ہوم << ہجرت نبویﷺ اسٹریٹجک پلاننگ کا شاہکار - زبیر منصوری

ہجرت نبویﷺ اسٹریٹجک پلاننگ کا شاہکار - زبیر منصوری

11709589_10206800857727845_937974684333049234_nمیرے پیارے نبیﷺ پوری جرات، حوصلے اور بہادری کے ساتھ دعوت کے میدان، مکہ میں موجود ہیں۔ ظلم ہے، جذباتی، نفسیاتی و جسمانی ایذا رسانی ہے، مالی و معاشرتی نقصانات ہیں، روز ابو جہل کا سامنا ہے، روز ابو لہب اور ابو سفیان سے مکہ کی گلیوں میں، خانہ خدا کے صحن میں، بازار اور راستوں میں مڈ بھیڑ ہوتی ہے، مگر آپ ؐ کوہ استقامت بنے کھڑے رہتے ہیں۔ اللہ کی زمین پر، اللہ کے بندوں پر، اللہ کی مرضی چلانے کا مشن پہلے دن کی طرح زندگی کا پہلا اور آخری مشن ہے اور اس کی انجام دہی، تن دہی کے ساتھ جاری و ساری ہے جب تک دعوت کا اتمام حجت نہ ہوجائے، جب تک اللہ اپنا فیصلہ جاری نہ کردے۔ میرے پیارے نبی ﷺ کیسے اپنے فرض سے ایک انچ بھی ادھر یا ادھر ہوسکتے تھے؟
ایسے میں ایک دن اللہ کی مشیت کے مطابق وہ ٹھیک وقت آن پہنچتا ہے جب آپ ﷺ کو اذن ہجرت ملتا ہے۔ یہ میرے نبیﷺ کی زندگی کے اہم ترین مرحلوں میں سے ایک ہے۔ ایک طرف اپنے آبائو اجداد کا شہر ہے جو اب ان کے دشمنوں سے بھر چکا ہے او دوسری طرف مدینہ میں اسلامی ریاست کا آغاز کرنے کے لیے وہاں ہجرت کر جانے کا مرحلہ ہے۔ مسلمان وہاں موجود ہیں مگر ان کا سربرا ہﷺ ابھی مکہ میں ہے، خطہ ارض پر ایک ایسا زمین کا ٹکڑا فراہم ہو چکا ہے جس پر اقامت دین کا کام ہونا ہے۔ ایسے میں میرے نبی ﷺ اپنے محبت و حفاظت کرنے والے رب کی رہنمائی میں سفر ہجرت کا ایک مکمل اور غلطی سے پاک اور کامیاب اسٹریٹجک پلان بناتے ہیں اور امت کے لیے یہ رہنمائی چھوڑ جاتے ہیں کہ حالات جتنے خطرناک، نازک اور حساس ہوں پلان اتنا ہی خوب سوچا سمجھا Senario Analysis کر کے تیار کیا اور یقینی کامیابی کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا ہو کیونکہ جو لوگ پلاننگ میں ناکام رہتے ہیں وہ دراصل ناکامی کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں۔
آئیے میرے نبی محترم ﷺ کی ہجرت اسٹریٹجک پلان کے چند نکات سے اپنے آج کے حالات کے لیے کچھ سیکھتے ہیں۔
٭لیڈر آخری وقت تک میدان عمل میں رہتا ہے۔ امید کی آخری کرن تک کو ضائع نہیں ہونے دیتا۔ کہیں جلد بازی، خوف یا کم ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرتا (مکہ میں ظلم انتہا پر، ساتھی ہجرت کر چکے، مگر لیڈرﷺ میدان میں موجود)
٭جب فیصلہ کر لیتا ہے تو پھر اپنے اعتماد کے اور قریب ترین ساتھیوں سے مشورہ کرتا اور ان کے ساتھ مل کر منصوبہ ترتیب دیتا ہے (حکم ہجرت کے بعد حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ مل کر پلاننگ )
