سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سفارش کی ہے کہ الطاف حسین کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کی جائے۔ یہ خبر پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ دستور پاکستان کی کچھ کاپیاں ان معزز اراکین پارلیمنٹ کو بھجوا دوں تاکہ انہیں یہ تو معلوم ہو کہ آرٹیکل 6 ہے کیا اور اس کا اطلاق کس قسم کی صورت حال پر ہوتا ہے۔
یہ مطالبہ اگر کسی ایسے ادارے یا تنظیم کی جانب سے آتا جو آئینی نزاکتوں سے آگاہ نہ ہوتے تو نظرا نداز کر دینے کے قابل تھا لیکن یہ مطالبہ ایوان بالا یعنی سینیٹ کی اس کمیٹی کی جانب سے سامنے آیا ہے جس کا شعبہ ہی قانون و انصاف ہے اور اعترزاز احسن، بابر اعوان اور فاروق نائیک جیسے قانون دان جس کمیٹی کے رکن ہیں۔ اب اگر سینیٹ کی قانون و انصاف کی کمیٹی کی آئین فہمی کا عالم یہ ہے تو یہ ایک انتہائی افسوسناک صورت حال ہے۔
دستور پاکستان کا آرٹیکل چھ ہائی ٹریزن یعنی صریح غداری سے متعلق ضرور ہے لیکن وہ اس کی تمام شکلوں اور تمام صورتوں کا احاطہ نہیں کرتا۔ یہ آرٹیکل غداری کی صرف اس صورت کا احاطہ کرتا ہے جو آئین شکنی کی مختلف شکلوں اس کی ترغیب اور اس میں معاونت پر مشتمل ہے۔ یعنی اس آٹیکل کا بنیادی طور پر صرف آئین شکنی سے تعلق ہے۔ ہائی ٹریزن ایکٹ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہ ایکٹ صرف آرٹیکل چھ کی عملی شرح بیان کرتا ہے اور غداری کی کسی بھی دوسری شکل پر اس ایکٹ کا اطلاق نہیں ہوتا۔ قانون اور آئین سے لاعلم ایک عام آدمی یہی سمجھتا ہے کہ غداری کی کوئی بھی صورت ہو اس پر آرٹیکل چھ لگتا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ تاہم ایک عام آدمی کی بات الگ ہے لیکن اگر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی آئین فہمی کا حال بھی یہ ہو تو یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔
الطاف حسین کے جرائم تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121 اور (a) 123 کے تحت آتے ہیں۔ دفعہ 121 میں لکھا ہے کہ جو آدمی پاکستان کے خلاف جنگ کرتا ہے یا اس کی ترغیب دیتا ہے یا اس کی کوشش کرتا ہے اسے سزائے موت یا عمر قید دی جائے گی اور ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔ اسی طرح دفعہ (a) 123 کا کہنا ہے کہ جو شخص پاکستان کو گالی دیتا ہے یا قیام پاکستان کے عمل کی مذمت کرتا ہے اور پاکستان کی سالمیت کے خاتمے کی کوشش یا تائید کرتا ہے تو اسے دس سال تک قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے اور ساتھ ہی جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔
الطاف حسین کے جرائم جس نوعیت کے ہیں ان پر تعزیرات پاکستان کی یہی دو دفعات لاگو ہوتی ہیں۔ آرٹیکل چھ کا الطاف حسین کے جرائم سے کوئی تعلق نہیں۔ معلوم نہیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے کس دلیل اور کس منطق کے تحت الطاف حسین پر آرٹیکل چھ لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مقام حیرت ہے کہ ایوان بالا کے معزز اراکین جن کا بنیادی کام ہی دستور سازی ہے، دستور کی تفہیم کے باب میں اس رویے کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر سینیٹ جیسے ادارے کے محترم اراکین کو آرٹیکل چھ کے دائرہ کار کا علم نہیں ہے اور اس کمیٹی میں ملک کے تین نامور قانون دان بھی شامل ہیں تو یہ جاننے کے لیے ہمیں کسی آئن سٹائن کی ضرورت نہیں کہ آئین کی بالادستی کا خواب اس سماج میں کبھی شرمندہ تعبیر ہو پائے گایا نہیں۔
تبصرہ لکھیے