عید الاضحی قریب آتے ہی دنیا بھر سمیت پاکستان میں بھی کانگو وائرس کے پھیلائو کی افواہیں بھرپور طریقے سے پھیلائی جا رہی ہیں۔ آج مویشی منڈی جانے کا اتفاق ہوا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ خریداروں کے لیے کسی بھی قسم کی انتظامات کے بجائے جانوروں کے ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی بڑی تعداد موجود ہے۔ سرکاری اہلکار کانگو وائرس کے حوالے سے بھاگ دوڑ کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والے چند دنوں میں کانگو وائرس ہمارے ملک کا گرم ترین موضوع بننے والا ہے۔ پنجاب میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں اور گزشتہ سالوں کے دوران ڈینگی کی طرح اب ہر قسم کی ہلچل کانگو وائرس کے حوالے سے ہوگی۔
میڈیا پر بھی بھرپور مہم چلائی جا رہی ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے پھیلتا ہے، اس لیے قربانی کے جانوروں کے حوالے سے بھرپور قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا درس دیا جا رہا ہے۔ کسی کو کانگو بیماری کے وجود سے انکار نہیں لیکن عیدالاضحی کے قریب اس کی تشہیر اور افواہوں نے چند شکوک و شبہات کو بھی جنم دیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پولیو کی طرح پاکستان کو کانگو کے حوالے سے شدید قسم کے عالمی دبائو کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ 20 کروڑ آباد ی کے ملک میں کبھی بھی سالانہ چند پولیو کے کیس سامنے آئے لیکن ہر ماہ دو مرتبہ اور کروڑوں کی لاگت سے میڈیا مہم، پولیس اور فوج کی نگرانی میں قطرے پلانا معاملے کو مشکوک بناتا ہے۔ دوسری جانب عالمی اداروں کی ہی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کروڑوں لوگ ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں، ڈائریا سے بھی کروڑوں لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ زچگی کے دوران لاکھوں خواتین ہر سال جان کی بازی ہار جاتی ہیں، صاف پانی دس فیصد لوگوں کو بھی میسر نہیں جس کی وجہ سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔ لیکن کوئی بھی عالمی ادارہ پاکستانیوں کی صحت کو درپیش ان مسائل کے لیے ایک ڈالر بھی دینے کو تیار نہیں جبکہ پولیو کے لیے اربوں کے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں جس کے مریض کبھی بھی چند درجن سے زائد نہیں رہے۔ حد یہ ہے کہ عالمی ادارے دھمکی اور بھرپور دبائو سے پولیو کے قطرے پلانے پرمجبور کرتے ہیں۔
اور اب کانگو وائرس کے پھیلائو کا چرچا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ جب میڈیا پر ڈاکٹرز ہر وقت ان خطرات سے آگاہ کر رہے ہوں گے کہ جو کانگو وائرس سے پھیلتے ہیں تو بہت سے صحت و صفائی کے حوالے سے” وہم“ کا شکار گھرانے فوری طور پر اس بار سنت ابراہیمی کے بغیر ہی عید منانے کا ارادہ کر لیں گے۔ علمائے کرام کو بلا کر اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں گے کہ ” کیا جان کو خطرہ لاحق ہو توقربانی جیسی عبادت کرنی چاہیے؟“ ظاہر ہے اس سوال کا جواب کیا دیا جاسکتا ہے۔ سیکولر ذہنیت کے زیراثر پہلے ہی ہمارے ہاں بہت سے نام نہاد سکالرز اس بات کی تلقین کرتے پائے جاتے ہیں کہ ”جانوروں کو ذبح“ کرنے کے بجائے پیسے غریبوں میں بانٹ دیے جائیں یا کسی غریب کا گھر بسا دیا جائے۔ ہاں البتہ انہیں ایسا خیال کسی فیشن شو، نیو ائیرنائٹ یا ایسے ہی مہنگے تہواروں کے موقع پر نہیں آتا۔ خدشہ ہے کہ ہمارے ملک میں کانگو سے ہلاکتوں کا چرچا بہت جلد عام ہونے والا ہے۔ حالیہ دنوں میں بچوں کے اغوا کی افواہیں اتنی بڑی تعداد میں عام ہوئیں کہ ایسا لگتا تھا کہ ہر گھرانے کا کم سے کم ایک بچہ ضرور اغوا ہوا ہے لیکن جب حقائق سامنے آئے تو معاملہ الٹ نکلا۔ لیکن میڈیا نے اس حوالے سے ہیڈ لائنز اور فرنٹ پیج کوریج دی اور ہر واقعے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا، بیسیوں افراد کو محض شک کی بنیاد پر اغواء کار قرار دے کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈینگی کے حوالے سے بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ کوئی اگر طبی موت بھی مرا یا کسی بھی بیماری سے اللہ کو پیارا ہوگیا تو بھی میڈیا نے بریکنگ نیوز یہی چلائی” ڈینگی سے ایک اور موت“۔ کچھ اسی طرح کی میڈیا مہم کانگو وائرس کے حوالے سے بھی چلنے والی ہے۔ بریکنگ نیوز کچھ اس طرح کی ہوں گی کہ فلاں شہر میں کانگو وائرس کا ایک اور کیس سامنے آ گیا۔ مریض کے گھرانے میں تین روز قبل ہی قربانی کا جانور لایاگیا تھا۔
حیران کن بات یہ بھی ہے کہ کانگو کے اب تک جو کیس سامنے آئے ہیں وہ بڑے شہروں سے ہیں ۔کتنا عجیب ہے کہ وہ گڈریے اور مویشی پالنے والے جو کہ چوبیس گھنٹے ان میں رہتے ہیں ان کو کانگو وائرس متاثر نہیں کرتا بلکہ شہر کے ماحول میں جیسے ہی وہ جانور کسی گھرانے میں پہنچتا ہے تو اس کی خواتین اور خصوصا بچوں کو کانگو وائرس متاثر کر دیتا ہے۔ کسی پر الزام ٹھیک نہیں لیکن کچھ ایسے اداروں اور کمپنیوں کے حوالے سے چھان بین ہونی چاہیے جو بڑی تشہیری مہم چلاتی ہیں کہ بس پیسے ہمیں دیں اور قربانی کا گوشت لے جائیں بغیر کسی مشقت کے۔ کسی بیماری کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن کروڑوں کی آبادی میں صرف چند کیس سامنے آنے پر افواہوں کے ذریعے اگر ڈر و خوف کی فضا قائم کر دی جائے تو اسے بھی عقلمندی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اللہ تعالی ہر کسی کو ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے لیکن ایک انجانے وہم اور نفسیاتی مرض میں مبتلا ہوجانا بھی ٹھیک نہیں۔
قربانی کے جانوروں کو گھرل انا، بچوں کا کھیلنا، سنت رسولﷺ کی ادائیگی کے مقدس جذبات، غریبوں کے گھروں تک گوشت پہنچانا، خواتین کا قربانی میں شریک ہونا، گوشت کو پکا کراخوت و صلہ رحمی کے فروغ کے لیے دعوت دینا، غرض بہت کچھ ایسا ہوتا ہے کہ جو عید الاضحی کو خوشیوں سے بھرپور بنا دیتا ہے۔ خدشہ ہے کہ ایک انجانے خوف کے تحت اور افواہوں کے زیر اثر قربانی کے جانوروں سے دور رہنے کی تلقین ہم سے زندگی کی بہت سی خوشیاں چھین لے گی۔ معاشرے میں اس حوالے سے آگاہی دینے کی ضرورت ہے اور یہ ہر اس انسان کا فرض ہے کہ جسے سنت ابراہیمی اور نبی اکرمﷺ کی سنت مبارکہ سے محبت ہے۔ پیارے پاکستانی مسلمانو! اس بار ذرا ہوشیار رہنا.
تبصرہ لکھیے