٭ پلان پر عملدرآمد کے لیے درست ترین وقت کا انتخاب کرتا ہے (رات کے وقت گھر سے روانگی کا فیصلہ )
٭دشمن کو آخری وقت تک مکمل غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کی بہترین منصوبہ بندی (حضرت علی ؓ کو اپنی جگہ پر اس طرح سلانا کہ دشمن نے رات میں اندر جھانکا تو بھی اسے پتہ نہیں لگا حتی کہ آپ ﷺ محفوظ مقام تک پہنچ گئے)
٭مکمل کیمو فلاج، اور منصوبے کی جزئیات تک پر غور، میرے نبی محترم ﷺ نے کمال الہامی ذہانت سے حضرت علی ؓ کو اپنی حضرمی چادر اوڑھاکر سونے کا حکم دیا تاکہ دشمن کو رتی برابر بھی شک نہ ہو۔ فرض کریں اگر حضرت علی ؓ اپنی چادر اوڑھ کر سوتے تو دشمن نے جس وقت گھرمیں جھانکا تھا اسے اسی وقت پتہ چل جاتا (اکثر ہماری پلاننگ کسی بڑی خامی سے نہیں، کہیں چھوٹی سی بات کو نظر انداز کردینے کے نتیجے میں ناکام ہوجاتی ہے، کہتے ہیں کہ بڑے بڑے جہاز چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے ڈوب جاتے ہیں)
٭پلاننگ دشمن کی سوچ کو سامنے رکھ کر اس کے موجودہ اور آئندہ اقدامات کے پیش نظررکھ کر فرمائی۔
٭رات کے وقت گھر سے نکلنے کے بعد میرے نبی محترم ﷺ ان کافروں کے سروں میں خاک ڈالتے ہوئے روانہ ہوئے اور حضرت ابوبکرصدیقؓ کو ساتھ لیتے ہوئے مدینہ کی سمت (شمال) کے بجائے بالکل الٹ یمن (جنوب ) کی طرف روانہ ہوئے تاکہ دشمن کا ذہن ممکنہ طور پر جس سمت تلاش کے لیے جائے وہاں وہ آپ ؐ کی گرد تک بھی نہ پا سکے، اور وقت ضائع کر دے۔ کمال الہامی ذہانت و فراست دیکھیے کہ پیشگی سوچ لیا کہ دشمن ہرگز پیچھا نہیں چھوڑے گا، تلاش کے لیے نکلے گا۔ آپ نے اس کا ذہن پہلے سے پڑھ لیا اور اس کا خوب صورت آسان اور قابل عمل حل تلاش کرتے ہوئے سمت ہی بدل لی۔
٭پہلی محفوظ جگہ (غارثور) اتنی قریب (صرف 5میل دور) تلاش کی گئی کہ جہاں تک آسانی سے تیزی کے ساتھ پہنچ کر خود کو چھپا لیا جائے تاکہ اگر اتفاقاََ دشمن اس جانب آ ہی جائے تو اسے راستہ خالی ملے اور وہ ناکام لوٹ جائے۔
٭ غار ثور مشکل چڑھائی پر پتھریلے اور سخت پہاڑ پر واقع ہے، یقینا اس کا انتخاب بھی پہلے کر لیا گیا ہوگا تاکہ کوئی مسئلہ نہ ہو اور یہ ایسی خطرناک چڑھائی اور دشوار راستہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جب دیکھا کہ اوپر چڑھتے ہوئے پتھروں سے میرے آقا کے پائوں زخمی ہوگئے ہیں تو انھوں نے خود انھیں کندھے پر اٹھالیا۔ یہی نہیں پھر خود جا کر پہلے جائزہ لیا کیونکہ قائد اور پھر وہ بھی میرے نبی ﷺ جیسے قائد کی زندگی، صحت اور عافیت کہیں زیادہ اہم اور قیمتی تھی۔ گویا قیادت ہمیشہ بہت قیمتی ہوتی ہے۔
