ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک غریب سلطنت کا امیر بادشاہ ہوا کرتا تھا، اپنی رعایا سے زبردستی مال ضبط کرنا اور پھر اس مال کو اپنے اوپر لگانا اس کا معمول تھا، فضول خرچی کی عادت اس کو ایسے لگ چکی تھی جیسے کتے کو ہڈی کی.
ایک دن رات خواب میں اس بادشاہ نے ایک بزرگ کو دیکھا جنہوں نے پہلے بادشاہ کو مودبانہ طریقے سے سلام اور نذرانہ عقیدت پیش کیا، اس کے بعد گویا ہوئے کہ اے اپنے خزانے بھرنے والے لعنتی شخص! کچھ عوام پر بھی لگا، بادشاہ نے خواب کو ان دیکھا کر دیا اور صبح اپنے کاموں میں مصروف رہا. اگلی رات پھر بزرگ نے خواب میں دیدار کا شرف دیا لیکن بادشاہ نے پھر نظر انداز کر دیا. یہ سلسلہ 30 دن جاری رہا، آخری رات بزرگ خواب میں پھر نظر آئے لیکن اس بار ان کے چہرے پر جلال نمایاں تھا.
بزرگ نے سلام اور نذرانے کے بعد عرض کیا کہ اے ہڈ حرام بادشاہ! مجھے اور بھی کام کرنے ہیں تیرے لیے فارغ نہیں بیٹھا، اگلا بندہ مجھے اپنے خواب میں اڈیک رہا ہے، یہ بات بادشاہ کے دل پر اثر کر گئی، صبح اٹھتے ہی بادشاہ نے دربار لگوایا اور درباریوں کے سامنے یہ اعلان کیا کہ ”اٹھا ہے میرے دل میں آج رحم کا شوق بہت“ سب درباری سمجھے شاید بادشاہ ان کی جیبیں بھرنے لگا ہے لیکن بادشاہ نے عوام کی خدمت کا اعلان کر کے سب کو ہکا بکا کر دیا.
بادشاہ نے کہا کہ ایک مہینے کے اندر اندر عوام کو فائدے کا کوئی پراجیکٹ دکھانا ہے، اس پراجیکٹ کی لاگت بھی اپنے وزیروں کو بتا دی جو کم و بیش 160 ارب روپے تھی، سب وزیر اس کام میں جُت گئے، ہر کسی کی کوشش تھی کہ اس کا پراجیکٹ منظور ہو تاکہ بادشاہ سے انعام و اکرام کا حقدار ٹھہرے، آخرکار مہینہ گزر گیا بادشاہ نے پھر دربار لگایا.
سب سے پہلے ایک وزیر اٹھا اور اس نے اپنے پراجیکٹ کا مسودہ پیش کیا جس کے مطابق پوری سلطنت میں سکولوں کا جال بچھایا جائے، سکول کی لاگت 10 کروڑ رکھی جائے تو 1600 نئے سکول ہر قسم کی سہولت، سائنس اور کمپیوٹر لیبارٹریوں کے ساتھ کھولے جا سکیں گے، سب وزیروں نے اس پر واہ واہ کی لیکن بادشاہ کو یہ پراجیکٹ پسند نا آیا، وزیر بیچارہ اپنا سا منہ لے کر بیٹھ گیا.
اگلا وزیر اٹھا اور اس نے سکول کے بجائے ہسپتال کا پراجیکٹ سامنے رکھا جس کے مطابق ایک ارب روپے فی ہسپتال مختص ک یے جائیں تو ملک بھر میں 160 ایسے ہسپتال کھولے جا سکیں گے جن میں ہر قسم کی بین الاقوامی سہولت میسر ہوگی، ہسپتالوں کے ساتھ ساتھ اس رقم میں ہی اعلی ترین میڈیکل کالج بھی کھولے جا سکیں گے جس سے ملک بھر میں صحت کی صورتحال بہت بہتر ہو جائے گی، حیران کن طور پر بادشاہ کو یہ پراجیکٹ بھی پسند نہ آیا، بےچارہ وزیر روہانسا ہو کر بیٹھ گیا.
اس کے بعد باقی وزراء بھی اٹھے لیکن کسی کا پراجیکٹ فابل ستائش نہیں تھا، بادشاہ غصے کے عالم میں تھا کہ اس کا کوئی بھی وزیر اتنا عقل مند نہیں کہ ایک ڈھنگ کا پراجیکٹ ہی بنا لائے، آخر کار بادشاہ نے خود سے ایک پراجیکٹ بنایا جس پر بادشاہ کی سالوں کی محنت، سفید بالوں کا تجربہ، خون و پسینہ شامل تھا. بادشاہ نے اعلان کیا کہ سب عوام کو بلایا جائے، یہ پراجیکٹ انھی کے سامنے پیش ہوگا، راجدھانی کی عوام کی جانب پیغام رساں بھیج دیے گئے. آخر کار ایک دن سب عوام ایک وسیع و عریض میدان میں جمع تھی، بادشاہ کا تخت لگ چکا ہوا تھا، کچھ ہی دیر میں ہاتھیوں پر سوار پیادوں اور گھڑ سواروں کے جھرمٹ میں بادشاہ اور اس کے وزیر میدان میں پہنچے، بادشاہ تخت پر براجمان ہوا اور با آوازِ بلند اعلان کیا
”نیا زی محلے سے سے لے کر گجر محلے تک میٹرو ٹرین کا آغاز کیا جائے گا.“
عوام اور وزراء خوشی سے جھوم اٹھے، ملک بھر میں جشن کا سماں تھا، مٹھائیاں تقسیم کی گئیں، تحفے تحائف کا تبادلہ ہوا غرضیکہ جس طرح خوشی منانے کا حق تھا ویسے منائی گئی، بادشاہ اپنے اعلان سے مطمئن تھا کہ اس نے رعایا کے لیے بہت اچھا اور دوراندیشی والا فیصلہ کیا ہے.
اس رات بادشاہ کے خواب میں پھر سے وہ بزرگ آئے، بادشاہ دل ہی دل میں خوش تھا کہ آج بابا جی سے داد و تحسین وصول کرے گا، بزرگ سے روایت کے مطابق سلام دعا، نذرانہ عقیدت پیش کیا، اس کے بعد بزرگ یوں گویا ہوئے ”نیرا ای ڈنگر ایں توں بےغیرت انسان، میرا وی ٹائم برباد کیتا ای“ بادشاہ یہ سن کر خوشی سے جھوم اٹھا اور خواب سے بیدار ہو کر ”اک واری فیرررررر“ کے نعرے لگاتا رہا.
*نوٹ: سائبر کرائم بل کے بعد یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کا کسی بھی زندہ یا مردہ قوم یا ان کے لیڈران سے مماثلت محض اتفاقاً اور اس قوم کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے.
تبصرہ لکھیے