ملکی سطح کی سیاست ہو یا محض لسانی سیاست۔ پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ فی الوقت جتنی بھی جماعتیں اقتدار میں ہیں وہ کوئی نہ کوئی لسانی عصبیت رکھتی ہیں سوائے تحریک انصآف اور جماعت اسلامی کے۔ میری اس رائے پر اعتراض کیا جاسکتا ہے مگر فی الحال ہمارا موضوع ایم کیو ایم اور اس کی سیاسی حرکیات یا تنظیم پر نظر ڈالنا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان کی سب سے منظم جماعت ہے۔ اس تاثر کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اول ان کے رہنما اپنی پارٹی کے مخلص ہیں اور پارٹی کے آئین پر آخری سانس تک چلنے والے محسوس ہوتے ہیں۔ دوم : ایک اعلان ہوتا ہے اور کراچی سارا سمندر بن کر امڈ آتا ہے۔ مزید وجوہات بھی ہو سکتی ہیں مگر عموما یہی دو عنصر ہیں جو ذہن پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں ۔
کیا کبھی غور کیا گیا کہ واقعی یہ دونوں باتیں کسی بھی جماعت کے منظم کہلانے پر دال ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی سب سے زیادہ غیرمنظم جماعت ایم کیو ایم ہے کیونکہ ایم کیوایم کا تنظیم ساز ادارہ لندن میں بیٹھا ہے، وہی ساری حرکیات پر نظر رکھتا ہے اور احکامات جاری کرتا ہے۔ اُس ادارے کے تابع ایک لایعنی سا ادارہ پاکستان رابطہ کمیٹی کے نام سے قائم ہے، جس کے سرکردہ رہنماوں کو کبھی ساری عوام کے سامنے مرغا بنا دیا جاتا ہے، کبھی تھپڑ رسید کروائے جاتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں یہ خیال راسخ کروایا جاتا ہے کہ تم ہمارے تابع ہو اور ہمیشہ رہو گے، کبھی سر اٹھانے کی کوشش نہ کرنا۔ سو پاکستان کا یہ متابع ِلندن ادارہ اکثر ایسے احکامات سے بھی لاعلم رہتا ہے، جو وہاں سے کسی بھی کارکن یا کارکنوں کے گروپ کو دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ گروپس ہیں جنہیں لندن والے نائن زیرو کو زیر رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی بہت بڑی واردات انجام دینی ہو تو جنوبی افریقہ، دبئی، بنکاک و دیگر ممالک میں لندن کمیٹی کے تابع فرمانبرداروں کو استعمال کیا جاتا ہے جو وہاں سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں، اپنا کام انجام دیتے ہیں اور رفو چکر ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد نائن زیرو کو علم ہوتا ہے کہ ارے یہ تو ایم کیوایم کے نام پر کام ہوگیا۔ اور پھر عجیب کیفیت کے زیر اثر نائن زیرو اس امر پر مجبور ہوتا ہے کہ اس دھبے کو دھوئے کہ اس کے چھینٹے اسی کو ناپاک کر رہے ہوتے ہیں۔ یقینا بہت سے امور باہمی مشاورت سے بھی انجام پاتے ہوں گے مگر اکثر عملا یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔
اس ساری غیریقیینی صورتحال میں رابطہ کمیٹی پاکستان یا نائن زیرو کس طرح سے اپنی سیاسی حرکیات کو تنظیمی طور پر درپیش امور پر زیراستعمال لائے؟ یہ یقینا نہایت ہی مشکل و کٹھن عمل ہے جو اب تک پاکستان رابطہ کمیٹی انجام دیتی آ رہی ہے۔ نتیجتاً بہت سے عناصر اپنے ذاتی فوائد اکھٹا کرنے کے لیے ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم کو نہایت ہی محفوظ مقام سمجھ کر اس میں شامل ہوتے رہے ہیں خواہ وہ کارکن کی صورت میں ہو یا لیڈر کی صورت میں۔ اوپر سے نیچے تک ایسے لوگ ایم کیو ایم میں موجود ہیں جن کو مہاجر تحریک یا الطاف حسین سے کوئی غرض نہیں، وہ میدان میں آکر الطاف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں اور زیر زمین اپنے ذاتی امور کی انجام دہی میں مشغول رہتے ہیں۔ کارکن سطح پر ایک مثال دوں گا کہ شیعہ سنی لڑائی کا ایک محفوظ پلیٹ فارم ایم کیو ایم ہے اور اس میں ایم کیو ایم کے مختلف لیڈرز شامل ہیں۔ ایم کیو ایم کے یونٹس و سیکٹرز کو بھی تب اس بات کا علم ہوتا ہے جب ایسے کارکن پولیس کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پھر باقاعدہ انکشاف ہوتا ہے یہ تو لشکر جھنگوی کے لیے کام کر رہا تھا اور فلاں تو سپاہ محمد کا کارکن تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح مالی فوائد سیمٹنے والے بہت سے عناصر کراچی کے بدنام زمانہ علاقوں لانڈھی، کورنگی، ملیر کے علاقوں سے نکل کر اب کلفٹن و ڈیفینس میں کروڑوں کی پراپرٹیز کے مالک ہیں۔ کیسی تنظیم ہے یہ؟ کیسا منظم سیاسی ادارہ ہے؟ جس کے راہنما آپس میں ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ محض ایک خوف کی سی کیفیت ہے اور چلتے چلے جا رہے ہیں ۔
ایم کیوایم منظم ادارہ نہیں بلکہ خو ف کا مجموعہ ہے خواہ وہ اپنے کارکنان و ذمہ داران کے لیے ہو یا جہاں اس کا سایہ پڑ جائے. اس کے باوجود کراچی کی مہاجر عصبیت مجبور ہے۔ بھٹو کے کوٹہ سسٹم کے بعد مہاجروں کے پاس کوئی ایسا دروازہ نہیں جہاں وہ اپنا مقدمہ پیش کرسکیں۔ ان کی آواز صرف ایم کیو ایم ہی بنتی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا مینڈیٹ اب تک کوئی اور حاصل نہ کرسکا۔ جماعت اسلامی نے خوب ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا مگر مہاجروں کے سامنے ایسے اسباب موجود ہیں جنھوں نے کبھی بھی ان کے دل ان کی جانب مائل نہیں ہونے دیے۔ ایک عرصے کے بعد عمران خان نے کراچی کا رخ کیا تو کراچی نے ایک نئی سانس لی اور اس کی گرماہٹ پورے پاکستان نے محسوس کی مگر افسوس کہ تحریک انصاف بھی کراچی کو اپنا نہ بنا سکی، اور ایک مرتبہ پھر مینڈیٹ ایم کیو ایم کے پاس محفوظ رہا۔
اس سرسری خاکے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر غیب سے مدد ہوئی ہے، اور خود ایم کیو ایم اپنی روش تبدیل اور اپنی سیاست کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی جانب مائل نظر آتی ہے۔ مگر ہر طرف غیر یقینی کی صورتحال ہے۔ یہ وقت، ریاست کے اعصاب کا امتحان ہے کہ وہ اس موقع کو ضائع نہ کرے اور ایم کیو ایم کے ان لوگوں کو سپورٹ کرے جنہوں نے تبدیلی کی جانب قدم بڑھایا ہے۔ یہ قدم مزید مضبوط ہو سکتا ہے، اگر ان کی پیٹھ تھپتھپائی جائے، اور سیکیورٹی کا احساس دلایا جائے۔ انہیں ریاست اپنی آغوش میں لے لے بصورت دیگر لندن والے ہاتھ دراز ہونے کے امکانات ہیں۔ لندن والوں کو کمزور کرنے کے لیے یہاں والوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔
مینڈیٹ والی جماعت کو ختم نہیں کیا جاسکتا بلکہ یہ بہت سے بھڑکتے لاووں کو الائو دینے کے مترادف ہوگا۔ اس کا یہی حل ہے کہ مثبت راستہ اپنایا جائے۔ اگر یہ لوگ واقعتا سچے ہوئے تو آگے جا کر لندن سے مکمل طور پر اپنے آپ کو علیحدہ کر لیں گے، ورنہ خود ہی سارا معاملہ بےنقاب ہوجائے گا اور ریاست پر کوئی حرف نہیں آئے گا، اور یہ اپنی موت آپ ہی مرجائیں گے۔
تبصرہ لکھیے