٭پانچ میل کے فاصلے پر تین دن قیام کی حکمت بظاہر جو سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابوبکر صدیق ؓ جو ابھی کمسن مگر بہت سمجھدار تھے وہ دن بھر قریش مکہ کی محفلوں میں بیٹھ کر ان کی منصوبہ بندیوں کی سن گن لیتے اور رات کے وقت خاموشی اور احتیاط سے قریب ہی واقع غارثور پہنچ کر اپنے آقاﷺ اور اپنے ابا ؓ کو یہ خبریں پہنچاتے۔ گویا دشمن کے منصوبوں سے باخبر رہنے کا مکمل اور فول پروف انتظام آپ ؐ نے روانہ ہونے سے پہلے ڈیزائن کر لیا تھا۔
٭ یہی نہیں بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کے قابل اعتماد نومسلم نوجوان غلام عامر بن فہیرہؓ اب بکریاں چرانے کے لیے کہیں دوسری سمت جانے کے بجائے اسی راستے پر آنے لگے۔ وہ احتیاط سے بکریاں لے کر ادھر آتے اور اپنے دونوں آقائوں کو دودھ اور غذا سے سیراب کرتے اور پھر شام کے وقت کمال ہوشیاری سے بکریوں کو حضرت عبداللہؓ کے پیروں کے نشانات پر چلاتے ہوئے مکہ لے جاتے تاکہ ریت پر ان کے قدموں کے نشانات مٹ جائیں اور کوئی کھوجی انھیں دیکھ کر اس طرف نہ آجائے۔ کیا کمال کا پلان بی ہے کہ ایک حکمت عملی اور اس کے کسی ممکنہ منفی اثر تک کو پیش نظر رکھ کر دوسری حکمت عملی تاکہ کسی خدشے کا شائبہ تک باقی نہ رہے۔
ٌ٭اب سب کچھ کے بعد ان دونوں کا کہ جن کا تیسرا خود اللہ تھا، یہ کمال کا ایمان دیکھیے کہ جب کچھ کھوجی اس راستے پر آ بھٹکتے ہیں اور پھر تلاش کرتے عین پہاڑ کی اونچائی پر واقع غار کے دہانے پر آن کھڑے ہوتے ہیں اور اب بظاہر پلاننگ، احتیاط، تدبر کے باوجود ایک نازک مرحلہ آن پہنچتا ہے ۔
میرے نبی ﷺاپنے عزیز دوست سے فرماتے ہیں کہ پریشان نہ ہونا، یہاں ہم دو کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔ اس مرحلے پر تو پتہ چلتا ہے کہ بندہ مئومن پلاننگ تو پوری کرتا ہے، جزئیات اور تفصیلات تک سوچ ڈالتا ہے اور عملدرآمد کا بہترین پلان ( Executiional Plan) بنا لیتا ہے مگر اس کا اصل بھروسہ، اصل اطمینان ،اصل توکل، اسے اپنے محبت کرنے والے رب پر ہی ہوتا ہے۔ وہ سمجھتا صرف یہی ہے کہ کامیابی،عافیت اور بچائو کی پہلی آخری اور سب سے مئوثر صورت بس اللہ رب العالمین کی عطاکردہ عافیت ہی سے وابستہ ہے اور خود تمام تر پلاننگ بھی دراصل صرف اسی لیے ہے کہ اللہ نے ہی اس کا حکم دیا ہے۔ اللہ ہی چاہتا ہے کہ ہم پہلے اونٹ کا گھٹنا باندھیں اور اس عمل میں کوئی کوتاہی نہ برتیں، اس کو نتیجہ خیز اور یقینی بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں اور جب ہر ہر پہلو سے سوچ کر ایسا کرلیں تو پھر اللہ پر توکل کریں اور نتیجے کو اس پر چھوڑدیں کیونکہ امت مسلمہ نتیجہ کی نہ سہی نتیجہ خیز منصوبہ بندی کی ذمہ دار ضرور ہے۔
