ہمارے روایتی نظامِ عدل و انصاف کے تحت آپ کو خود کو بےگناہ ثابت کرنے میں سالوں لگ جائیں گے۔ کوئی معجزہ ہی آپ کو اس مشکل سے نکال سکے گا.
اچھی خبر یہ ہے کہ حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں اور جدید ٹیکنالوجی روایتی نظام کی جگہ لینے کو تیار ہے۔ پنجاب پولیس میں شکایات کا آن لائن اندراج متعارف کرائے جانے سے ایسے معجزات حقیقتاََ رُونما ہو رہے ہیں۔ میری طرح شاید یہ انکشاف باقی پاکستانیوں کو بھی خوُشگوار حیرت میں مبتلا کر دے مگر حقائق یہی کہتے ہیں کہ اس سال فروری میں انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس مشتاق احمد سُکھیرا کا متعارف کرایا گیا ’’پولیس کمپلینٹ سنٹر‘‘ پولیس کے روایتی نظام میں تبدیلی اور عوامی خدمت کے شعبے میں ایک انقلاب ثابت ہو رہا ہے۔
مہنگائی، بےروزگاری، لوڈ شیڈنگ اور بُرے معاشی حالات سے تنگ عوام کے لیے پولیس کا غیرمہذب رویہ اور عدم تعاون مسائل میں اضافے اور سرکاری اداروں پر عدم اعتماد کی وجہ بنتا ہے۔ رشوت ستانی، درست اور قابلِ دست اندازی درخواست پر بھی ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونا، بےگناہ افراد کی گرفتاری، جھُوٹی ایف آئی آر کا اندراج اور غیر تسلی بخش تفتیش، پولیس سے متعلقہ ایسے مسائل ہیں جن کا عوام کو سب سے زیادہ سامنا ہے۔ مگر اب جدید ذرائع ابلاغ کو بروئے کار لاتے ہوئے ای میل، کال، ایس ایم ایس اور ویب سائٹ کے ذریعے ان مسائل کے خلاف شکایات اعلی پولیس حکام تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ آن لائن سسٹم میں درج کرائی گئی شکایت تک سائل اور پولیس حکام، دونوں کو رسائی حاصل ہوتی ہے تاکہ حکام شکایت کا جائزہ لے کر اس کے ازالے کے لیے کام شروع کر سکیں اور سائل ٹریکنگ کے نظام کی مدد سے اپنی شکایت پر ہونے والے ایکشن سے با خبر رہے۔ کاغذ کے پلندوں سے آزاد یہ ڈیجیٹل نظام نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ ریکارڈ کی تلاش بھی صرف چند کلکس کی مدد سے کی جا سکتی ہے۔
مختلف سطحوں پر نگرانی کا بہترین نظام ’’پولیس کمپلینٹ سنٹر‘‘ کو مزید ممتاز بناتا ہے، یہاں تک کہ آئی جی پنجاب آن لائن نظام میں لاگ اِن ہو کر ساری کارروائی کی تفصیلات دیکھتے ہیں۔ نگرانی کا یہ مئوثر نظام ہر رینک کے پولیس آفیسرز کو جوابدہ بناتا ہے اور ایسے افسران جو عوامی شکایت پر خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھاتے، اُن کے خلاف محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اسسٹنٹ آئی جی کمپلینٹس (AIG Complaints)، سیّد خرم علی، سنٹرل پولیس آفس میں ’’آئی جی پنجاب پولیس کمپلینٹ سنٹر‘‘ کو دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے سنٹر کی افادیت پر بات کرتے ہوئے کہا، ’’لوگ سینکڑوں میل کا سفر طے کر کے اپنی شکایات آئی جی صاحب کی کھُلی کچہری میں جمع کرانے آتے تھے یا ڈاک کے ذریعے بھیجتے تھے جس پر ان کا بہت سا پیسہ اور وقت ضائع ہوتا تھا اور کارروائی کا عمل بھی سست تھا۔ اس کے برعکس’’پولیس کمپلینٹ سنٹر‘‘ پر ڈیجیٹل ذرائع سے درج کی گئی درخواست سے نہ صرف پیسے اور وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ شکایات پر کارروائی کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔ فوری جواب، درخواست پر سائل کی رائے کا اظہار اور پیروی کا نظام، پولیس آفیسرز کی جواب دہی، نقائص سے پاک سافٹ وئیر، بہترین مانیٹرنگ اور سب سے بڑھ کرسائلین کا اطمینان اور گلوخلاصی اس نظام کی چند نمایاں خصوصیات ہیں۔‘‘
فروری 2016ء میں شروع کیے گئے اس نظام میں اب تک مختلف ذرائع سے موصول ہونے والی 14000 سے زائد شکایات درج کی جا چکی ہیں، جن میں سے 72 فیصد شکایات کارروائی کے بعد خارج کی جا چکی ہیں جبکہ باقی 28 فیصد پر کارروائی جاری ہے۔ خارج کی جانے والی درخواستوں میں سے37 فیصد شکایات کا ازالہ کیا گیا، 35 فیصد شکایات جھُوٹی ثابت ہوئیں، 15 فیصد شکایات فریقین کی باہمی رضا مندی پر خارج کی گئیں جبکہ 13 فیصد شکایات ناقابلِ دست اندازی یعنی ایسے معاملات سے متعلق تھیں جن میں پولیس کا براہِ راست عمل دخل ممکن نہیں۔ درخواستوں پر بروقت کارروائی کا تناسب بتاتا ہے کہ عوامی شکایات کے ازالے کے لیے پنجاب پولیس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت مئوثر ثابت ہوا ہے۔
ذمہ دار شہریوں سے توقع کی جانی چاہیے کہ وہ اس سروس سے صحیح طور پر فائدہ اُٹھائیں گے اور اس کا استعمال پہلے قائم کی جانے والی ہیلپ لائنز کی طرح غیر ضروری کالز کر کے نہیں کریں گے۔ اگر کسی شہری کو کوئی ایمرجنسی پیش آ جائے تو اس مقصد کے لیے پہلے سے موجود سروس 15 پر فوراََ کال کی جائے جبکہ 8787 چونکہ ایمرجنسی ہیلپ لائن نہیں ہے، اس لیے اسے صرف اس وقت ڈائل کیا جائے جب کسی شہری کو پولیس سے متعلقہ کسی مسئلے کا سامنا ہو۔
آٹھ سات، آٹھ سات - شاہنواز سرمد

تبصرہ لکھیے