ہوم << اچھا قلم کار کیسے بنیں - رضی الاسلام ندوی

اچھا قلم کار کیسے بنیں - رضی الاسلام ندوی

جماعت اسلامی ہند کے حلقہ کرناٹک نے دو سال قبل ریاستی سطح پر اپنے ارکان و کارکنان میں سے ان لوگوں کا تربیتی پروگرام منعقد کیا جو لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ پروگرامبنگلور میں منعقد ہوا۔ شرکاء کی تعداد سو سے متجاوز تھی، جن میں تیس سے زاید خواتین اور طالبات تھیں۔ Resource Persons کی حیثیت سے ماہرین کو مدعو کیا گیا تھا، جنھوں نے تحریر و تصنیف، مضمون نویسی، ترجمہ نگاری، اخبارات کے لیے مضامین، کالم، خطوط لکھنا اور اس طرح کے دیگر اہم موضوعات پر قیمتی نکتے پیش کیے۔ شرکاء سے پریکٹیکل بھی کروایا گیا اور ان کی تحریروں کو جانچ کر انھیں مشورے بھی دیے گئے۔ یہ ایک بہت مفید پروگرام تھا۔
مرکز جماعت سے ڈاکٹر حسن رضا، ڈائرکٹر اسلامی اکیڈمی اور راقم سطور کو دعوت دی گئی تھی۔ مجھے ’تحریر اور ترجمہ کا فن‘ کے عنوان پر بولنا تھا۔ میں نے اپنی تقریر کے نکات پہلے سے نوٹ کر لیے تھے۔ اب جب کہ میرے پاس تقریر کی ریکارڈنگ بھی نہیں ہے اوراس موضوع پر تفصیلی مقالہ لکھنے کی خواہش، مصروفیات کی وجہ سے پوری نہیں ہوسکی ہے، ان نکات ہی کو عام کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے اللہ کے کسی بندے کو ان میں کام کی کوئی چیز مل جائے۔
تحریر کی اہمیت

      ٭       اظہار و بیان کی صلاحیت اللہ تعالی کی نعمت ہے۔
      ٭       اظہار کے بنیا دی ذرائع دو ہیں :(1)زبان یعنی تقریر(2) قلم یعنی تحریر
      ٭       تقریر کے مقابلے میں تحریر کی اہمیت زیادہ ہے۔ اس لیے کہ :
               1۔ وہ زیادہ مستند ہوتی ہے۔
               2۔ اس کے اثرات دور رس ہوتے ہیں۔
               3۔ اس کے اثرات دیرپا ہوتے ہیں۔
               4۔ مخاطب کو سہولت ہوتی ہے کہ جب چاہے اس سے استفادہ کرے۔
               5۔ تحریر پر غور و فکر کا موقع زیادہ ملتا ہے۔
      ٭       آسمانی کتابیں تحریری شکل میں دی گئیں۔
      ٭       قرآن کریم میں بھی تحریر کو اہمیت دی گئی ہے:الذی علّم بالقلم(العلق:4)ن و القلم و ما یسطرون(القلم:1)
                قرآن میں کتاب، کتب کے الفاظ 263 مرتبہ اور اس مادہ سے دیگر الفاظ 57 مرتبہ آئے ہیں۔ کل: 320 مرتبہ
               صرف ایک آیت(آیت مداینہ: البقرۃ: 282) میں کتب کے مادے سے  یہ لفظ 9 مرتبہ آیا ہے۔
      ٭       تحریک اسلامی کے اکابر نے بھی تحریر کی طرف خاطر خواہ توجہ دی ہے۔

تحریر و تصنیف کا فن۔ خداداد یا اکتسابی؟

      ٭       خطابت اور انشاء پردازی خداداد صلاحتیں ہیں۔ عربی کی مشہور مثل ہے: لیست النائحۃ کالثکلی (جس عورت کو کسی میت پر رونے کے لیے کرائے پربلایا گیا ہو، وہ اس طرح رو ہی نہیں سکتی جس طرح وہ عورت روتی ہے جس کا اپنا بچہ مر گیا ہو۔ )
      ٭       لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مشق و مزاولت سے ہر صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے اور ہر فن میں مہارت حاصل کی جا سکتی ہے۔

تحریر و تصنیف سے قبل چند بنیادی باتیں :
1۔ مقصد صالح اور نیت پاکیزہ رکھیے۔ جو کچھ لکھیں گے اس پر اللہ تعالی اجر سے نوازے گا۔
2۔ لکھنے کا آغاز کرنے سے قبل موضوع متعین کیجیے۔
3۔ اس موضوع پر اب تک جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اس کا مطالعہ کیجیے۔ جدید اصطلاح میں اسےLiterature Survey کہتے ہیں۔
4۔ لکھنے سے قبل معلومات جمع کرتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھیے کہ وہ مستند ہوں۔
5۔ جو کچھ لکھنا ہے اس کا پہلے سے ایک خاکہ (Synopsis) تیار کر لیجیے، کہ کس ترتیب سے مضمون لکھنا ہے؟
دورانِ تصنیف ملحوظ رکھے جانے والے آداب:
1۔ تحریر کا مختصر ہونا پسندیدہ ہے: خیرالکلام ما قلّ و دلّ ( بہترین کلام وہ ہے جس میں الفاظ کم ہوں مگر مفہوم واضح ہو۔)
2۔ مضمون بڑا ہو توذیلی عناوین (Sub-Headings) ضرور شامل کیجیے۔
3۔ تمہید مختصر رکھیے۔ وہ ایسی ہو کہ قاری آگے پڑھنے پر آمادہ ہو جائے۔
4۔ مضمون کا خاتمہ ’حاصل بحث‘ پر کیجیے۔
5۔ ایک بات کو ایک جگہ ہی لکھیے۔ تکرار سے بچیے۔
6۔ حوالوں کا اہتمام کیجیے۔
7۔ تحریر مکمل ہو جانے کے بعد اس پر نظر ثانی ضرور کیجیے۔ اپنے ناقد خود بنیے۔
مؤثر تحریر کے لیے ضروری امور:

      1۔ لکھنے کا آغاز کرنے سے قبل افکار کو ذہن میں صاف کیجیے، پھر انھیں ترتیب وار کاغذ پر منتقل کیجیے۔
      2۔ افکار میں ربط و تسلسل کو ملحوظ رکھیے۔
      3۔ مناسب اور موزوں الفاظ کاانتخاب کیجیے۔
      4۔ مشکل الفاظ سے پرہیز کیجیے۔ مترادفات کا استعمال کم سے کم کیجیے۔
      5۔ صحتِ الفاظ پر توجہ دیجیے: املا، تذکیر و تانیث، فعل فاعل، واحد جمع
      6۔ جملوں کی بناوٹ درست رکھیے۔
      7۔ جملے چھوٹے چھوٹے استعمال کیجیے۔
      8۔ مثالوں اور دلیلوں سے بات کیجیے۔

اسلوب، اندازِ پیش کش کو بہتر بنانے کا طریقہ

۔ مستند اہلِ زبان ادیبوں کی تصنیفات کا برابر مطالعہ کرتے رہیے۔

Comments

Click here to post a comment