٭میرے نبی ؐ نے اس خطرناک مرحلے پر جس طرح اپنے پریشان ساتھی کو حوصلہ دیا، امید دلائی اور اللہ پر ایمان کی عملی تربیت کا ایک قیمتی موقع ضائع نہ ہونے دیا۔ اس سے امت کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اخلاقی و ایمانی تربیت کا بہترین طریقہ عمل کا میدان ہے۔ وہاں سیکھی باتیں عمل کا حصہ بن جاتی ہیں۔ خود سوچیے کہ جو ایمان حضرت ابو بکر ؓ نے اس جملے سے حاصل کیا ہوگا، وہ بھلا کہیں اور کیسے مل سکتا ہے؟
٭قابل اعتماد پروفیشنل ماہرین سے مناسب معاوضہ ادا کرکے مدد لینا بھی عین سنت رسول ﷺ ہے (دین کا کام کرنے والے ڈرائیور، باورچی اور مالی کو تو پیسے دے دیتے ہیں مگر پلاننگ اور پرسیپشن مینجمنٹ کے ماہرین سے معاوضہ دے کر کام کروانے کے بجائے یہ کام خود سے آدھا پونا کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا اہم ترین کام ان لوگوں سے جو اس کام کی الف بے سے بھی ناواقف ہیں)۔ آپؐ نے ہجرت کے اس سفر میں راستہ بتانے کے لیے صحرائی، ویران منفرد راستوں کے ماہر عبداللہ بن اریقط لیثی سے معاملات طے کرلیے تھے کیونکہ اس خطرناک سفر میں وقت ضائع ہونا یا راستہ گم کردینا نہایت خطرناک ہوسکتا تھا۔ مکہ کے اطراف پر راستہ خطرناک اور ہر قبیلہ دشمن تھا، ایسے میں بھروسے کا بہترین اور بھرپور انتظام نہایت ضروری تھا اور آپ نے اس کا بہترین بندوبست کر رکھا تھا۔
٭عبداللہ بن اریقط حضرت ابو بکر ؓ کی پہلے سے دی ہوئی دو صحت مند اونٹنیاں لے کر پہلے سے طے شدہ وقت پر غار تک آن پہنچے تو ابوبکر ؓ نے بہترین اونٹنی آپ ﷺ کو ہدیتاََ پیش کرنے کی کوشش کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ’’ قیمت ادا کروں گا‘‘ سبحان اللہ! حالات کیسے کڑے ہیں، ایک ایک لمحہ نازک ہے مگر میرا نبیﷺ معاملات کا ایسا کھرا ہے کہ اصول یہاں بھی نہیں توڑا اور ادائیگی کی بات کی ۔
٭ سفر ہجرت کا راستہ سیرت کی کتابوں میں بیان ہوتا ہے تو نبوی فراست ﷺ پر بے پناہ پیار آتا ہے۔ عبدللہ بن اریقط نے بھی سفر کا آغاز یمن کے رخ پر (مدینہ کے الٹی سمت) بڑھنے سے کیا، کافی دورجا کر مغرب کی طرف رخ کیا اور ایک غیر معروف ویران صحرائی راستے سے شمال (مدینہ) کی طرف مڑ گیا۔ عفان، امج، قدید، ثنیہ المرہ، لقف، مجاح، ذوالغفوین، ذی کشر، وادی ذو سلم، ثنیہ العائر، وادی رئم سے گزرتا ایک راستے سے دوسرا راستہ کاٹتا ہوا قبا پہنچ گیا (ابن اسحاق) گویا منزل تک پہنچنے کے لیے راستہ کا درست اور یقینی ہونا ضروری ہے چاہے وہ سیدھا اور مختصر نہ ہو، ہاں اگر راستہ درست، یقینی، سیدھا اور مختصر مل جائے تو کیا کہنے ہیں ورنہ اصل چیز تو منزل ہے، باقی سب ثانوی چیزیں ہیں۔
