرتکب ہیں، انہوں نے (قادیانیوں کی طرح؟) ”حریم ِنبوت میں نقب“ لگائی ہے، اوریہ لوگ اسلام کے مقابل ایک ”عالم گیر ضلالت“ میں مبتلا ہیں۔ جو ان اوصاف کا حامل ہو وہ دائرۂ دین سے خارج ہوتا ہے۔ یہی تکفیر ہے۔ بلکہ یہ تکفیر سے اشدّ ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔ یہی قبول کیا جائے گا۔ اس کے مقابل، اس سے مختلف، اور اس کے متوازی ادیان بھی موجود ہیں جیسے یہودیت، عیسائیت، ہندومت، وغیرہ۔ لیکن اسلام کا دعویٰ ہے کہ فقط وہی حق ہے، باقی ادیان باطل ہیں، اور مآل کار ان کے پیروکار آخرت میں فلاح نہ پا سکیں گے۔ اسلام اور دوسرے ادیان، جیسے جین مت اور عیسائیت وغیرہ، ایک دوسرے سے ”مختلف“ ہیں۔ اسلام اور یہودیت و ہندو مت وغیرہ ادیان ایک دوسرے کے ”مقابل“ بھی ہیں۔ اسلام اور دوسرے ادیان ایک دوسرے سے ”متوازی“ بھی ہیں، کیونکہ دو مختلف متوازی خطوط کی تعریف یہ ہے کہ انہیں جانبین میں جس قدر بھی توسیع دی جائے، ان کا اتصال ناممکن ہوتا ہے۔ یعنی اسلام اور دوسرے ادیان کا کبھی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا، کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر یہ فاصلہ، یہ فرق، اور یہ مغایرت زائل نہیں کی جاسکتی۔ اور جو لوگ ایسے دین کو اختیار کر لیں جو اسلام کے ساتھ سرے سے کوئی نقطۂ اتصال ہی نہیں رکھتا، وہ بدرجۂ اولیٰ اسلام کے دائرے سے باہر ہیں۔ صراطِ مستقیم ایک ہی ہے، اور وہ دینِ اسلام ہے۔ اگر صوفیاء نے اس صراط مستقیم کو چھوڑ دیا ہے، تو وہ کافر ٹھہرے۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ جن لوگوں نے مسلمانوں کے راستے کو چھوڑ کر کسی دوسری راہ کو اختیار کیا، انہیں ہم جہنم میں ڈال دیں گے (سورہ نساء:۱۱۵)۔ غامدی صاحب کے بقول صوفیائے کرام نے صراط مستقیم سے انحراف کیا ہے۔ اگر کوئی قرآن مجید کو چھوڑ کر اس کے مقابل ایک اور کتاب لکھے یا اسے مانے، اس کے کافر ہونے میں کیا شک ہے؟ غامدی صاحب کے نزدیک صوفیاء نے یہی کیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ پوری شریعت تصنیف کریں، جو اپنے مقاصد میں شریعتِ اسلامیہ کے خلاف ہو، اور پھر اس کی طرف دعوت دیں، اور اسے خلقِ خدا میں رائج کرنے کی کوشش کریں، اور یوں ایک مکمل دین کی دعوت دیں، جو اللہ کے دین کے مقابل ہو، اس سے مختلف ہو، اور اس کے متوازی ہو، ایسے لوگوں کے دائرۂ اسلام سے باہر ہونے میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔
جو بہ یک وقت دو اَدیان میں موجود ہو، اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار کی جانب سے، کفر اور اسلام میں سمجھوتے کی یہ دعوت نبی ﷺ کو دی گئی، جس پر آپ کا جواب تھا: معاذاللہ! اور اسی موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: لکم دینکم و لی دین۔ ہمارے لیے ہمارا اور تمہارے لیے تمہارا دین۔ یعنی دو ادیان میں، کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر، کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اسلام اور کسی اور دین کے ملغوبے پر بھی کفر ہی کا حکم لگے گا (اکفار الملحدین)۔ قرآن مجید کا اعلان ہے: اللہ نے کسی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے (سورہ احزاب:۴)۔ جب غامدی صاحب ائمۃ المسلمین کو اسلام کے متوازی دین کا پیروکار بتاتے ہیں، تو اس کا مطلب تکفیر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
