ہوم << حسینہ واجد کے سیکرٹری سے ملاقات کا احوال - مولوی روکڑا

حسینہ واجد کے سیکرٹری سے ملاقات کا احوال - مولوی روکڑا

کاروبار کے سلسلے میں بنگلہ دیش جانا ہوتا ہے. کچھ دن پہلے گیا تو اتفاق سے بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے پی اے سے ملاقات ہوئی جو حال ہی میں ریٹائر ہوا تھا اور آج کل انویسٹمنٹ بینک چلاتا ہے. ہم نے لنچ ایک ساتھ کیا اور بنگلہ دیش کی مشہور ہلشہ فش کھائی! اس ملاقات کے دوران بہت سے امور پر بحث اور تبادلہ خیال ہوا.
بحث کے دوران میں نے ایک سوال جماعت اسلامی کے لیڈروں پھانسی پر اٹھایا کہ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے؟ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ بنگلہ دیش کے غدار ہو نہیں سکتے کیونکہ جب انہوں نے بالفرض پاکستان کا ساتھ دیا تھا تب تو بنگلہ دیش کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ کوئی آئین جبکہ یہی لیڈران بعد میں بنگلہ دیش اسمبلی کا حصہ تھے اور انھوں نے ملک کی ترقی و خوشحالی اور مضبوطی میں اپنا کردار ادا کیا.
پی.اے نے آرام سے سوال سنا اور عجیب انکشاف کیا اور کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ بد قسمتی سے کچھ سیاستدان ایسے ہیں جو اپنی سیاست زندہ رکھنے کے لیے اکہتر کا کارڈ ابھی تک کھیل رہے ہیں، لیکن حقیقت میں پاکستان نے اکہتر کے بعد کبھی بھی بنگلہ دیش کے داخلی امور میں مداخلت یا کسی قسم کی لابنگ نہیں کی جس کی وجہ سے بنگلہ دیش کا اگر کسی ملک سے سب سے زیادہ complementary relation ہے تو وہ پاکستان سے ہے، جبکہ دوسری طرف انڈیا بنگلہ دیش کا استحصال کر رہا ہے، ابھی انڈیا نے دو بلین ڈالر بنگلہ دیش میں انویسٹ کیے ہیں اور جب بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک میں کچھ انویسٹ کرتا ہے تو اس کے آفسیٹ بھی ادا کرنے پڑتے ہیں چاہے وہ کسی بھی صورت میں ہوں. انڈیا کسی صورت بھی بنگلہ دیش کی اکنامک گروتھ نہیں چاہتا، اس کے اپنے مفادات ہیں، جبکہ پاکستان کو اس سے کوئی سروکار نہیں، ملکوں کے تعلقات مفاد پر مبنی ہوتے ہیں جذبات پر نہیں.
رہی بات جماعت اسلامی کی تو جماعت ایک بہت ہی مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے، جماعت کے وابستگان معمولی لوگ نہیں بلکہ بنگلہ دیش کے بڑے بڑے بزنس مین اس سے وابستہ ہیں جو اپنی تنظیم کے لوگوں کو ہر قسم کے مواقع فراہم کرتے ہیں، جماعت اسلامی اپنے کارکنوں کے روٹس تک پھیلی ہوئی ہے، اور اپنے کارکنوں کی زندگیاں سنوارتی ہے، عوام کے ویلفیئر کے بھی بڑے پروگرام اور نیٹ ورک جماعت چلاتی ہے اور سب کی بلاتفریق خدمت کرتی ہے، اس خصوصیت کے پیش نظر جماعت میں بہت سے ایسے افراد بھی شامل ہو رہے تھے جو بےشک ان کے نظریات سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں. جماعت کے لیڈر گروپ آف کمپنیز کے مالک بھی ہیں اور پیسے اپنے کارکنوں پر خرچ بھی کرتے ہیں. حزب اختلاف میں اگر کوئی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے تو وہ یہ جماعت کے لیڈران ہی ہیں، اس لیے اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ جماعت کے ان لیڈران کو ختم کیا جائے، اور اب اس وقت جماعت کے پاس کوئی نامور لیڈر موجود نہیں ہے، اور یہ سب سیاست ہے. ہاں اس میں اکہتر کا کارڈ ضرور استعمال ہو رہا ہے اور جماعت کے ان لیڈران نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ وقت ان پر آئے گا ورنہ انہوں نے بھی ٹھوس اقدامات اپنائے ہوتے یا ہو سکتا تھا کہ ملک سے باہر چلے جاتے.
بنگلہ دیش کے عوام کو یہی تاثر دیا جا رہا ہے کہ اکہتر کے مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں صرف اپنی پوزیشن اور سیاست کو مضبوط کیا جا رہا ہے، چونکہ پاکستان کا ہمارے ساتھ کوئی بارڈر نہیں لگتا اس لیے اسے بنگلہ دیش کے داخلی معاملوں سے کوئی سروکار نہیں. پاکستان کو دوسرے خطرات لاحق ضرور ہیں، اگر آج پاکستان مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہے تو وہ صرف پاکستان کی آرمی کی وجہ سے کھڑا ہے، جو آج ایک سٹیل کی مانند انڈیا، ایران اور افغانستان گٹھ جوڑ کی ہر سازش کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے، نواز شریف ایک کروک انسان ہے لیکن اس کو لیڈر اسی آرمی نے ہی بنایا ہے، آرمی کا کردار پاکستان کی سیاست میں بہت مضبوط ہے .
ایک سوال میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے متعلق کیا تو پی.اے نے جواب دیا کہ یہ بھی ایک سیاست ہے، جس صوبے میں مسلمانوں کی آبادی ہے وہاں حال ہی میں معدنی ذخائر دریافت ہوۓ ہیں اور جہاں معدنی ذخائر ہوں وہاں امریکہ تو ہوتا ہی ہے، امریکہ کی ہی سر پرستی میں بدھوں کو استعمال کر کے مسلمانوں کا صفایا کیا جا رہا ہے . خیر بہت ہی اچھی نشست تھی، کافی agree and disagreement ہمارے رہے.
سو باتوں کی ایک بات کہ سیاست میں صرف مفاد دیکھے جاتے ہیں، چاہے وہ ذاتی ہو یا ملکی، لہذا مفاد سب سے پہلے، عوام کا کیا ہے؟ سڑکوں پر آتی اور مرتی رہتی ہے .

Comments

Click here to post a comment