شام پانچ بجے آگرہ میں نزول ہوا. کینٹ اسٹیشن سے باہر نکلے تو درجن بھر افراد ہماری جانب لپکے. ان کے جوش و خروش کو دیکھ کر ٹرین میں کیے گئے سارے گناہ یاد آگئے. کتنی لڑکیوں کو آنکھیں ماری تھیں، کتنے لوگوں سے سیٹ کے لیے بحث کی تھی اور کسے باتھ روم میں بند کیا تھا، لیکن توقعات کے برعکس جب وہ لوگ آٹو رکشہ ڈرائیور ثابت ہوئے تو جان میں جان آئی. ہر کوئی ہمیں اپنے فراہم کردہ سستے سے سستے ترین ہوٹل میں لے جانے کی ترغیب دے رہا تھا. ان کا سستا ترین ہوٹل بھی بستی نظام الدّین جیسے افسانوی علاقے کے اس ہوٹل سے مہنگا تھا جس کی کھڑکی سے محبوبِ الٰہی اور گیلری سے اسد اللّہ خاں غالب سے براہِ راست کلام کیا جاسکتا تھا.
ان سے محبّت سے التماس کی کہ ہمیں کوئی ہوٹل نہیں چاہیے جس پر کچھ لوگ چلے گئے اور کچھ ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ اگر ان کے فراہم کردہ ہوٹل میں نہ ٹھہرے تو آگرہ میں نار جحیم ہمارا مقدّر ہوگی. ذرا سختی سے کہا کہ ہمیں نہیں چاہیے ہوٹل تو سارے چلے گئے لیکن ایک کمبخت رکا رہا. ٹیلنٹ کی ناقدری اس ملک میں کوئی انوکھی بات نہیں ہے. اسی کی مثال لے لیجیے کہ جو شخص ایک بہترین انشورنس ایجنٹ بن سکتا تھا، وہ آگرہ کی خستہ حال سڑکوں پر بوسیدہ سا رکشہ کھینچ رہا ہے.
”چل بھائی کون سی جنت میں لے کے چل رہا ہے.“ رکشے میں بیٹھتے ہوئے میں نے کہا.
یہ رکشہ ڈرائیور ٹورسٹ کو پہلے آگرہ کی سڑکوں پر گھما پھرا کر کرایہ بڑھاتے ہیں. پھر طے شدہ ہوٹل میں پہنچ کر ٹورسٹ کو روم دلانے کے بعد ہوٹل سے اپنا کمیشن لے کر رفوچکر ہوجاتے ہیں، گویا نوچ کھسوٹ کا یہ کاروبار امدادِ باہمی کے اصولوں پر چلتا ہے. پندرہ بیس منٹ آگرہ کی سڑکوں پر آوارہ گردی کروانے کے بعد وہ ہمیں ہوٹل ایورگرین لے گیا. صاف ستھرا سا ہوٹل قدرے مہنگا ہونے کے باوجود بھلا معلوم ہوا- ہوٹل میں ایک ہی قابلِ اعتراض بات تھی کہ داخلی دروازے پر دائیں جانب ایک برہنہ ناری کا قد آدم مجسمہ رقص کی پوزیشن میں نظر آیا اور بائیں طرف دونوں ہاتھ جوڑے رال ٹپکاتے نریندر مودی کا ڈیجیٹل پوسٹر۔ شاید اس لیے کہ یوپی انتخابات کا بگل بج چکا تھا.
شام ہوچلی تھی۔ ہم نے آوارہ گردی کا ارادہ دوسرے دن پر رکھ دیا۔ ریفریشمنٹ اور ساکاہاری طعام کے بعد ایک دوست نے ”سب کچھ ہیں مگر منکرِ چائے نہیں ہیں“ کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور ہم تہنبد اور ٹی شرٹس کا خوبصورت امتزاج زیبِ تن کیے ہوٹل سے باہر آگرہ کی سڑکوں پر نکل آئے. افق پر پھیلی شفق تاج محل کے ان معماروں کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی تھی جن کے بازو بعض روایات کے مطابق اس”جرم“ میں کاٹ دیے گئے تھے. سرخی کسی بھی طرح کی ہو فدوی کو کچھ کچھ کامریڈ کردیتی ہے. ہر تاج محل کی عظمت کسی شاہجہاں کے خواب کی تعبیر سمجھی جاتی ہے لیکن وہ عظمت ان گمنام معماروں کی مرہونِ منّت ہوتی ہے جن کا پسینہ پتھروں کو موتیوں کی چمک اور پھولوں کی رعنائیاں عطا کرتا ہے.