٭ سفر کے دوران ابوبکرؓ نے آقا ﷺ کو اونٹ پر آگے بٹھایا ہوا تھا۔ اب اگر کوئی کہیں پوچھتا کہ یہ کون صاحب ہیں تو فرماتے کہ ’’یہ مجھے راستہ بتاتا ہے‘‘ گویا پلان کے مطابق جواب بھی خود دینا ہے، اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھانا ہے تاکہ سوال بھی ترجیحاََ ان ہی سے ہو، پیچھے بیٹھ کر پشت کو محفوظ بھی کرنا ہے اور آگے دور تک نظر بھی رکھنی ہے اور آقا ﷺ کو پیچھے بٹھا کر ان کی طرف پشت کرنے کی گستاخی بھی نہیں کرنی۔ سبحان اللہ
٭ حالات خواہ کیسے ہی خطرناک کیوں نہ ہوں دعوت اور دین کو فروغ دینے کا کام جاری رہنا چاہیے۔ مقصد (Objective) ہمیشہ سامنے، ٹارگٹ کبھی اوجھل نہیں۔ راستے میں بریدہ اسلمی ؓ بھی 100اونٹوں کے لالچ میں تلاش کرتے آن پہنچتے ہیں مگر آپ ﷺ کے پرنور چہرے کو دیکھ کر، آپ ﷺ سے بات کر کے، آپ ﷺ کی دعوت سے متاثر ہو کر اپنے 70 ساتھیوں کے ساتھ مسلمان ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سراقہ کے ساتھ بھی نرمی و خیر خواہی اور بشارت کا معاملہ کیا، اور اس کو ایسے انعام کی خوشخبری دی جو تاریخ میں امر ہو گئی۔
٭ حالات خواہ کیسے ہی ہوں اپنے ساتھیوں کے ٹاسک اور ان کے اہداف کو کم سے کم ڈسٹرب کیا جانا چاہیے۔ معمولات کو متاثر کیے بغیر آگے بڑھنا چاہیے۔ اسی سفر کے دوران آپ ﷺ کو اپنے قریبی ساتھی حضرت زبیر بن العوام اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کا ایک گروپ اپنے بزنس ٹرپ سے واپس لوٹتا ہوا راستے میں مل جاتا ہے۔ وہ آپ ﷺ کو قیمتی پارچہ جات پیش کرتے ہیں، آپ ﷺ قبول کر لیتے ہیں مگر ان کو ان کے کام سے ہٹا کر اپنی حفاظت پر مامور کرنے یا مدینہ تک ساتھ چلنے کا کہہ کر ان کو مشکل میں ڈالنے کے بجائے آپ ﷺ ان کو ان کے معمول کے مطابق سفر کی اجازت دے دیتے ہیں۔ قیادت کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے لوگوں کا وقت، صلاحیت اور ان کے مفادات کو ضائع نہیں کرتی بلکہ ان کی ذاتی، انفرادی اور نجی خیر خواہی سوچتی اور ان کا بھلا چاہتی ہے۔
آج میرے نبی ﷺ کی امت جن حالات سے گزر رہی ہے، وہ بہت نازک اور تکلیف دہ ہیں۔ امت کو اپنے نبیﷺ کی ان سنتوں کو زندہ کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، شاید پہلے کبھی نہیں تھی، بد قسمتی سے آج ایک بزرگ کی وہ بات صادق آ رہی ہے کہ جب تم کفار کو کامیاب ہوتا دیکھو تو سمجھ لینا کہ انھوں نے تمھاری چیزوں کو اختیار کر لیا ہے اور اگر خود کو ناکام ہوتا ہوا پائو تو سمجھ لینا کہ تم نے ان کی چیزیں اپنا لی ہیں۔ اس صورتحال سے نجات کا واحد راستہ اپنی چیزوں کو پھر سے اپنانے ہی میں مضمر ہے۔

Comments

Click here to post a comment