صوفیائے کرام کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کا یہ فتویٰ تکفیر کے عام فتاویٰ کے مقابلے میں شدید تر ہے۔ اس کی چار وجوہ ہیں:
پہلی وجہ: کسی مسلمان فرد یا گروہ کی تکفیر ایک بات ہے، اور تقریباً پوری امت مسلمہ کی تکفیر اس سے کہیں زیادہ شنیع کام ہے۔
دوسری وجہ: جاوید غامدی صاحب کا یہ فتویٰ تکفیر سے اس لیے بھی بدتر ہے، کہ کوئی مبتدع اور گمراہ فرقہ ایک دو معاملات میں ضروریاتِ دین کا منکر ہوتا ہے، جبکہ غامدی صاحب کے نزدیک صوفیائے کرام دینِ حق سے مختلف اور متوازی دین کے پیروکار ہیں۔ مبتدع فرقوں کی ابتدا چونکہ مسلمانوں میں ہوئی ہوتی ہے، لہذا ان میں اور مسلمانوں میں بہت سے امور مشترک ہوتے ہیں۔ لیکن صوفیائے کرام کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کا فتویٰ یہ ہے کہ یہ ائمہ مسلمین اسلام سے مختلف اور اس کے مقابل”ایک متوازی دین“ کو مانتے ہیں۔ اگر دو خطوط متوازی ہوں، تو انہیں جانبین میں جتنی بھی توسیع دی جائے، ان کا اتصال غیر ممکن ہوتا ہے۔ سو یہ تکفیر کی شنیع ترین قسم ہے، کیونکہ صوفیاء کے کفر میں اور باقی ماندہ مسلمانوں میں (جن میں خود غامدی صاحب کا گروہ ہی بچتا ہے!) ادنیٰ درجے کا اشتراک و اتصال بھی ممکن نہیں رہتا۔ اپنے فرقے کے علاوہ دیگر مسلمانوں کو بحیثیت مجموعی کافر قرار دینا وہ متشدد طرز عمل ہے جو خوارج ، قادیانیوں، اور داعش کے پیشواؤں میں ظاہر ہوا، جس سےجاوید احمد غامدی صاحب اور ان متشددگروہوں کے مابین ایک پہلو سے گہرا فکری اشتراک نمایاں ہوتا ہے۔
تیسری وجہ: جاوید غامدی صاحب کا یہ تکفیری فتویٰ فقط ان اصحاب کو نشانہ نہیں بناتا، جن کے نام صراحتاً لیے گئے ہیں، بلکہ خود ”تصوف“ کو اسلام کے مقابل ایک مختلف، متوازی دین، اور عالمگیر ضلالت قرار دیتا ہے، جس سے اکثر مسلمان جو تصوف کے قائل ہیں اور کسی بڑے اہل تصوف کے متبعین میں خود کو شمار کرتے ہیں مثلا ہندوستان کے حنفی (دیوبندی، بریلوی) امام غزالی، حضرت مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے متبع ہیں، اور اہل حدیث کے نزدیک شاہ اسمعیل صاحب ”عبقات“ بڑے مقتدا ہیں۔ افریقہ، مشرق وسطی، اور مشرق بعید کے مسلمان بھی مختلف سلاسل تصوف کے ارادت مند ہیں۔ سو تمام امت یا امت کی اکثریت کی تکفیر ہو جاتی ہے۔
چوتھی وجہ: جاوید غامدی صاحب کا یہ فتویٰ تکفیر کی شنیع تر صورت اس وجہ سے بھی ہے، کہ یہاں امت کے اساطین و زعماء ان کے غضب کا نشانہ بنے ہیں۔ اس فہرست میں شامل لوگوں کے مقام اور مرتبے کو دیکھیے۔ مثلاً جو لوگ داتا دربار، لاہور جا کر رسومات ادا کرتے ہیں، ان کو کچھ لوگ بدعتی وغیرہ کہتے ہیں، لیکن جاوید غامدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ خود شیخ علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بھی دائرہ دین سے نکل گئے، نعوذباللہ۔ جن بڑی شخصیات کی تکفیر غامدی صاحب فرما رہے ہیں، عامۃ المسلمین کے نزدیک نہ صرف وہ مسلمان ہیں، بلکہ مسلمانوں کے مجددین اور ائمہ میں سے ہیں، اور زمین پر دینِ اسلام کی نشانیاں سمجھے جاتے ہیں۔ کفار بھی ان کو اسلام کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور لاکھوں کفار کو اسلام قبول کرانے میں بھی صوفیاء کا مرکزی کردار رہا ہے۔
زاہد تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں!