یا بقول ابن صفی”ہر دور کی تاریخی عمارات افراد پر فرد کے ظلم و ستم کی داستانیں بیان کرتی ہیں کہ ماضی میں ایک شخص اتنا طاقتور اور امیر تھا کہ اس نے لاکھوں کیڑوں مکوڑوں سے دو وقت کی روٹی کے عوض بہت وزنی پتھر اٹھوائے تھے.“
”سوچنے کے لیے ساری رات پڑی ہے. پتہ نہیں تم سوتے کب ہو.“ ایک دوست نے شانوں سے پکڑ کر جھنجھوڑا.
”وہ دیکھو اس لڑکی کی چال، یوں معلوم ہوتا ہے گویا چلنے کے بجائے زمین پر تیر رہی ہو.“ اس نے ایک جانب اشارہ کیا. واقعی زمین پر تیرنے والی بات کسی صورت مبالغہ نہیں تھی. ویسے بھی یوپی کا حسن نسواں محض فسانہ نہیں. شامِ اودھ میں چلمن کے جھروکوں سے حسن و غزل کے وہ جام چھلکائے جاتے ہیں کہ دیدہ بینا میں سوزِ بےنہایت کی شمعیں روشن ہوجاتی ہیں. آئینہ تمثال جبینوں کی تمازت سے یہاں موسمِ باراں میں بھی اپریل اور مئی کی گرمی تھی.
”ہم چائے پینے کے لیے نکلے تھے.“ دوست سے شکوہ کیا.
”چائے تو ہوٹل میں بھی آسکتی تھی، یہ ہے یوپی کی اصل تصویر، میں تمہیں یہ دکھانے کے لیے لایا ہوں.“ دوست نے کہا، جس کے اجداد یوپی سے ہی تعلّق رکھتے تھے.
دکانوں میں دھندلی روشنیاں، جابجا گندگی کے ڈھیر، سڑکوں پر شب کی دھینگا مستی کے لیے جماہیاں لے کر خود کو ”اوورہالنگ“ کر رہے کتّے، ان کے قریب ہی پڑا عالمِ بالا کی سیر کررہا شرابی، البتّہ چائے کہیں نظر نہیں آئی.
ایک جانب بڑی سی کڑاہی میں مسالہ دودھ کھولتا ہوا نظر آیا تو اسی پر اکتفا کرنا پڑا. مٹّی کے بنے ”کلّڑ“ میں دودھ تھامے معدہ کو چائے کا دھوکہ دینے لگے تو دکاندار نے کہا.
”یہ آج کل کے لونڈے دو بوتل میں ٹن ہوجاتے ہیں اور ہم تھے کہ پانچ بوتلوں کے بعد بھی زبان نہیں لڑکھڑاتی تھی.“ اس کا اشارہ سڑک پر پڑے شرابی کی طرف تھا. پتہ نہیں اس کی پانچ بوتلوں میں لعلِ ناب ہوتی تھی یا شربتِ روح افزا.
”ہمارے پاس آگرہ میں صرف ایک دن ہے اور ہمیں آگرہ فورٹ اور تاج محل دونوں دیکھنا ہے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ جلد سوجائیں.“ میں نے دوستوں کو مخاطب کیا.
لیکن جب ہوٹل پہنچ کر ٹی وی آن کیا تو ”منگل پانڈے، دی رائزنگ“ آرہی تھی، جس میں برٹش سامراج کے خلاف ہندوستانیوں کی پہلی فوجی بغاوت کو پیش کیا گیا تھا. ہم اس بغاوت کی چشم دید گواہ دلّی سے گزر کر آگرہ آئے تھے. اسی دلّی کے خمار میں پوری فلم دیکھنے کے بعد کچھ دوست سونے کا ارادہ کرنے لگے.
کمرے کے حبس سے اکتا کر میں ہوٹل کے ٹیرس پر آگیا. سامنے حدِ نگاہ تک آگرہ شہر پھیلا ہوا تھا جو کبھی اکبرآباد ہوا کرتا تھا.
