ایک تصویر ہزار الفاظ کی تحریر کی نسبت زیادہ بہتر ابلاغ کرتی ہے.
اسی کی ایک مثال یہ تصویر ہے.
اس ایک تصویر میں بھارت کا غصہ، جھنجھلاہٹ اور پریشانی عیاں ہے. اضطراب اس قدر زیادہ ہے کہ تہذیب، سفارتی آداب اور عمومی اخلاقیات بھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور اس کے ”میچور“ میڈیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے.
اس تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کشمیر کے حوالہ سے اس سے بھی زیادہ پریشر میں ہے جتنا کہ پاکستان کا خیال ہے. اس میں اس کی بے بسی بھی نظر آ رہی ہے کہ ابھی وہ پاکستان پر کشمیر کے حالات کے حوالہ سے کوئی ایسا الزام نہیں لگا سکا جو اسے کشمیر میں ڈھائے جا رہے انسانیت سوز مظالم کا جواز فراہم کر سکے یا اسے یہ رعایت دلا سکے کہ یہ دراصل کشمیریوں کی اپنی تحریک نہیں بلکہ پاکستان کی سازش ہے. نہ ہی وہ پاکستان کو اپنے تئیں کوئی تادیبی چرکا لگا سکا ہے.
اس تصویر میں ایک پیغام بھی ہے. بھارت ایک زخمی سانپ کی طرح لوٹ رہا ہے اور پاکستان کو ہر اس جگہ ڈسنے کی کوشش کرے گا جہاں اس کا بس چلا.
چیف آف آرمی سٹاف کی تصویر لگا کر اس نے اپنی حکمت عملی کی وضاحت بھی کر دی ہے. وہ پاکستانی فوج کو اصل ولن بنا کر دکھانا چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں اپنے تخریبی اور قتل و غارت کے پروگرام کو جواز دے سکے، یہ بتا سکے کہ پاکستان فوج اپنے ملک میں بھی لوگوں کو مار رہی ہے اور ہمسایہ ممالک میں بھی گڑبڑ کرتی ہے اور اسی کو ٹارگٹ کیا جانا چاہیے. سب سے بڑھ کر یہ کہ صرف فوجی چہرہ کو بطور دشمن دکھا کر سول ملٹری خلیج کے تاثر کو ابھارنے کی قبیح حرکت کی گئی ہے تاکہ دنیا کو باور کروایا جا سکے کہ سول حکومت کی تو سنی ہی نہیں جاتی ورنہ ہم سے ضرور معاملہ کر لیتے، ہم تو امن کوش لوگ ہیں لیکن پاکستانی فوج ہمیں زچ کیے ہوئے ہے.
دشمن نے اپنے عزائم ہر سطح پر واضح کر دیے ہیں. پاکستان میں اندرونی امن و امان اور سیاسی استحکام پاکستان کی بیرونی سکیورٹی کے لیے اب لازم و ملزوم ہے. البتہ دشمن کے لیے ہمارا پیغام یہ ہے کہ ہتھیار سے زیادہ اس ہتھیار کو چلانے والا اہم ہوتا ہے. کوئی کمپیوٹر پروگرام ڈاؤن لوڈ کر لینا ایک بات ہے، اسے صحیح طریقے سے آپریٹ کرنا بالکل دوسری بات. پورے بھارت میں ایک بھی بندہ اس قابل نہیں کہ فوٹوشاپ ہی ٹھیک سے استعمال کر سکے.
بچے، یہ تھپڑ نہیں ”شاباش“ والا پرنٹ مارک ہے.!
تبصرہ لکھیے