اماں ، اماں۔
ذرا کمرے میں آنا اس کی طبیعت خراب ہے۔
تو مجھے کیوں بتا رہا ہے جا کہ دائی بشیراں کو بلا لا۔ اور مجھے سونے دے اب۔
اماں ناراضگی چھوڑ دے اب اور، میرے ساتھ چل ذرا دیر کے لیے۔
میں نے کہا نا کہ میں نہیں آ رہی۔ بشیراں کو بلا لا۔
جب سے میری بیوی کا ڈولا اس گھر میں آیا۔ میری زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی۔ بیوی کی سنوں تو زن مرید، ماں کی سنوں تو بیوی کی نظروں میں برا۔
پچھلے آٹھ نو ماہ میں اس گھر کا نقشہ ہی بدل گیا۔ صبح شام کی چخ چخ نے مجھے محلے میں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آئے دن لڑائی جھگڑے ، چیخ و پکار اور طعنوں نے گھر کو جہنم بنا ڈالا۔
قصور۔؟ قصور تو شاید کسی کا نہیں تھا۔ اگر بیوی بد زبان تھی تو ماں میں بھی حوصلہ نہیں تھا۔
مگر وہ ماں تھی اور اسی بات کی بیوی کو سمجھ نہیں تھی۔
اب میرے گھر میں خوشخبری تھی۔ گو کہ ان دنوں ماں نے بہو کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اور اکثر اوقات تو وہ اس کی جلی کٹی بھی برداشت کر گئی تھی، جس سے میں بہت خوش تھا کہ چلو اب شاید گھریلو ماحول میں تنی کشیدگی کچھ کم ہو جائے۔
مگر میں آج آفس سے آیا تو ، آج پھر صحن پانی پت کا میدان بنا ہوا تھا۔
اب میں اس ماحول میں کیا کرتا۔ خاموشی سے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
پیچھے بیگم بھی آگئی۔ اس نے مجھے خوش کرنے کی بہتیری کوشش کی مگر میں منہ موڑے سو گیا۔
رات کو تقریباََ 2 بجے اس نے مجھے جگایا کہ مجھے درد ہو رہی ہے۔
میں بھاگم بھاگ اماں کے پاس گیا کہ چلو اس کو خوشخبری دوں اور۔
مگر اماں نے میرا دل توڑ دیا۔
اس نے بالکل ہی لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔
میں افسردہ انھی سوچوں میں ڈوبا دائی کے گھر جا پہنچا۔
اسے اپنے ساتھ لے کر آیا۔
اور، صبح کے 5 بجے میری بیوی نے انتہائی جانکنی کے بعد ایک بیٹے کو جنم دیا۔
دائی کے فارغ ہونے کے بعد میں کمرے میں گیا تو میری بیوی نیم بےہوشی کی حالت میں تھی۔
میری موجودگی کا احساس پاتے ہی وہ گویا ہوئی، اماں یہ دیکھیں آپ کا پوتا کتنا پیارا ہے۔
گو کہ بچے کی رونے کی آواز سن کر میری ماں جو صبح نماز کے بعد قرآن کی تلاوت کر رہی تھی وہ بھی بے چین تھی، اور کمرے میں آنا چاہتی تھی، مگر ہچکچا رہی تھی۔
میں نے بیوی کے ماتھے پہ بوسہ دیا تو وہ جاگ گئی اور کہا اماں کہاں ہے۔؟
میں ایک خود غرض بیٹا، اس کے علاوہ بھلا کیا جواب دیتا کہ چھوڑو اماں کو۔ اس نے کون سا تمھارا احساس کیا تھا۔
مگر میں ایک مرد تھا۔ کسی بھی ماں کا درد نہیں جان سکتا تھا۔
اس لیے جب میں بھٹکنے لگا تو ایک عورت (مری بیوی) نے ہی مجھے صحیح راستہ دکھلایا اور کہا نئیں قربان۔
ایسے نہ کہو۔ وہ ماں ہیں اور میں بھی اب ایک ماں ہوں، اس لیے ماؤں کا دکھ سمجھ سکتی ہوں ۔
جا کر اماں کو بلا لاؤ تاکہ وہ بھی اپنے پوتے کو دیکھ سکے، تاکہ وہ بھی اپنے بیٹے کے بیٹے کو گود میں لے سکے، تاکہ وہ بھی اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کر سکے
اور آج پھر ماں جیت گئی تھی۔!
تبصرہ لکھیے