دھندلی سی روشنی کے دامن میں پناہ گیر یہ شہر مغلوں کے ہندوستان میں مینارہ نور تھا. ظہیر الدّین محمد بابر سے لے کر اورنگ زیب عالمگیر نے اسی شہر سے ہندوستان پر حکومت کی. پھر مغلوں کو زوال ہوا تو اس زوال کے حزن میں یہ شہر سوکھتا چلا گیا. آج اس پر دھندلی روشنی مسلّط ہے. اتّرپردیش بجلی کے شدید بحران سے گزر رہا ہے لیکن ریاستی حکومت طلبہ کو مفت لیپ ٹاپ کی اسکیمیں فراہم کررہی ہے، بغیر بجلی کا لیپ ٹاپ اور وائی فائی کس مرض کی دوا ہیں. یہ اکھلیش یادو اور نریندر مودی ہی بتاسکتے ہیں.
جس تاج محل نے آگرہ کو شہرت دوام عطا کی، اسی تاج نے آگرہ کی معیشت کو ادھیڑ کر رکھ دیا. کئی صنعتیں محض اس لیے بند کردی گئیں کہ ان سے اٹھنے والا دھواں تاج کی چمک کو دھندلا دیتا ہے، چنانچہ تاج کی چمک برقرار رکھنے کے لیے مذکورہ صنعت سے منسلک افراد کے چہرے دھندلا دیے گئے. یہ دھند آگرہ سے نکل کر قریب کے فیروز آباد تک پہنچ گئی ہیں جہاں کانچ کی چوڑیوں کی صنعت موجود ہے. حج سے واپس آنے والی کچھ خواتین نے بتایا کہ غیر ملکی خواتین کانچ کی چوڑیاں حاصل کرنے کے لیے سونے کے کنگن تک دینے کے لیے تیار ہوتی ہیں. خواتین خواتین ہی ہوتی ہیں، خواہ حدودِ حرم میں ہوں یا چوڑیوں کے بازار میں، الغرض اب چوڑیوں کی اس شہرہ آفاق صنعت پر بھی تاریکی کے بادل محض اس لیے گھر آئے ہیں کہ ان سے اٹھنے والے دھویں سے تاج محل کی چمک متاثّر ہوتی ہے.
قرطبہ اور آگرہ میں عجیب سا تعلّق محسوس ہو رہا تھا. قرطبہ سے عرب گئے تو اس شہر کو گہن لگ گیا. مسجدِ قرطبہ اور الحمراء کے محلات اس گہن سے قبل کی درخشانی کی روایات بیان کرتے ہیں. اسی طرح جب آگرہ سے مغل گئے تو اس شہر کا پانی تلخ ہوگیا. تاج محل اور آگرہ قلعہ جیسی عمارتیں اس دور کی داستانیں بیان کرتی ہیں جب یہ شہر ہندوستان کی دلہن ہوا کرتا تھا.
رات گہری ہوتی جارہی تھی. سونے کی غرض سے میں سیڑھیاں اترنے لگا اور میرے ذہن میں کسی مفکّر کا قول گونج رہا تھا.
”افراد و اقوام کا عروج و زوال فہم انسانی سے بالاتر ہے. دنیا کا کوئی فلسفی، منطقی اور سائنسداں یہ نہیں بتا سکتا کہ کس بنیاد پر شہنشاہوں کی اولادیں بھیک مانگتی ہیں اور لوہاروں کے بیٹے کسرٰی کے ایوانوں میں تزلزل برپا کردیتے ہیں-“
گزشتہ دنوں بہادر شاہ ظفر کی پڑ پوتی کی تصاویر اخبارات میں شائع ہوئی تھیں جو نہایت کسمپرسی کے عالم میں اپنے شب و روز گزار رہی ہے، اور وہیں ایک لوہار کا بیٹا اطالوی ڈکٹیٹر مسولینی ایک عرصے تک بحر روم کی موجوں سے لپٹا دنیا کے لیے دردِ سر بنا رہا. واقعی افراد کا عروج و زوال فہم انسانی سے بالاتر ہے.
روم میں پہنچا تو ایک دوست جاگ رہا تھا. میرا ملول چہرہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا.
”کسی قوم کا ماضی شاندار نہیں ہونا چاہیے، ورنہ وہ حال اور مستقبل دونوں کو لے ڈوبتا ہے.“
”سو جاؤ! کل آگرہ والیاں دیکھنی ہیں.“ میں بھی زبردستی مسکرانے لگا.
(جاری ہے)
سفرنامہ آگرہ کا دوسرا حصہ یہاں ملاحظہ کریں
چھاگئے تسی تے
واووو....شاندار، بہت ہی شاندار
[…] سفرنامہ آگرہ کا پہلا حصہ یہاں ملاحظہ کریں […]