دوسری بات یہ ہے کہ اصول میں تکفیر کے جائز و ناجائز ہونے پر، فکر فراہی کے اکابرین میں بھی اختلاف ہے، اور امین احسن اصلاحی کی رائے بھی جاوید احمد غامدی صاحب کے خلاف ہے۔ مثلاً، امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں کہ منکرینِ حدیث کو چاہیے کہ وہ:
یہ موقف اختیار نہ کریں کہ علماء کو کسی پر کفر کا فتویٰ لگانے کا حق نہیں ہے۔ اس امر میں تو شبہ نہیں کہ اسلامی نظام میں کسی کے کفر و ارتداد پر اس کو سزا دینا حکومت کا کام ہے، لیکن یہ بتانا کہ کیا چیز کفر ہے اور کیا چیز اسلام ہے، ہر حال میں علماء ہی کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری ان پر اللہ اور رسولؐ کی طرف سے ڈالی گئی ہے۔ اگر وہ اس کو ادا نہ کریں گے تو اس کے لیے وہ عنداللہ ذمہ دار ٹھہریں گے۔ یہ ذمہ داری یوں تو ان پر ہمیشہ رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی، لیکن خاص طور پر اس زمانہ میں تو اس کے تنہا حامل وہی ہیں، اس لیے کہ اس دور میں مسلمان حکومتوں کو لوگوں کے کفر و ایمان کے معاملہ سے کوئی تعلق باقی ہی نہیں رہ گیا ہے۔ وہ یا تو سیکولرازم کے پردے میں غیر جانب دار بن کر بیٹھ گئی ہیں، یا پھر مغربیت کے زیر اثر آزادی و بےقیدی کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر علماء بھی لوگوں کی ہدایت و ضلالت کے معاملہ سے بالکل بے تعلق ہو کر بیٹھ جائیں تو اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا نکلے گا کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت شیطان اور اس کی ذریات کی صرف ایک چراگاہ بن کر رہ جائے گی (تفہیم دین، صفحات ۱۷۰ تا ۱۷۱)۔
یہی نہیں، بلکہ امین احسن اصلاحی نے اس کے بعد واضح کیا ہے کہ وہ خود بھی انکارِ حدیث کو ”کفر“ سمجھتے ہیں، اور منکرینِ حدیث کی تکفیر کے حق میں، علماء نے کفر کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، اس کی تائید کرتے ہیں۔ غلام احمد پرویز کے بارے میں لکھتے ہیں: ”بظاہر وہ صرف حدیث کے منکر ہیں، لیکن حقیقت میں وہ رِسالت کے منکر ہیں.“ (تفہیم دین، ۱۷۲)۔ ظاہر ہے کہ رسالت کا منکر کافر ہوتا ہے۔ پھر منکرینِ حدیث اور قادیانیوں کے بارے میں لکھا ہے: ”راستے دونوں کے بظاہر دو ہیں، لیکن منزل ایک ہی ہے“، اورلکھا ہے کہ ”منکرینِ حدیث نے نصوص کی تاویلات میں جو روش اختیار کی ہے وہ اس قدر غلط ہے کہ اِن کے سامنے قادیانی حضرات کس گنتی میں ہیں؟“ (تفہیم دین، ۱۷۲)۔ اس سے بھی واضح ہے کہ وہ منکرین حدیث کو قادیانیوں جیسا بلکہ ان سے بھی زیادہ پکا کافر سمجھتے ہیں۔ امین احسن اصلاحی کے نزدیک قادیانیوں کی طرح منکرین حدیث کے کفر پر بھی اس ملک کے تمام مسالک کا ”اجماع“ ہے (تفہیم دین، صفحات:۱۷۳ تا ۱۷۴)۔ اور ”اس قسم کا اجماع قادیانیوں کے سوا کسی کے کفر پر بھی اس ملک میں نہیں ہوا ہے.“ (تفہیم دین، ۱۷۴)۔ منکرینِ حدیث کی تکفیر کے جس فتوے کا ذکر ہوا ہے، اس پر دستخظ کرنے والوں میں امین احسن اصلاحی کا نام شامل نہ تھا۔ اس سے یہ غلط فہمی ہو سکتی تھی کہ امین اصلاحی شاید منکرین حدیث بالخصوص غلام احمد پرویز کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کو رفع کرنے کی غرض سے امین احسن اصلاحی نے اس بات کی بھی وضاحت کر دی ہے کہ اس فتوے میں ملک کے جن علماء کے دستخط ثبت نہیں ہیں ”اُن کو اس فتوے سے الگ خیال کرنا محض ایک مغالطہ ہے“، اور واضح کر دیا ہے کہ ”یہ بات کہنے میں مجھے ذرا حجاب نہیں کہ پرویز صاحب کے خیالات و عقائد کو میں نے ہمیشہ کفر و ضلالت سمجھا ہے.“ (تفہیم دین، ۱۷۴)۔ واضح ہوا کہ امت میں ”انتہاپسندی“ کا جس المیے پر غامدی صاحب نوحہ خواں ہیں، وہ ”مدرسوں کا مولود فسانہ“ نہیں ہے، بلکہ اس فسانے میں بہت کچھ رنگ خود مدرسۂ فراہی کے اکابرین نے بھی بھرے ہیں۔
خلاصہ یہ ہے کہ تکفیر کے بارے میں جاوید غامدی صاحب کے اس”جوابی بیانیے“ کی کوئی علمی اور دینی بنیاد نہیں ہے۔ مندرجہ بالا دلائل سے واضح ہے کہ اسلام میں تکفیر کی کوئی ممانعت نہیں پائی جاتی۔ تکفیر کا عمل جائز ہے، لیکن حتی الوسع احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ قرآن مجید میں جاوید غامدی صاحب کے موقف کے حق میں کوئی دلیل نہیں، البتہ قرآن مجید سے بالواسطہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ تکفیر جائز ہے۔ احادیث مبارکہ سے بھی تکفیر کا جواز صراحت سے معلوم ہوتا ہے، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے عمل سے بھی۔ اس معاملے میں فکر فراہی کے اکابرین میں سے امین احسن اصلاحی بھی جاوید غامدی صاحب سے مختلف جگہ پر ہیں، اور تکفیر کو جائز، بلکہ اسے علماء کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ مسلمانوں کے قانونی معاملات میں بھی تکفیر کے جواز کے سوا چارہ نہیں ہے۔ اور جاوید غامدی صاحب کے ”جوابی بیانیے“ کے بالکل برخلاف، ان کا اپنا عمل بھی اس کے خلاف ہے۔ وہ اس قدر بڑے پیمانے پر عامۃ المسلمین کی تکفیر فرماتے ہیں جس کی مثال خوارج، قادیانیوں، اور داعش وغیرہ ہی میں ملتی ہے۔ جب وہ عامۃ المسلمین کے دین کو اپنے دین کے متوازی قرار دیتے ہیں، تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ عامۃ المسلمین جاوید غامدی کے دین کو اپنے دین کے متوازی سمجھیں گے۔ دین میں عدم توازن اور تشدد بہرحال بری چیز ہے۔ تکفیر کے معاملے میں متوازن رائے یہ ہے کہ تکفیر جائز ہے لیکن کامل احتیاط کا تقاضا کرتی ہے۔ صوفیاء کرام کے بارے میں ان کے لیے متوازن موقف یہ تھا کہ ”مجھے ان کی بعض تعبیرات سے اختلاف ہے، لیکن یہ اختلاف دینِ اسلام کے اندری ہی رہتے ہوئے ہو رہا ہے۔“ غامدی صاحب نے دونوں معاملات میں متشددانہ رائے اختیار کی ہے، تکفیر کو دوسروں کے لیے حرام قرار دیا، اور خود تقریباً تمام امت کی تکفیر کر دی۔ یہ رویہ ان کی فکر کی انتہا پسندی پر بھی دلالت کرتا ہے اور اُن کے ”جوابی بیانیے“ میں داخلی انتشار اور علمی تضاد پر بھی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